23 مارچ1973ءکو لیاقت باغ فائرنگ کے واقعے میں خان عبدالولی خان محفوظ رہے، وہ کارکنوں کی لاشیں لے کر صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) پہنچے تو ہر طرف کہرام برپا تھا۔ سرخ پوش نوجوان انتہائی مشتعل تھے، چاہتے تھے کہ اس سانحے کا مسلح جدوجہد سے انتقام لیا جائے لیکن اس موقع پر خان عبدالولی خان نے انہیں پُرامن رہنے کا پیغام دیا اور واضح کیا کہ ہم امن کے داعی ہیں، مسلح جدوجہد ہمارے نظریے اور فکر کا حصہ نہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک بڑے سیاسی رہنما نے بڑے دل، حوصلے اورصبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو مزید تقسیم ہونے سے بچایا۔ 4اپریل 1979ءبھی پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن ہے کہ جب ایک منتخب وزیراعظم کو ایک فوجی آمر ضیاالحق نے پھانسی دی اور ان کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی بینظیر بھٹو شہید کو پابند سلاسل کیا اور بیٹوں کو جلاوطنی کاٹنا پڑی۔ اس سانحہ نے پیپلز پارٹی کے جیالوں سمیت سیاسی جدوجہد کرنے والے تمام کارکنوں کو خون کے آنسو رلائے، پُرتشدد احتجاج ہوا، گرفتاریاں ہوئیں، کوڑے مارے گئے حتیٰ کہ سیاسی قیدیوں کو قید تنہائی میں رکھا گیا، برف کی سلوں پر لٹایا گیا اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو کچلنے کے لئے ہر وہ حربہ آزمایا گیا جس کا تصور کرتے ہوئے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ شاہ نواز بھٹو پُراسرار طورپر بیرون ملک اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ مرتضیٰ بھٹوکراچی میں گھر کی دہلیز پر قتل کر دیئے گئے۔ یہ بیگم نصرت بھٹو کا صبر تھااور بے نظیر بھٹو کی آزمائش تھی کہ وہ چاہتیں تو اپنے والد کے سیاسی قتل کا انتقام لینے کے لئے ہر طرف آگ لگا دیتیں اور سندھ میں نفرت کے ایسے بیج بوئے جاتے کہ جس کی فصل کاٹتے ہوئے بھی کانٹے چبھتے لیکن ماں بیٹی نے ایسا ہرگز نہیں کیا اور فیڈریشن کی مضبوطی کا نعرہ لگایا، مخالفین کے ساتھ رابطہ کیا پھر پاکستان اور امت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں اور اپنا بھرپور سیاسی کردار نبھایا۔ یہی سیاسی بصیرت شہید بی بی کو دیگر سیاسی قائدین سے بڑا مقام دلاتی ہے ۔ 26اگست 2006ءکی تاریخ بھی کسی بڑے سانحے سے کم نہیں جب پرویز مشرف نے نواب اکبر بگٹی کو ایک نام نہاد آپریشن کی آڑ میں شہید کر دیا۔ نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک نے زور پکڑا اور آج تک ہم اس کے اثرات بھگت رہے ہیں۔پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں ہی 7دسمبر 2007ءسہ پہر چار بجے انتخابی جلسہ عام کے اختتام پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قاتلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا۔ پورے ملک میں اس کا شدید رد عمل ہوا۔ جلاؤ گھیراؤ کیا گیا۔ ہرطرف آگ کے شعلے بھڑکے، ایسے میں شہید بی بی کے شوہر آصف علی زرداری عوام کے سامنے آئے، انہوں نے ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ بلند کرکے اس آگ کو ٹھنڈ ا کیا اور بی بی شہید کے قتل کی تحقیقات، عدالتی و قانونی کارروائی پر یقین ظاہر کرتے ہوئے جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دے کر تمام جمہوریت پسند قوتوں پر واضح کر دیا کہ آمریت کا مقابلہ صرف جمہوریت ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ آپ ان چار تاریخی واقعات کا تجزیہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہر موقع پر سیاست دانوں نے پاکستان اور جمہوریت کو بچانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ یاد رکھئے سیاست دان مخالف سیاست دان کا ہمیشہ جوڑی دار ہوتا ہے۔ اسے کسی نہ کسی دن مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی پڑتا ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بغیر مذاکرات کی میز پر ہی کامیابی و ناکامی ملتی ہے۔ آپ تاریخ میں میاں محمد نواز شریف کی مثال دیکھ سکتے ہیں یا بے نظیر بھٹو شہید کے ویژن کو سامنے رکھیں تو یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ دورِ حاضر کے دونوں بڑے سیاست دانوں نے مذاکرات کے ذریعے ہی مسائل کا حل میثاق جمہوریت کی صورت میں تلاش کیا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ تبدیلی سر پر آچکی ہے۔ عوام کے مقبول ترین لیڈر عمران خان نے اقتدار سے آئینی طورپر نکالے جانے کے بعد زوال سے عروج حاصل کرلیا ہے۔ اب ان کا کوئی مد مقابل نہیں۔ عوامی طاقت کا نشہ سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ ان کی مقبولیت کا گھوڑا تمام مخالفین کو پیچھے چھوڑ کر سرپٹ دوڑے جارہا ہے لیکن وہ سیاست کی اس ریس میں ناکام نظر آتے ہیں۔ تشدد، دھمکی، زور زبردستی، جلاؤ گھیراؤ کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سہاروں کی تلاش کرنے کے نت نئے طریقے، ترلے، واسطے ایسی فصل ہے جو کل انہیں اپنے ہاتھوں سے ہی کاٹنا پڑے گی، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں ہم زمان پارک میں کسی بڑے سانحے سے بال بال بچ گئے ورنہ دوست نما دشمنوں نے تو ملک بھر میں دنگا فساد برپا کرنے کے لئے پٹرول بم تک چلا دیئے تھے۔ سازش تو یہی نظر آتی ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی لاشیں گرتیں،ایسی بحرانی صورت حال پیدا ہوتی کہ جس پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہ ہوتی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ جب ایک بڑے سیاسی رہنما کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، وفاقی پولیس پنجاب پولیس کی معاونت سے عدالتی حکم کی تعمیل کرانے زمان پارک میں ملزم کے گھر پہنچی اور ایک منصوبہ بندی کے تحت جلاؤ گھیراؤ کیا گیا۔ ذرا تصور کیجئے اگر ڈنڈا بردار پولیس کے ہاتھوں میں بندوقیں ہوتیں اور ان حالات میں گولی چلتی اور چند لاشیں خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان پہنچتیں تو کیساماتم برپا ہوتا۔ یہ منظر سوچتے ہی دل دہل جاتا ہے۔ جمہوریت کہاں ہوتی، عدل و انصاف کی شراکت کس انجام کو پہنچتی، ہم کہاں کھڑے ہوتے؟ ابھی خطرہ ٹلا نہیں، عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