ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
یوم الفرقان، غزوۂ بدر (17 رمضان سن 2ھ / 13 مارچ 624ء)اسلامی تاریخ کا وہ عظیم اور تاریخ ساز معرکہ ہے، جب اسلام و کفر اورحق و باطل کی پہلی معرکہ آرائی ہوئی، اس تاریخی معرکے میں فرزندانِ اسلام کی تعداد کفّار کی تعداد سے ایک تہائی تھی۔ وسائلِ جنگ کے اعتبار سے وہ بظاہر بہت کم زور تھے۔ جزیرہ نمائے عرب کا اجتماعی ماحول سراسر ان کے خلاف تھا۔ انتہائی خوش فہمی کے باوجودلشکرِ اسلام کے غلبے اور فتح مند ہونے کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی تھی۔
کفر اپنے پورے کرّوفر کے ساتھ حق کی بے سروسامانی سے نبردآزما ہونے کے لیے تین گنا فوج لے کر بڑے غرور و رعونت سے میدان میں آیا تھا، لیکن اللہ کی مدد و نصرت، رسولِ اکرمﷺ کی دعاؤں، آپﷺ کی دفاعی اور جنگی حکمتِ عملی، صحابۂ کرامؓ کی ایمانی فراست، جرأت و شجاعت، بے نظیر استقامت، بہادری اور جذبۂ ایمانی کی بدولت کفّار و مشرکین کو ایسی فیصلہ کن ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس نے ان کی کمر توڑ دی، پھر باطل کو کبھی ہمت نہ ہوئی کہ وہ حق کو للکارے۔مؤرّخین اور سیرت نگار حق و باطل کے درمیان اس تاریخ ساز معرکے کو ’’غزوۂ بدر الکبریٰ‘‘اور’’ بدرالعظمیٰ‘‘ کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اسے ’’یوم الفرقان‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ وہ دن جس میں حق اور باطل، ہدایت و ضلالت کے درمیان فرق آشکار ہوگیا۔ حق غالب رہا اور باطل مغلوب۔
طلوع اسلام اور دعوتِ حق کے نتیجے میں قدرتی طور پر دو گروہ ہوگئے تھے۔ ایک وہ جنہوں نے دعوتِ حق کو قبول کرتے ہوئے دینِ حق کی اشاعت میں حق و صداقت کے مثالی پیکر، پیغمبر اسلام ﷺ کی دعوتِ حق پر لبّیک کہتے ہوئے حق و صداقت کے ابدی راستے کو اختیار کیا، جب کہ دوسری طرف کفر و ضلالت اور باطل پرستوں کی پوری جماعت تمام وسائل و اسباب کے ساتھ حق کے خلاف صف آرا تھی۔
دینِ حق کے پیرو، اہلِ اسلام یہ کہتے تھے کہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس راہ کو سمجھیں، اختیار کریں، جب کہ کفّار اور مشرکین کی پوری جماعت، باطل کی پوری قوت، مشرکینِ مکّہ اس پر ڈٹے ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں، یعنی وہ مسلمانوں کے اعتقاد و ضمیر کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتے تھے، ان کی پوری جدوجہد، مخالفت اور کوششوں کا حاصل یہ تھا کہ اہلِ اسلام کو دینِ حق اور دعوت و توحید سے باز رکھیں۔
غزوۂ بدر کے اسباب:۔ مؤرخین اور سیرت نگاروں نے غزوۂ بدر کے متعدد مذہبی، سیاسی اور معاشی اسباب بیان کیے ہیں۔ جن کا اجمال درجِ ذیل ہے:
1۔ اسلام کی روز افزوں ترقی اور دین کی اشاعت سے قریشِ مکہ کے بت پرستانہ باطل نظام کو خطرہ لاحق تھا۔
2۔ مکے کی تیرہ سالہ زندگی میں کفّارِ قریش مسلمانوں پر بے انتہا مظالم ڈھاتے رہے، بالآخر انہیں سخت اذیت پہنچا کر مکے سے ہجرت پر مجبور کیا۔
