وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جائز مطالبات نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔
قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمارے تمام جائز مطالبات کو مسترد کردیا گیا، حکومتی اتحاد کے وکلا نے درخواست کی مگر انہیں فریق نہیں بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ 4 ججوں کی اکثریتی رائے کے بعد خارج کیا گیا تھا، ہم نے ہاتھ جوڑ کر استدعا کی کہ اس کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔
وزیر قانون نے مزید کہا کہ آج عدالت عظمیٰ کے جونیئر ججز کا ایک اور چھ رکنی بینچ بنایا گیا، جنہوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے بینچ کے فیصلے کو اُڑا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کو آئینی اور سیاسی بحران سے بچانے کےلیے یہ معاملہ فل کورٹ میں لے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ایوان کی 55 فیصد نشستیں پنجاب سے ہیں، اگر آج دو صوبوں کا الیکشن کروادیا جائے تو قومی اسمبلی کے انتخابات میں وہاں سیاسی حکومتیں ہوں گی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسی بات کو سامنے رکھ کر پاکستان کے سب سے بڑے ایوان نے متفقہ قرارداد پیش کی۔
وزیر قانون نے کہا کہ چیف جسٹس سے استدعا کی گئی کہ معاملے کی حساسیت کو دیکھیں، مذکورہ درخواستیں ناقابل سماعت ہوچکی ہیں، چار ججز ان درخواستوں کے خلاف فیصلہ دے چکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے آئینی بحران کو مزید گہرا ہونے سے بچانے کےلیے فل کورٹ کی استدعا کی۔ مجھے آج بہت دکھ اور افسوس ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومتی وکلاء کو سنا ہی نہیں گیا، انہیں فریق ہی نہیں بنایا گیا، دو اسمبلیوں کو توڑنے کا مقصد ملک میں سیاسی تقسیم پیدا کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عدل کے ایوان میں لوگ مختلف آرا سن رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں ملکی ادارے اپنے دائرہ کار کے اندر کام کریں، ہم انتخابات سے بھاگنے والے نہیں۔
وزیر قانون نے کہا کہ ہم میں وہ بھی ہیں جو چھ چھ بار جیت کر اور مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروا کے آئے ہیں، آج فیصلہ صادر کردیا گیا اور خود ہی الیکشن شیڈول بھی جاری کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اور مسئلہ بھی سامنے ہے، یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ اس ادارے نے سیاسی انجینئرنگ کا حصہ بن کر سیاسی کلچر کو نقصان پہنچایا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 2019 کے بعد فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی، پوچھتا ہوں کیا اس مقدمے میں عجلت پاکستان کو سیاسی استحکام دے گی؟ کیا یہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے؟
انہوں نے کہا کہ ایک ضدی شخص کی انا کی تسکین کےلیے دو اسمبلیاں توڑی گئیں۔