• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف کا پروگرام تادمِ تحریر التوا کا شکار ہے، حکومت اور قوم نے گُھٹنے ٹیک دیئے اور ناک بھی رگڑ لی، لیکن عالمی مالیاتی ادارہ ٹَس سے مَس نہیں ہو رہا۔ ہر اجلاس کے بعد آس دی گئی کہ ’’ٹاسک بڑی حد تک مکمل ہوگیا‘‘، لیکن یہ’’بڑی حد‘‘ کسی فیصلے تک نہیں پہنچ پا رہی۔ آخر آئی ایم ایف کے وہ کون سے ارکان ہیں، جنہیں مطمئن کرنا ممکن نہیں ہو رہا۔ دوست نہیں مان رہے یا دشمن روڑے اٹکا رہے ہیں۔ اِن دگرگوں معاشی حالات میں آئی ایم ایف کی مُہر مُلک کے لیے ناگزیر ہے، اِس لیے نہیں کہ وہ تین سال میں چھے ارب ڈالر کا قرضہ فراہم کرے گا اور ہم اِس قرضے کے بغیر بھوکے مرجائیں گے، بلکہ آئی ایم ایف پروگرام کی اہمیت یہ ہے کہ اِس سے وہ بین الاقوامی گارنٹی مہیّا ہوجائےگی، جس کے بعد عالمی مالیاتی ادارے اور ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ 

سڑکوں پر احتجاج، بات بات پر سپریم کورٹ جانےاور عالمی اداروں سے موجودہ حکومت سے عدم تعاون کی اپیلز سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے نادان دوستوں کی پُرجوش خواہش ہے کہ مُلکی نظام بیٹھ جائے، قوم بےیارومدد گار ہوجائے اور ایسے میں سیاسی مسیحا کا ظہور ہو، جو پھر جادو کی چَھڑی گُھما کر سارے مسائل حل کر دے، حالاں کہ یہی مسیحا کچھ عرصے پہلے تک اقتدار میں تھے اور اُن کے دَور میں مُلک جن حالات سے دوچار ہوا، وہ بھی سب کےسامنےہے۔اپنی حکومتوں کی کم زور معاشی پالیسیز پر تنقید کی جاسکتی ہے اور ہم بھی کرتےرہے ہیں۔ 

خاص طور پر معاشی پالیسیز میں تسلسل نہ ہونے کی بار بار نشان دہی کی، لیکن جس طرح اِس مرتبہ آئی ایم ایف نے ہمارے ساتھ سلوک کیا ہے، اِس پر آئی ایم ایف بھی قابلِ مذمّت ہے کہ اُس نے کم زور قوموں کی مدد کی ذمّے داری پوری نہیں کی، جو اس کے قیام کا اصل مقصد ہے۔ آئی ایم ایف کا کام دنیا میں پائے دار ترقّی کو سپورٹ کرنا ہے۔ اس کے لیے وہ کوئی غیر معمولی رقم نہیں بلکہ کچھ واجبی سی رقم دے کر اُس مُلک کی معیشت میں بین الاقوامی اکانومی کے پس منظر میں بہتری کے لیے گائیڈ لائنز دیتا ہے۔ ہمارا آئی ایم ایف سے معاہدوں کا ٹریک ریکارڈ ٹھیک ٹھاک ہے۔ اٹھائیس مرتبہ اِس کے پروگرام میں گئے اور کبھی بھی ڈی فالٹ نہیں کیا۔2016 ء میں نواز شریف کے دَور میں کام یابی سے اس کا پروگرام پورا کیا۔ اِس مرتبہ تو ایف اے ٹی ایف نے بھی کلیئرنس دے دی ہے۔ 

پاکستان کے دنیاسےتعلقات بھی اچھے ہیں۔ حکومت کی پالیسی بھی معیشت کو فروغ دینے والی ہے، پھر آخر آئی ایم ایف کو ایسی کیا تشویش یا پریشانی لاحق ہے کہ طرح طرح کے ٹیکسز لگوانے اور مختلف شرائط منوانے کے باوجود معاہدے پر آمادہ نہیں۔ یہ کسی عالمی ادارے کی ساکھ کے لیے اچھی بات نہیں، بلکہ اسے اُس کی پالیسی کا سقم ہی کہا جائے گا یا یہ کسی خاص نوعیت کا تعصّب کہلائے گا۔ 

