• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران ، چین کی قیادت میں اس حسین اور قابلِ تحسین یوٹرن پر کیوں مجبور ہوئے؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ اگرچہ عرب اور ایران تنازعے کی نسلی، تاریخی اور فقہی جہتیں بھی تھیں لیکن اصل عامل امریکہ تھا۔ امام خمینی کے انقلاب کے بعد ایران مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرورسوخ بڑھارہا تھا اور عرب ممالک اسے اپنے لئے خطرہ سمجھ رہے تھے۔ ایرانی خطرے کے مقابلے کے لئے عرب ممالک کا امریکہ پر انحصار تھا۔ لیکن سعودی عرب پہلی مرتبہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے سے ناراض ہوا ۔ صدام حسین سے ناراضی اپنی جگہ پر تھی لیکن سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نوے کی جنگ کے برعکس اب کی بار امریکہ کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ عراق پر حملہ نہ کرے کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کا انہیں نقصان اور ایران کو فائدہ ہوگا۔ دوسری بڑی مایوسی سعودی عرب کو یمن کے سلسلے میں ہوئی کیونکہ اسے امریکہ سے جتنی مدد اور سرپرستی کی توقع تھی وہ اس نے نہیں کی ۔ اس دوران چین ایک متبادل اقتصادی اور عسکری طاقت کے طور پر سامنے آچکا تھا اور جب اس نے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کی تو سعودی عرب اور یواے ای وغیرہ نے اس کا خیرمقدم کیا۔ اسے امریکہ نے اپنے لئے خطرہ اور ایک لحاظ سے سعودی عرب کی گستاخی سے تعبیر کیا چنانچہ اس نے جمال خشوگی کے معاملے پر سعودی عرب کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی لیکن بلیک میل ہونے کی بجائے سعودی قیادت نے نہ صرف دورۂ سعودی عرب کے موقع پر امریکی صدر جوبائیڈن کے استقبال میں سردمہری کا مظاہرہ کیا بلکہ جب جوبائیڈن نے خشوگی کا معاملہ اٹھایا تو اس کے جواب میں محمد بن سلمان نے انہیں ابوغریب، گوانتاموبے اور افغانستان میں امریکہ کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کی مثالیں دے کر کھری کھری سنائیں۔ امریکہ سے مایوسی کے بعد سعودی عرب نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سیکورٹی خطرات کو کم کرے ۔ چنانچہ عرب ممالک نے امریکہ کے بغیر اپنی بنیادوں پر اسرائیل کے ساتھ پالیسی تبدیل کی ۔ ترکی کے ساتھ مخاصمت ختم کرلی ۔ قطر کو بھی دوبارہ دوست بنایا لیکن سب سے بڑے عامل چین کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرکے امریکہ پر انحصار کم کرنا شروع کیا۔دوسری جانب ایران جس قدر عرب دنیا میں امریکی اثرورسوخ سے پریشان تھا، اس قدر وہ چین کی آمد سے خوش تھا۔ ایران نے اگرچہ پراکسی وار کے میدان میں بڑی حد تک سعودی عرب پر یمن ، شام اور لبنان میں سبقت حاصل کی تھی لیکن اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اس کی معیشت شدید دبائو میں ہے۔ علاوہ ازیں عراق اور آذربائیجان میں اسرائیل کے اثرورسوخ کے بڑھنے سے بھی وہ خوفزدہ تھا۔ اسے ایک طرف امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائی کا ڈر ہے تو دوسری طرف اسے زیادہ خطرہ اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات کی بہتری سے محسوس ہوا۔ ایرانی قیادت سمجھنے لگی کہ اگر عرب اور اسرائیل کا اس کے خلاف اتحاد قائم ہوگیا تو یہ امریکہ اسرائیل اتحاد یا پھر امریکہ عرب اتحاد کے مقابلے میں اس کے لئے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے ۔ حجاب کے مسئلے پر خواتین کے احتجاج سے اسے اندرونی خطرات بھی محسوس ہونے لگے چنانچہ جب چین کی ثالثی میں اسے عرب ممالک کی طرف سے تعلقات کی بہتری کا گرین سگنل مل گیا تو ایران نے اسے غنیمت جانا۔

