پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایّامِ اسیری میں جیل سے اپنی بیٹی، بے نظیر بھٹّو کو ایک طویل خط لکھا تھا جو اُن کا آخری خط ثابت ہوا۔ وہ صرف ایک خط نہیں بلکہ بھٹو خاندان کی نجی زندگی کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اہم تصویر بھی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بہ حیثیت وزیرِ خارجہ جو تجربات حاصل کیے ان کا نچوڑ اس میں ملتاہے۔ انہوں نےاس کے ذریعے اپنی چہیتی بیٹی کو کئی اہم نصیحتیں بھی کی تھیں۔ اس میں ایک باپ کے اپنی بیٹی کے لیے پدرانہ شفقت کے جذبات سے بھی موجزن محسوس ہوتے ہیں۔ ذیل میں اس خط کے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔
میری سب سے پیاری بیٹی!
ایک سزا یافتہ قیدی کس طرح اپنی خوب صورت اور ذہین بیٹی کو اس کے یوم پیدائش پر تہنیت کا خط لکھ سکتا ہے جبکہ اس کی بیٹی جو خود بھی مقیّد ہے اور جانتی ہے کہ اس کی والدہ بھی اسی کی طرح تکلیف میں مبتلا اور اس کی جان بچانے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہ رابطے سے زیادہ بڑا معاملہ ہے۔ محبت و ہم دردی کا پیغام کس طرح ایک سے دوسری جیل اور ایک سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے؟
نہرو بھی اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتے تھے۔ نہرو نے بھی جیل سے اسے اس کے یوم پیدائش پر تہنیت کا پیغام بھیجا تھا۔ میں اس امر کا تذکرہ تم سے پہلے یا دوسرے خط میں کرچکا ہوں، جو میں نے تمہیں لکھا تھا اور دوسرے تین خطوط 1964ء میں جکارتہ سے لکھے تھے۔
جب تم چھوٹی بچی تھیں اور مری کانونٹ میں زیر تعلیم تھیں۔ صنم تو اور بھی چھوٹی تھی۔ میں نے اس طویل خط میں ذکر کیا تھا کہ نہرو نے کس طرح تاریخ عالم کے بارے میں اپنی بیٹی اندرا کو خطوط لکھے تھے۔ بعد میں یہ خطوط ایک کتاب کی شکل میں جمع کردیے گئے تھے۔
جکارتہ سے14 سال پہلے میں نے جو خط لکھا تھا اس میں تمہیں متنبہ کردیا تھا کہ میں نہرو کی نقالی نہیں کررہا ہوں۔ میں نے ان کی نقالی اس وقت بھی نہیں کی تھی اور نہ ہی اب میں ان کی پیروی کررہا ہوں۔ بے شک اس وقت میں جیل میں ہوں اور وہ بھی اس وقت جیل ہی میں تھے، جب انہوں نے اپنی بیٹی کو خطوط لکھے تھے۔ یہ عنصر میرے اور نہرو کے درمیان قدر مشترک ہے۔
دوسرا عنصر جو میرے اور نہرو کے درمیان قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ میں یہ خط اپنی بیٹی کو اس کی پیدائش کی سالگرہ پر لکھ رہا ہوں۔ لیکن میرے اور نہرو کے درمیان مماثلت بہت زیادہ نہیں ہے۔ نہرو کو جیل میں غیر ملکی حکمرانوں نے ایک جگہ عزت و وقار کے ساتھ رکھا تھا۔ انہوں نے آزادی کے حصول کے لیے جنگ کی تھی۔ وہ بھارتی عوام کے ایک عظیم لیڈر تھے۔ انہوں نے کیمبرج میں تعلیم پائی تھی اور بڑی عزت وقار کے مالک تھے۔
وہ کوئی گھٹیا قسم کے قیدی نہیں تھے اور نہ ہی سرکاری رقوم غبن کرنے والے تھے۔ وہ لاڑکانہ کے گائوں کی کوئی غیر اہم شخصیت نہیں تھے، جو حکمران ٹولے کے ہاتھوں موت کی کوٹھڑی میں گھل رہے تھے۔ میرے اور نہرو کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔ ان کی بیٹی تیرہ سالہ چھوٹی سی لڑکی تھی، جس نے اس زمانہ کی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت تک ان کی بیٹی سیاست کی آگ میں سے ہوکر نہیں گزری تھی، تمہارے گرد آگ جلا دی گئی ہے۔