3۔ جو مسلمان ہجرت کر کے مکے سے مدینے جا رہے تھے، ان پر مظالم ڈھائے جاتے اور ان کی جائیدادیں ضبط کی جاتی تھیں۔
4۔ مسلمانوں کے نئے مسکن یعنی حبشہ اور مدینے کے حکمرانوں اور با اثر افراد کو کفّارِ قریش مسلسل یہ ترغیب اور دھمکی دے رہے تھے کہ مکے کے ان تارکین کو پناہ نہ دی جائے۔
5۔ ان ناانصافیوں کے انتقام لینے کے لیے ہجرتِ مدینہ کے بعد مسلمان قریش پر معاشی دباؤ ڈالتے رہے ۔ قریش کے تجارتی قافلوں کی آمد و رفت کو یثرب کے علاقے میں روک دیا جاتا تھا۔ قریشِ مکہ کو اپنے تجارتی قافلے کے لوٹے جانے کا ہر وقت اندیشہ لاحق تھا، جب کہ دور دراز کے راستے اختیار کرنے پر قریش کو نقصان ہو رہا تھا۔ یہ تمام وہ اسباب ہیں جو آخر کار جنگِ بدر کا سبب بنے۔ (سید واجد رضوی / رسول اللہﷺ میدانِ جنگ میں۔ص 111)
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺاور جاں نثارانِ نبوتؐ نے مسلسل تیرہ برس تک ہر طرح کے مظالم برداشت کیے، آخر جب مکے میں ان کے لیے زندہ رہنا دشوار ہوگیا تو وہ مدینے چلے آئے، لیکن قریشِ مکہ نے انہیں یہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا، پے درپے حملے شروع کردیے، اب پیغمبر اسلامﷺ کے سامنے تین راہیں تھیں:(1) جس بات کو آپﷺ حق سمجھتے تھے، اس سے دست بردار ہوجائیں۔(2) اس پر قائم رہیں، لیکن مسلمانوں کو ہر طرح کی اذیت کا سامنا کرنے دیں۔(3) ظلم و تشدد کا مردانہ وار مقابلہ کریں اور نتیجہ اللہ پرچھوڑ دیں۔آپﷺ نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور نتیجہ وہی نکلا جو ہمیشہ نکلا ہے۔ یعنی حق فتح مند ہوا اور باطل ذلّت آمیز شکست سے دوچار۔
میدانِ کارزار کی طرف روانگی کے وقت اثنائے راہ میں حالات کی اچانک اور پرُخطر تبدیلی کے پیشِ نظر رسول اللہ ﷺ نے ایک اعلیٰ فوجی مجلسِ مشاورت منعقد کی، جس میں درپیش صورتِ حال کا تذکرہ فرمایا اور کمانڈروں اور عام فوجیوں سے تبادلۂ خیال کیا، اس موقع پر جاں نثارانِ اسلام، صحابۂ کرامؓ نے بھرپور جرأت و استقامت اور عزیمت کا اظہار کیا۔ صحابۂ کرامؓ کی دونوں جماعتوں انصاؓر اور مہاجرینؓ کے نمائندوں نے حق پر استقامت اور جاں نثاری و فدا کاری کے جن جذبات کا اظہار فرمایا، ذیل میں ان میں سے چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
مجلسِ مشاورت میں قافلۂ حق کے اوّل اوّل مسلمان، السّابق، الاوّل سیّدنا صدیق اکبرؓ نے نہایت والہانہ اندازمیں اظہارِ جاں نثاری فرمایا اور بسر و چشم آپﷺ کے حکم کو قبول کیا اور مال و جان سے اطاعت کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔ اس کے بعد فاروق اعظمؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی اظہارِ جاں نثاری فرمایا۔