گزشتہ کالم میں میں نے تفصیل سے بیان کیا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت کا پاکستان کو کیا نقصان ہورہا تھا اور ان کی صلح سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا لیکن ساتھ ہی یہ بھی عرض کیا تھا کہ مواقع کے ساتھ ساتھ کچھ چیلنجز بھی سراٹھاسکتے ہیں ۔ ایک چیلنج تو یہ ہوگا کہ اس سے قبل سعودی عرب ،ایران کے تناظر میں بھی پاکستان کے ناز نخرے زیادہ اٹھاتا تھا لیکن اب وہ پاکستان کو اس آئینے میں نہیں دیکھے گا ۔ دوسری طرف چین کا مشرق وسطیٰ اور سمندر تک رسائی کے لئے پہلے زیادہ انحصار پاکستان اور سی پیک پر تھا لیکن اب ایران کی صورت میں اسے نیا آپشن بھی ہاتھ آگیا ہے کیونکہ ایران امریکہ کے اثر سے مکمل آزاد ہے جب کہ پاکستان کے معاملے میں چین کو یہ خدشات لاحق رہتے ہیں کہ کہیں دوبارہ عمران خان کی طرز کی حکومت نہ آجائے جو نہ صرف سی پیک کی راہ میں روڑے اٹکائے بلکہ ترازو کا پلڑا امریکہ کی طرف جھکا کر چین کے ساتھ معاملات کی ساری تفصیلات بھی اس کو فراہم کردے ۔ تادم تحریر کہا جاتا تھا کہ جو حیثیت اسرائیل کی امریکہ کے لئے ہے ، وہی حیثیت پاکستان کی چین کے لئے ہے لیکن اب چین کو ایران اور اسی طرح کے کئی دیگر آپشن میسر آجائیں گے۔ اس نئے ریجنل یا گلوبل آرڈر میں اب پاکستان کے لئے ایک مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ اس کے لئے اب زیادہ عرصہ دو کشتیوں (امریکہ اور چین) پر سواری ممکن نہیں رہے گی۔ اب دونوں طرف سے یہ دبائو بڑھے گا کہ پاکستان فیصلہ کرلے کہ وہ کس کے ساتھ ہے ۔ پاکستان کی اقتصادی بدحالی کے باوجود چین کا بھرپور مدد کے لئے نہ آنا اس کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ وہ پکی یاری کا یقین دلادے اور یہ تسلی کرادے کہ سی پیک وغیرہ کے معاملے میں عمران خان کی پالیسیوں کو دوبارہ نہیں دہرایا جائے گا۔ دوسری طرف شرائط پوری کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کی طرف سے معاہدہ نہ کرنے اور امریکہ سے عمران خان کے حق میں شیرمن اور زلمے خلیل زاد جیسے نیوکانز کی طرف سے مہم سے امریکہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ پاکستان چین کی طرف جانے سے باز آجائے ۔ اب سعودی عرب ایک علاقائی طاقت ہونے کے ناطے اور دیگر عرب ممالک مالی خوشحالی اور سرمایہ کاری یا تیل کے مراکز ہونے کے ناطے تو امریکہ اور چین کو ساتھ ساتھ چلاسکیں گے اور کوئی ایک بھی ان کے آگے لکیر نہیں کھینچ سکتا لیکن پاکستان کے سامنے اب اشاروں کنایوں میں لکیر کھینچی جارہی ہے اور بہت جلد واشگاف الفاظ میں طرفین کھل کر بھی مطالبہ کرنے لگ جائیں گے اور ظاہر ہے کہ پاکستان کے لئے کسی ایک کو ناں کرنا اتنا آسان فیصلہ نہیں ۔ اسی طرح ایران اور سعودی عرب نے تو اپنے لئے خطرات کم کردئیے لیکن پاکستان کے لئے ہندوستان اور افغانستان کے چیلنجز بدستور موجود ہیں جو اسے بڑی طاقتوں کا محتاج بناتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا اور پاکستان بھی ایران اور سعودی عرب سے سبق سیکھ کر اپنے تنازعات حل کرسکتے ہیں؟ بدقسمتی سے سردست جواب نفی میں ہے۔

تازہ ترین