اگر کوئی مماثلت ہے تو وہ اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ اندرا گاندھی کی طرح تم بھی تاریخ سازی کررہی ہو۔۔۔۔۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تذبذب نہیں کہ میری بیٹی جواہر لال نہرو کی بیٹی کے مقابلے میں، جسے بھارت کی دیوی کہا جاتا ہے، کہیں بہتر ہے۔ میں کوئی جذباتی یا ذاتی قسم کا اندازہ نہیں لگا رہا ہوں۔ یہ میری دیانت دارانہ رائے ہے۔
تم میں اور اندرا گاندھی میں ایک شے قدر مشترک ہے کہ تم دونوں یکساں طور پر بہادر ہو۔ تم دونوں پختہ فولاد کی بنی ہوئی ہو۔ یعنی تم دونوں کی قوت ارادی فولادی نوعیت کی ہے۔ لیکن تمہاری صلاحیت و ذہانت تمہیں کہاں لے جائے گی؟ عام طور پر تو یہ صلاحیت و ذہانت تمہیں اعلیٰ ترین مقام تک پہنچائے گی۔ لیکن ہم ایسے معاشرے میں زندگی بسر کررہے ہیں، جہاں ذہانت و صلاحیت ایک نقص شمار ہوتی ہے اور دم گھوٹنے والی معمولی قسم کی ذہانت ایک اثاثہ شمار کی جاتی ہے۔
سوائے تمہارے والد کے، قائد اعظم اور شاید سہروردی کے، اس ملک پر حکومت شعبدہ بازووں اور کپتانوں نے کی ہے۔ شاید اس صورت حال میں تبدیلی پیدا ہوجائے، اگر کوئی جنگ جو قسم کا نوجوان جدوجہد کا آغاز کرے۔ اگر حالات تبدیل نہیں ہوتے ہیں تو پھر تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ یا تو اقتدار عوام کو حاصل ہوگا یا پھر ہر شے تباہ و برباد ہوجائے گی۔
تمہارے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی۔ تمہاری دادی نے مجھے غربت کی سیاست کا سبق دیا۔ میں ان دونوں باتوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں تاکہ ان دونوں کا انضمام ہوسکے۔ پیاری بیٹی میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں۔ یہ پیغام آنے والے دن اور تاریخ کا پیغام ہے۔ صرف عوام پر یقین کرو۔ ان کی نجات و مساوات کے لیے کام کرو۔ اللہ تعالیٰ کی جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے۔ سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے۔
برصغیر کی پبلک زندگی میں کچھ کام یابیاں میرے کریڈٹ پر ہیں لیکن میری یادداشت میں صرف وہ کام یابیاں انعام و اکرام کی مستحق ہیں جن کے ذریعے مصیبت زدہ عوام کے تھکے ہوئے چہرے پر مسکراہٹیں بکھر گئی ہیں اور جن کے باعث کسی دیہاتی کی غم ناک آنکھ میں خوشی کی چمک پیدا ہوگئی ہے۔
دنیا کے عظیم لیڈروں نے جو خراج تحسین مجھے پیش کیا ہے، ان کے مقابلے میں اس موت کی کال کوٹھڑی میں، میں زیادہ فخر و اطمینان کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک بیوہ کے الفاظ یاد کرتا ہوں جس نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’صدر کو واریاں سولر سائیں‘‘ ، اس نے یہ الفاظ اس وقت کہے تھے جب میں نے اس کے کسان بیٹے کو غیر ملکی وظیفےپر باہر بھیج دیا تھا۔
بڑے آدمیوں کے نزدیک تو یہ چھوٹی باتیں ہیں لیکن میرے جیسے چھوٹے آدمی کے لیے یہ حقیقتاً بڑی باتیں ہیں۔ تم بڑی نہیں ہوسکتی ہو جب تک کہ تم زمین چومنے کو تیار نہ ہو، یعنی عاجزی کا رویہ اختیار نہ کرو۔ تم زمین کا دفاع نہیں کرسکتی، جب تک تم زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو۔ میں اپنی زمین کی خوشبو سے واقف ہوں۔ نظریات، اصول، تحریریں تاریخ کے دروازے سے باہر ہی رہتی ہیں۔ غالب عنصر عوام کی تمنائیں ہیں اور ان کے ساتھ مکمل ہم آہنگی ہے۔