بعد ازاں مقداد بن اسودؓ کھڑے ہوئے۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ امام الانبیاء ، سیّد المرسلین حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام جب مقامِ ذفران پر پہنچے تو وہاں قیام فرمایا۔ اسی مقام پریہ اطلاع ملی کہ قریش کا لشکر بڑی شان وشوکت کے ساتھ بڑھاچلاآرہا ہے، تاکہ وہ اپنے قافلے کا بچائو کر سکے، اس اطلاع نے صورتِ حال کو بدل کر رکھ دیا۔ پہلے مسلمان ابو سفیان کے تعاقب میں بڑھے چلے آ رہے تھے، اب اچانک معلوم ہوا کہ قافلہ تو بچ کر نکل گیا ہے اور قریشِ مکہ ایک لشکرِ جرار کے ساتھ بڑھے چلے آرہے ہیں، اس لیے اس مقام پر حضور سرور عالمﷺ نے مجلس مشاورت منعقد کی۔ مہاجرینؓ، انصار، ؓ اوس وخزرج کے قبائل سب کو اس مجلس میں شمولیت کی دعوت دی ۔
جب سب جمع ہوگئے تو حضوراکرمﷺ نے صورتِ حال سے آگاہ فرمایا اور پوچھا اب تمہاری کیارائے ہے؟ اس موقع پرسب سے پہلے صدیق اکبرؓاٹھے اور بڑی خوب صورت گفتگو کی، پھر حضرت عمرؓ اٹھے، انہوں نے بھی اپنے جذبۂ جاں نثاری کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
پھر مقدادؓ اٹھے، انہوں نے عرض کیا :’’یارسول اللہﷺ! تشریف لے چلیے، جدھر اللہ نے آپﷺ کو حکم دیا ہے، ہم آپﷺ کے ساتھ ہیں، بخداہم آپﷺ کو وہ جواب نہ دیں گے جو جواب بنی اسرئیل نے موسیٰ علیہ السلام کو دیاتھا کہ’’جائیے آپ اور آپ کا خدااور ان سے جنگ کیجیے، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ‘‘بلکہ ہم یہ کہیں گے، تشریف لے چلیے، آپﷺ اور آپﷺ کا پروردگار اور جنگ کیجیے، ہم آپﷺ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے ۔اس ذات کی قسم ! جس نے آ پﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے ۔اگر آپ ہمیں برک الغماد تک بھی لے جائیں، تو ہم آپﷺ کے ساتھ چلیں گے اور آپﷺ کی معیت میں دشمن کے ساتھ جنگ کرتے جائیں گے، یہاں تک کہ آپﷺ وہاں پہنچ جائیں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت مقدادؓ کے ان ایمان افروز کلمات کو سن کر انہیں کلمۂ خیر سے یاد فرمایا اور ان کے لیے دعافرمائی۔ اس کے بعد آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ حضرت سعد بن معاذؓ یہ سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کیا:’’اے اللہ کے رسولﷺ !یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضورﷺہماری رائے پوچھ رہے ہیں۔‘‘
حضوراکرمﷺ نے فرمایا: بے شک !، یہ سن کر حضرت سعدؓ گویا ہوئے ۔’’بے شک، ہم آپﷺ پر ایمان لائے ہیں، ہم نے آپﷺ کی تصدیق کی ہے۔ ہم نے گواہی دی ہے کہ جو دین لے کر آپﷺ تشریف لائے ہیں، وہ حق ہے اور اس پر ہم نے آپﷺ کے ساتھ وعدے کیے ہیں ۔ ہم نے آپﷺ کا حکم سننے اور اسے بجالانے کے پیمان باندھے ہیں۔ یارسول اللہﷺ ! آپ تشریف لے چلیے، جدھر آپﷺ کا ارادہ ہے۔ ہم آپﷺ کے ساتھ ہیں۔ اس ذات کی قسم ، جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے،اگر آپﷺ ہمیں سمندر کے سامنے لے جائیں اور خود اس میں داخل ہوجائیں تو ہم بھی آپﷺ کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگادیں گے، ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ہم جنگ کے گھمسان میں صبر کرنے والے ہیں، دشمن سے مقابلے کے وقت ہم سچے ہیں، ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو ہم سے وہ کارنامے دکھائے گا، جس سے آپﷺ کی چشم مبارک ٹھنڈی ہوجائے گی ۔پس اللہ کی برکت پر آپﷺ روانہ ہوجائیے ۔‘‘