خواہ وجہ کچھ بھی ہو، مگر پاکستان کو اِس طرح ڈو مور کی گردان میں پھنسائے رکھنا ایک عالمی ادارے کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ اقتصادی مہارت اپنی جگہ، لیکن بائیس کروڑ عوام کی عزتِ نفس پر بار بار وار کرنا اِس ادارے کے لیے کس طرح مناسب ہے، ممبر ممالک کو اس پر ضرور سوچنا چاہیے، جن میں اکثر ہمارے قریبی دوست ہیں۔ ہم بھی ان کے بُرے وقتوں کے ساتھی رہے ہیں، جیسے وہ ہماری مشکلات میں کام آئے۔

آئی ایم ایف کے190 ارکان ہیں، دوسرے الفاظ میں دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک اس کے رُکن ہیں۔ اِس ادارے کا بنیادی مقصد تمام رکن ممالک کو پائے دار ترقّی اور خوش حالی حاصل کرنے میں مدد دینا ہے۔ اِس مقصد کے لیے وہ ان مُمالک کی اُن اقتصادی پالیسیز کو سپورٹ کرتا ہے، جو مالیاتی استحکام اور تعاون کے لیے بنائی جائیں۔ آئی ایم ایف کا ہیڈ کوارٹر امریکی دارالحکومت، واشنگٹن میں ہے۔ اس کا قیام دوسری عالمی جنگ کے بعد بریٹن ووڈز کانفرنس کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ عالمی جنگ کے بعد یورپ سمیت دنیا کے بیش تر ممالک اقتصادی تباہی سے دوچار تھے اور ایک ایسے عالمی ادارے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی، جو تمام مُمالک کی مدد کرسکے۔ 

یہ ادارہ بیلنس آف پےمنٹس اور بین الاقوامی مالیاتی بحران میں اپنا خصوصی کردار ادا کرتا ہے۔ اِس حوالے سے دیکھا جائے، تو پاکستان کو آج دونوں ہی طرح کے مسائل کاسامنا ہے۔ خاص طور پر لدے ہوئے قرضوں کے سبب بیلنس آف پےمنٹس کا مسئلہ نہایت گمبھیر ہو چُکا ہے۔ اِن قرضوں کی وجہ کیا ہے، اِس بحث میں پڑے بغیر ہمیں اِس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے محتاج رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس فنڈ کہاں سے آتا ہے؟تو رُکن ممالک اِس ادارے کو فنڈز فراہم کرتے ہیں، جن میں امریکا، چین، جاپان، جرمنی، فرانس، اٹلی، برطانیہ، بھارت، روس، برازیل، کینیڈا، سعودی عرب، اسپین، میکسیکو، ہالینڈ، جنوبی افریقا، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، بیلجیم، سوئٹزر لینڈ، تُرکی، انڈونیشیا، سوئیڈن، پولینڈ، آسٹریا اور سنگاپور نمایاں ہیں۔ 

یہ سب ممالک اس کے بورڈ ممبرز بھی ہیں۔ اگر اِس فہرست پر نظر ڈالی جائے، تو ان میں سے بیش تر پاکستان کے اچھے دوست ہیں۔ امریکا کا فنڈز میں شیئر سب سے زیادہ ہے، جو اٹھارہ فی صد ہے، جب کہ چین، جاپان اور جرمنی کا شیئر6,6 فی صد ہے۔ اس فہرست میں مسلم مُلک بھی شامل ہے اور وہ ممالک بھی، جن کی دوستی کی ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ آخر پھر کیا وجہ ہے کہ محض ایک ارب ڈالرز کا قرضہ لینا بھی اِس قدر دشوار ہوگیا ہے کہ بہ حیثیت قوم شرم آنے لگی ہے۔ 

