سابق وزیرِ اعظم تنویر الیاس کی نااہلی کے خلاف آزاد کشمیر سپریم کورٹ میں اپیل پر سماعت شروع ہو گئی۔
آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس راجہ سعید اکرم کی سربراہی میں فل بینچ سابق وزیرِ اعظم سردار تنویر الیاس کی اپیل پر سماعت کر رہا ہے، جسٹس رضا علی خان اور جسٹس خواجہ نسیم بھی بینچ میں شامل ہیں۔
تنویر الیاس کی جانب سے لیگل ٹیم کی قیادت ایڈووکیٹ رازق خان کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی سزا پر حکم امتناع دینے کی درخواست مسترد کر دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم نے معذرت نہیں کی، سابق وزیرِ اعظم نے کہا اگر توہین ہوئی ہے تو معافی مانگتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم ایوان اور وزارت عظمیٰ کا عہدہ بھی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں، وہ کہتےہیں ججز کو نکال دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم ایک چپڑاسی کو بغیر پراسس کے نہیں نکال سکتے، اسمبلی قانون بناتی ہے ہم صرف اس کی تشریح کرتے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم تنویر الیاس کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کو وضاحت کا موقع نہیں دیا گیا، آئین ہر شہری کو خود پر لگے الزامات کا جواب دینے کا موقع دیتا ہے۔
آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملٹی میڈیا پر ان کے تمام الفاظ چلائے تو انہوں نے تسلیم کیا، انہوں نے عدالت کے سامنے ہی توہین آمیز الفاظ کو تسلیم کیا، ان کے تسلیم کر لینے کے بعد کیا عدالت ان سے معافی مانگتی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم نے کہاکہ اگر یہ توہین ہے تو معذرت کرتے ہیں، وہ ویسے بڑےاسٹیٹ فارورڈ ہیں، مان لیا کہ انہوں نے ہی یہ کہا، جج بھی کوئی ایسا کام کرتا ہے تو اس کے خلاف بھی توہین کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ایک شخص تسلیم کر لیتا ہے کہ الفاظ بھی اسی کے ہیں اور توہین بھی کی ہے تو ہمارے پاس کیا آپشن رہ جاتا ہے، ہم اس وقت اپیل نہیں سن رہے، ہم ابھی یہ سماعت کر رہے ہیں کہ یہ اپیل قابل سماعت بھی ہے یا نہیں۔