جب اس راگ یا موسیقی کے معنی سمجھ لیے جاتے ہیں تو منزل کے نشان واضح ہوجاتے ہیں اور اصول و نظریات کو پیرلگ جاتے ہیں کہ وہ وقت پر اس راگ کی شان کو بڑھانے کے لیے آ موجود ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں عملیت کے نظریے کا پرچار کررہا ہوں۔ عملیت کے نظریہ میں تو بہت کچھ موقع و محل کے لحاظ سے آسانی ہوتی ہے۔ میں مسئلے کے اصل سبب کو تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ چیلنج کی اصل وجہ اور جدوجہد کے اصل سبب کو معلوم کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
میں اس جیل کی کوٹھڑی سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں، جس میں سے میں اپنا ہاتھ بھی نہیں نکال سکتا؟ میں تمہیں عوام کا ہاتھ تحفے میں دیتا ہوں۔ میں تمہارے لیے کیا تقریب منعقد کرسکتا ہوں؟ میں تمہیں ایک مشہور نام اور مشہور یادداشت کی تقریب کا تحفہ دیتا ہوں۔ تم سب سے قدیم تہذیب کی وارث ہو۔ اس قدیم تہذیب کو انتہائی ترقی یافتہ اور انتہائی طاقت ور بنانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرو۔ ترقی یافتہ اور طاقت ور سے میری مراد یہ نہیں کہ معاشرہ انتہائی ڈراؤنا ہوجائے۔
خوفزدہ کرنے والا معاشرہ، مہذب معاشرہ نہیں ہوتا۔ مہذب کے معنی میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور معاشرہ وہ ہوتا ہے جس نے قوم کے خصوصی جذبہ کی شناخت کرلی ہو۔ جس نے ماضی و حال سے مذہب اور سائنس سے جدیدیت اور تصوف سے، مادیت اور روحانیت سے سمجھوتا کرلیا ہو۔ ایسا معاشرہ ہیجان و خلفشار سے پاک ہوتا ہے اور کلچر سے مالا مال ہوتا ہے۔ اس قسم کا معاشرہ شعبدہ بازی کے فارمولوں اور دھوکہ بازی کے ذریعہ معرض وجود میں نہیں لایا جاسکتا۔
وہ روحانی یا آفاقی اقدار، تلاش کی گہرائی سے پیدا ہوسکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، میں نے ایک غیر طبقاتی ڈھانچہ تخلیق کرلیا ہے۔ یورپ کے مارکسٹوں نے کمیونزم سے انحراف کیا ہے اور انہوں نے ایسا موجودہ طبقاتی ڈھانچے سے سمجھوتا کرکے کیا ہے۔ ورنہ ایئریکو برلنگر ’’تاریخی سمجھوتے‘‘ کی کوشش نہ کرتا، جو دراصل بالآخر ایلڈو مورو کے قتل کا باعث ہوا۔
جب میں وزیر خارجہ تھا توا یک جرمن سفارت کار نے مجھ سے اسلام آباد میں 1965ء میں کہا تھا کہ افریقہ ایک برف کی چادر کی مانند ہے، جس پرتیل کی ایک موٹی تہہ جمی ہوئی ہے اور یہ کہ وہ اس حالت میں طویل عرصہ تک رہے گا۔ اس کے ایسا کہنے سے میں متاثر ہوا تھا۔
میرے جیسا دیسی آدمی ایک ایسے سفارت کار کے تجزیہ پر اعتراض یا تنقید نہیں کرسکتا تھا جس کا تعلق آقاؤں کی نسل سے تھا اور پھر وہ تو ایسے مشہور سائنس دان کا بھائی تھا جو میزائل بنانے کے لیے امریکہ منتقل ہوگیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں اس کے تجزیہ کا احترام کرتا ہوں لیکن میری منکسرانہ رائے میں افریقا گوکہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، اسے نظر انداز کیا گیا ہے اور اس کا تمسخر اڑایا گیا ہے، لیکن وہ دو عشروں سے کم عرصہ میں دنیا کے اسٹیج کے مرکز پر نمودار ہوگا یعنی مرکزی حیثیت اختیار کرجائے گا۔اور ایسا ہی ہوا ہے۔