سوشل میڈیا ہو یا مین اسٹریم پرنٹ یا ٹی وی چینلز، سیاست دان اِن حالات کا ایک دوسرے کو ذمّے دار ٹھہراتے نظر آتے ہیں۔ ہر وزیرِ اعظم ناکام، تو وزیرِ خزانہ بے اثر ثابت کیا جا رہا ہے۔ اب وزیرِ خزانہ اور حکومت کی کام یابی کا پیمانہ یہی ہے کہ کیا وہ آئی ایم ایف سے قسط جاری کروا سکتے ہیں۔ جو ماہرین آج بڑے بڑے بھاشن دیتے ہیں، حکومت کی ناکامیوں کے اسباب گنواتےہیں، سیاست دانوں پر لعن طعن کرتے ہیں، یہ سب مختلف فوجی یا جمہوری حکومت کا حصّہ رہے ہیں، لیکن وہ خود پائے دار ترقّی کی بنیاد نہ رکھ سکے۔

ہم نے بارہا قوم کی اُن کم زوریوں کا ذکر کیا ہے، جو اسے معاشی طور پر مضبوط نہ کرسکیں اور یہی سبب ہے کہ آج وہ آئی ایم ایف کے آگے گُھٹنے ٹیکے ہوئے ہے۔ ہم قومی غیرت کی بات بھی نہیں کرتے کہ قوم، قرضوں کو اللّے تلّلوں میں اُڑانے کی عادی ہے۔ دنیا ہمارے بازاروں کی چہل پہل دیکھ کر پوچھتی ہے کہ کیا اِس قوم کو قرضے کی ضرورت ہے؟ ہم آئی ایم ایف کے غیر منصفانہ رویّے کا ذکر کرچُکے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم نے بھی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کسی پنجابی شاعر نے حسبِ حال کہا ہے، جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے، کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق تھا۔

اب اِس مرنے کے شوق نے ہم سے کیا کیا کروایا، یہ غور طلب ہے۔ ہمارے مُلک میں کرپشن، لُوٹے ہوئے اربوں ڈالرز اور بیرونِ مُلک رکھےکھربوں ڈالرز کا ذکر عام ہے۔فوجی حکومتوں نے ایّوب خان کے زمانے سے یہ بیانیہ شروع کیا کہ سوئس بینکس اور دوسرے ممالک میں تاجروں اور سیاست دانوں کے اربوں ڈالرز پڑے ہیں، اُن کی کھربوں کی جائیدادیں ہیں اور یہ سب مُلکی پیسا ہے، جو یہاں سے چُرایا گیا ہے۔ یہ رقم واپس آجائے، تو مُلک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ 

یہ سلوگن یا بیانیہ اِتنا دِل فریب تھا کہ پوری قوم اس کے سحر میں گرفتار ہوگئی، حالاں کہ مختلف ممالک اور عالمی بینکس اس طرح کی باتوں کی کُھلے عام نفی کرتے رہے۔ ہاں، یہاں کرپشن ہےاور یہ آفس کے باہر، اسٹول پر بیٹھنے والے سے لے کر اوپر تک موجود ہے۔ پَھلوں کی ریڑھیوں والوں ہی کو دیکھ لیں کہ وہ رمضان کے بابرکت مہینے میں کیسے مسلمان بھائیوں کو لُوٹ رہے ہیں۔ کیا یہ پھل صرف اشرافیہ خریدتی ہے؟بہرحال، اِس بیانیے نے ترقّی کی اور صرف جمہوری حکومتیں اور سیاست دان ہی ڈاکو اور لٹیرے قرار پائے، جنہوں نے اِس بیانیے کے مطابق پورا مُلک ہی لُوٹ لیا۔ 