حضرت سعدؓ کے ان پاکیزہ اورمجاہد انہ جذبات کو سن کر حضور اکرمﷺ کی خوشی کی انتہانہ رہی۔ پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’روانہ ہوجاؤ۔ تمہیں خوش خبری ہو،اللہ تعالیٰ نے مجھے دوگروہوں میں سے ایک گروہ پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایاہے۔ بخدا میں قوم (کفارِ مکہ) کے مقتولوں کی قتل گاہوں کو دیکھ رہا ہوں ۔‘‘مجلسِ مشاورت انجام پذیر ہوئی۔رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو دشمن کے مقابلے کے لیے چلنے کی دعوت دی، وہاں سے روانہ ہوکر حضوراکرم ﷺ اور صحابۂ کرامؓ بدر کے میدان میں پہنچے۔
غزوۂ بدر کے موقع پر آپﷺ کی دفاعی حکمت عملی یہ تھی کہ فوج کے ہر حصے پر آپﷺ جو افسر مقر ر فرماتے، انہیں یہ بتاتے تھے کہ کفارِ مکہ آگے بڑھیں اور اتنی دور پہنچ جائیں تو ان پر سنگ باری کی جائے اور جب اس سے قریب آجائیں تو تیر اندازی شروع کی جائے۔ اگر مشرکین یک لخت حملہ کردیں تو انہیں آگے بڑھنے دینا اور جب یقین ہوجائے کہ تمہارے تیر کار گر ہوں گے تو اس وقت انہیں تیروں کا نشانہ بنانا اور جب وہ اور قریب ہوجائیں تو نیزوں سے کا م لینا اور جب وہ تلوار کی زد میں ہوں تو تلوار سے حملہ آور ہونا۔ان ہدایات سے آپﷺ کا مقصد یہ تھا کہ غیر دانش مندی اور گھبراہٹ میں کو ئی اقدام نہ کیاجائے، بلکہ جس وقت جس ہتھیار کے استعمال کرنے کا موقع ہو۔ اس وقت اسی سے کا م لیا جائے۔ جو ش اور جذبات میں آکر جنگ میں پہل نہ کی جائے۔ حملہ اسی وقت کیا جائے،جب حکم دیا جائے۔
دوسری طرف جنگ بدر میں عورتوں کے سپرد صرف بعداز جنگ مرہم پٹی کی ذمے داری ہی نہ تھی، بلکہ جنگ کے دوران جن تیر اندازوں کے تیر گرجائیں، انہیں اٹھا کر تیر اندازوں کو پہنچانے اور جنگ کرنے والے پیاسوں کو پانی پلانے کی خدمت بھی ان کے سپرد تھی۔ مجاہدین کو یہ ہدایت تھی کہ وہ دشمن کی عورتوں کو قتل نہ کریں۔صف بندی اور اس کے معائنے کے بعد آپﷺ نے جو خطبہ دیا، وہ فصاحت وبلاغت میں بے نظیر ہے۔ حضوراکرم ﷺ نے جہاد فی سبیل اللہ کو مسلمانوں کا سب سے بڑا شرف بتایا اور سب سے بڑی عبادت قرار دی۔
اس موقع پر آپﷺ کا تاریخ ساز خطبہ مجاہدینِ بدر کے مورال کو بلند کرنے، ان کی جرأت و شجاعت، دین پر استقامت اور اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردینے کا سبب بنا۔غزوہ ٔ بدر کو اسلام کی پوری عسکری تاریخ میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے، میدان بدر میں جہاں بدر کے میرکارواں، سرورکائنات، سالار اعظم حضرت محمدﷺ کی زیرقیادت صحابۂ کرامؓ نے جرأت واستقامت کی عظیم تاریخ رقم کی، وہیں یہ تاریخ ساز غزوہ کفر واسلام کا فیصلہ کن معرکہ بھی ثابت ہوا۔ یوم الفرقان ،یوم بدر درحقیقت اسلام کی عظمت و سربلندی کا مظہر اور بدر کی فتح اسلام کی عالم گیر ترویج واشاعت کا دیباچہ ثابت ہوئی۔