جب میں پاکستان کی قسمت کا نگراں تھا تو 1975ء کے وسط میں، میں نے ان خاص قوتوں کے بارے میں ابتدائی تبصرہ کیا تھا جو عالمی سطح پر سرگرم تھیں۔ پھر1976ء اور 1977ء میں کئی مواقع پر میں نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ میں نے ہم وطنوں سے کہا تھا کہ تین خوفناک قوتیں سرگرم عمل ہیں جو کبھی ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں، کبھی ایک دوسرے سے تنازعہ کرتی ہیں۔
کبھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتی ہیں اور کبھی ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی کرتی ہیں۔ یہ قوتیں مذہب، کمیونزم اور نیشنلزم (وطنیت) ہیں۔ یہ تین نظریات افراد اور قوموں کے ذہن کو متاثر کررہے ہیں۔ میں نے ہم وطنوں سے کہا تھا کہ بجائے اس کے کہ ہم چمک دار زردہ بکتر پہن کر کسی ایک نظریہ کے لیے جہاد کریں۔
یہ بات علاقائی عالمی توازن کے حق میں ہے کہ ہم ان کے مشترکہ پوائنٹس (نکات) میں ہم آہنگی پیدا کریں اور تنازع اور ٹکراووالے نکات میں تلخی اور شدت پیدا کرنے سے پرہیز کریں۔ میں نے مزید واضح کیا تھا کہ ہنر تو یہی ہے کہ ایسا رول اس طرح ادا کیا جائے کہ اپنا نظریہ نہ تو کمزور ہو اور نہ ہی اس کے ساتھ وفاداری میں کوئی ردوبدل یا سمجھوتا کرنا پڑے۔ اس کا مطلب ’’جیو اور جینو دو‘‘ سے زیادہ ہے۔
یہ پاکستان کے بارے میں خط نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو میں ایک چھوٹی سی کتاب لکھ دیتا، جس کا عنوان ’’گلمپسز آف پاکستان ہسٹری‘‘ (پاکستان کی تاریخ کے مناظر) ہوتا۔ وقت اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ قوم بدترین قسم کے بحران میں مبتلا ہوگئی ہے۔ وہ بقاء اور شکست وریخت کے درمیان سڑک کے بیچ میں کھڑی ہوئی ہے۔ پاکستان کی تخلیق کی خاطر لاکھوں جانوں کو قربان ہونا پڑا تھا۔
ایک وقت تھا کہ قائداعظم کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جاتا تھا۔ بعد میں جب انہیں ہندو نیشنلزم کی تنگ نظر ذہنیت کا یقین ہوگیا جو سیاست اور اقتصادیات پر ہندو غلبہ پر مبنی تھی تو انہوں نے اقبال کے خواب کی تکمیل کی جانب توجہ مبذول کی اور ایسا غیر معمولی عزم کے ساتھ کیا۔ پاکستان کی تخلیق کی مزاحمت ایک ایسی پہاڑ کی چوٹی کی مانند تھی جو ناقابل رسائی ہو۔
یہ مزاحمت انڈین کانگریس کی طرف سے اور نیشنلسٹ مسلمانوں کی طرف سے کی گئی جن میں مودودی اور ان کی جماعت اسلامی شامل تھی۔ گاندھی نے اعلان کیا کہ وہ بھارت ماتا کی تقسیم کے لیے راضی نہیں ہوں گے۔ مسلم اکثریت والے صوبوں میں پاکستان کی مزاحمت سر خضر حیات خان ٹوانہ کی طرف سے ہوئی جو پنجاب کے وزیراعلیٰ اور صوبہ میں مخصوص مفادات والے طبقات کے لیڈر تھے۔
بنگال میں یہ مزاحمت شیر بنگال فضل الحق کی پارہ صفت سیاست کے ذریعہ ہوئی۔ (مشکل یہ ہے کہ ہماری سیاست میں بہت سے شیر پیدا ہوتے ہیں لیکن جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو وہ بلیاں بن جاتے ہیں) سندھ میں پاکستان کی مزاحمت اللہ بخش کی طرف سے ہوئی لیکن وہ1943ء میں قتل کردیے گئے اور جی ایم سید نے ان کا چوغہ پہن لیا۔