جنہوں نے خُود کبھی ایک پیسے کا بزنس یا کوئی نوکری نہیں کی، وہ تجارت کو جرم قرار دینے لگے۔ گویا تاجر ڈکیت بنادئیے گئے۔ کوئی یہ تو بتائے کہ پڑوسی مُلک کے امبانی اور چینی علی بابا کے قریب قریب بھی کوئی پاکستانی تاجر ہے۔ کوئی سیاست دان یا پاکستانی تاجر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بیرونِ ممالک مَنی لانڈرنگ کرتا رہے اور کوئی اُسے پوچھے بھی نہیں، ایسا ممکن نہیں ہے۔ کیا یاد نہیں کہ کس کس پاکستانی ادارے کو منی لانڈرنگ کے الزام میں سزائیں ہوچُکی ہیں۔ اُن ممالک میں قانون اِس قدر سخت ہے کہ اُنھوں نے ٹرمپ، ایلون مسک اور بل گیٹس تک کو نہیں چھوڑا۔ 

وہ روز پیشیاں بُھگتتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ارب پتی تاجر ٹرمپ اور رشی سوناک وہاں مُلکوں کے سربراہ بھی بنے۔ آئی ایم ایف کی آنکھوں پر پٹّی بندھی ہے اور نہ ہی وہ بہری ہے، جب وہ دیکھتی ہے کہ پاکستان میں ہر طرف اربوں ڈالرز کی کرپشن کا شور ہے۔ اِس مُلک کے کرتا دھرتا اور حُکم ران بھی کہتے ہیں کہ ہمیں کسی سرمائے کی ضرورت نہیں، صرف لُوٹا پیسا لانے کی دیر ہے، تو پھر وہ بھی قرضہ دینے کے لیے انتظار کرواتی ہے کہ پہلے اپنا پیسا لائو، پھر بات کرنا۔ صاف ستھرے ہوجاؤ، کہیں ہمیں بھی چکمہ نہ دے دینا کہ خُود تمارے بھائی بند تم پر الزام لگا رہے ہیں۔ دوست ممالک بھی قرضہ نہ دینے کا یہی جواز دیتے ہیں۔

قابلِ غور امر یہ ہے کہ جب ہمارے دوست، بلکہ انتہائی قریبی اور برادر ممالک آئی ایم ایف کا اہم حصّہ ہیں، تو پھر ناک کون رگڑوا رہا ہے۔ اِس وقت آئی ایم ایف کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ ہم اُسے دوست مُمالک سے یہ لکھوا کر دیں کہ وہ ہمیں چھے ارب ڈالر کے قرضے جلد فراہم کردیں گے۔ بتاتے چلیں کہ چین کے زرِ مبادلہ کے محفوظ ذخائر3 ہزار بلین ڈالرز سے زاید ہیں، جب کہ سعودی عرب کی ایک تیل کمپنی نے گزشتہ سال161 بلین ڈالرز کا منافع کمایا۔ اگر یہ چاہیں اور ہم پر اعتبار کریں، تو اُن کے لیے چھے ارب ڈالر ایسے ہیں، جیسے ہمارے لیے چھے لاکھ روپے ہوں۔ دوست ممالک ہمیں قابلِ اعتبار کیوں نہیں سمجھ رہے؟اِس کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں۔ 

ایک تو یہ کہ ہم ہر وقت عدم استحکام کی کیفیت میں رہتے ہیں اور دوسری وجہ مسلسل بھیک مانگتے رہنا ہے۔ لیکن دعوے بڑے بڑے کرتے ہیں، جو بالکل غیر حقیقی ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر اور وزیر جو منہ میں آتا ہے، وہ بول دیتے ہیں، یہ دیکھےبغیرکےاُن کے الفاظ عالمی سطح پر پاکستان کے لیے کن مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔ سائفر کا بیانیہ، قطری خط کی داستانیں، سعودی شاہی فیملی کے خلاف مہمّات، چین کے خلاف پروپیگنڈا غرض کیا کیا گِنوائیں۔

عوام، سیاسی رہنما اور نام نہاد ماہرین اُن ممالک کے خلاف جو زبان استعمال کرتے ہیں، اُن کے خیال میں وہ اظہارِ رائے کی آزادی اور اُن کی علمی قابلیت کا ثبوت ہے، لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ دوسروں کو اپنی علمیت، تحقیق اور دانش وَری سے نوازنے سے پہلے اپنی قابلیت اپنی نسلوں کےسدھار کے لیے بھی استعمال کرلی ہوتی۔ جسے دیکھو، امریکا، کینیڈا اور برطانیہ پر لعن طعن کرتاملےگا، مگر اِس طرح کے افراد سے متعلق اکثریہی خبر سامنے آتی ہےکہ موصوف ان ہی ممالک میں پُرسکون زندگیاں گزار رہے ہیں۔ 

ان کے، دوسرے ممالک کےخلاف نفرت سے بَھرے فرمودات کے منفی اثرات یہاں رہنے والے عام شہریوں کے حصّے میں آتے ہیں۔ پھر تارکینِ وطن کا معاملہ بھی ایک غور طلب امر ہے، جن کا رویّہ مُلک و قوم کے لیے باعثِ دُکھ اور ایک طعنہ بن چُکا ہے۔ اُن کا دوسری کمیونٹیز سے موازنہ کرتےہوئےشرم آتی ہے۔اِن تارکینِ وطن کو جس طرح پاکستان کی اندرونی سیاست کے لیے استعمال کیا جارہاہے، اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ ہمارے لوگوں کا امیج دہشت گردی کے زمانے ہی سے مشتبہ رہا ہے، کسی بھی ایئرپورٹ پر جن لوگوں کو الگ قطار میں بٹھایا جاتا ہے، اُن میں ہمارے نوجوان ہی نہیں، بوڑھے بھی شامل ہوتے ہیں۔

پھر ترقّی یافتہ مُمالک برطانیہ اور امریکا کو لاتعداد گالیوں سے نوازنے کےبعد جس طرح اپنے آبائی وطن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں، وہ ان ممالک کے پالیسی میکرز کو بہت کچھ سمجھا رہا ہے۔ وہ رائے کی آزادی پر تو یقین رکھتے ہیں، لیکن باہر سے آنے والوں کی کڑی مانیٹرنگ بھی کرتےہیں، خاص طور پر ایسے لوگوں کی، جن پر دہشت گردی اور قانون شکنی کے الزمات ہوں۔ تارکینِ وطن ہم پر تو ڈالر اور پاونڈ کی وجہ سے رُعب جما لیں، لیکن اُن کی نئے وطن میں کیا اوقات ہے، وہ خُود بہتر جانتے ہیں۔ یہ سُن کر دُکھ ہوا کہ برطانیہ کی جیلوں میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی ہے۔ کچھ کرنا ہی ہے، تو چینی اور بھارتی تارکینِ وطن سے سیکھیں، جنہوں نے اپنی تعلیم اور ٹیکنالوجی میں مہارت سے اپنے آبائی وطنوں کی قسمت بدل ڈالی۔

آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ہم ایک انتہائی جذباتی قوم ہیں اور کام کے معاملے میں صفر۔ دوست چین، دشمن بھارت اور الگ ہونے والا بنگلا دیش سب ہی ترقّی کر رہے ہیں اور سب شِیروشکر بھی ہیں، تو سوچنا چاہیے کہ ہم کیوں پیچھے رہ گئے۔ یہ مُلک بھی قرضے لیتے ہیں اور واپس بھی کر دیتے ہیں۔ آئی ایم ایف میں ہارکسی حکومت یاوزیرِخارجہ کی ناکامی نہیں، یہ پوری قوم کی ہار ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ بائیس کروڑ افراد اپنے لیے کھانے پینے کی اشیاء تک پیدا نہیں کرسکتے۔ نعروں سے ہٹ کر کبھی یہ سوچا کہ کام کرنے اور صنعتی پیداوار بڑھانے کے لیے کس قسم کے حُکم ران ضروری ہیں، ماہرین کیسے ہوں، صرف بڑی بڑی باتیں کرنے والے درکار ہیں یا کچھ کر دِکھانے والوں کی ضرورت ہے۔ بہت سے ممالک کی مثالیں موجود ہیں، جو زمین سے آسمان پر پہنچ گئے، اُن کی نقل ہی کرلیں، تو آئی ایم ایف کی ذلّت سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔

سنڈے میگزین سے مزید