یعنی ان کی پیروی شروع کردی۔ صوبہ سرحد میں مزاحمت کی قیادت سرحدی گاندھی، عبدالغفار خان نے کی اور یہاں تک تخلیق پاکستان کی مخالفت کی کہ صوبہ سرحد کی مستقبل میں وابستگی کے لیے ریفرنڈم منعقد کرانا پڑا۔ بلوچستان کے ز یادہ تر بااثر سردار پاکستان کے حق میں نہیں تھے۔ اس معاملے کو طے کرنے کے لیے جو شاہی جرگہ منعقد ہوا تھا اس کو صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑا تھا۔ ریاست جموں و کشمیر میں شیخ محمد عبداللہ دو قومی نظریہ کے خلاف تھے۔
پھر پاکستان کس طرح عالم وجود میں آیا۔ مسلم عوام نے قائداعظم کا ساتھ دیا۔ انہوں نے اپنے روایتی قسم کے لیڈروں کو مسترد کردیا اور پاکستان اپنے خون میں رنگے ہوئے ہاتھوں کے ذریعہ حاصل کیا۔ انڈین کانگریس کی معاندانہ پالیسیوں نے اور انگریزوں کے منفی رویہ نے انہیں تخلیق پاکستان کے لیے مزید اکسایا۔ یہ مسلم عوام کے عزم و جذبہ کی فتح تھی جن کی قیادت ایک جرات مند او ربے باک لیڈر کررہا تھا۔
12جون1978ء کو بھارتی وزیراعظم نے امریکا میں کہا کہ چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی خاطر بھارت، چین کے خلاف اپنے سرحدی علاقہ کے دعوے کو ترک کردے گا۔ صرف دو ماہ پیشتر بھارتی وزیراعظم نے پاکستانی صحافیوں سے کہا تھا کہ بھارت، چین سے وہ علاقہ دوبارہ حاصل کرنے پر اصرار کرے گا جس کو وہ لداخ میں بھارتی علاقہ کہتے ہیں۔ اس غیر مفاہمانہ یا غیر مصالحانہ رویہ کا اظہار افغانستان میں انقلاب سے پہلے کیا گیا تھا۔
دو ماہ بعد یہ مخالف رویہ چین کو غیر جانب دار بنانے کی غرض سے اختیار کیا گیا ہے تاکہ پاکستان پر کئی جانب سے حملہ کی صورت حال میں چین غیر جانب دار ہوجائے۔ اسی بات کو ایک پختون لیڈر نے1972ء میں ’’پاکستان کی تین طرفہ تقسیم‘‘ کہا تھا۔ پاکستان کا خاتمہ تو بھارت کا ایک مقدس اور غیر متزلزل مشن تھا۔ یہ خیال کرنا تو انتہائی حماقت ہوگی کہ کشمیر یا سلال بند یا تجارت کے بارے میں بھارت کو خوش کرنے سے بھارت باقی ماندہ پاکستان پر اپنی حریصانہ نگاہیں ڈالنا بند کردے گا۔
اس کے برعکس مراعات تو بھارت کی بھوک یا طمع میں اور بھی اضافہ کرتی ہیں۔ مصالحت و مفاہمت اور اپنے حقوق و مفادات سے دست برداری تو بھارتی قیادت کو اور زیادہ یقین د لاتی ہے کہ پاکستان ایک خودددار قوم کی حیثیت سے باقی رہنے کا عزم کھوچکا ہے۔ بھارتی مداخلت کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ شک صرف اس بارے میں ہے کہ مداخلت کرنے والی طاقتوں کے درمیان پاکستان کے چاروں صوبوں کی تقسیم کس طرح ہو۔
اس سلسلہ میں رچرڈ نکسن نے اپنی حالیہ شائع شدہ یادداشتوں میں پاکستان کے بارے میں بھارتی لیڈروں کی دغا بازی اور مکاری کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کو یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
’’4نومبر کی صبح میں نے اوول آفس میں بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ملاقات کی۔ ان کا واشنگٹن کا دورہ ایک نازک وقت میں ہوا تھا۔ آٹھ ماہ قبل مشرق پاکستان میں صدر یحییٰ خان کی حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی تھی۔ بھارتی حکام نے اطلاع دی تھی کہ تقریباً ایک کروڑ مہاجرین مشرقی پاکستان سے فرار ہوکر بھارت میں داخل ہوگئے تھے۔
ہم جانتے تھے کہ یحییٰ خان کو بالآخر مشرقی پاکستان کے آزادی کے مطالبہ کو ماننا پڑے گا اور ہم نے ان پر زور دیا تھا کہ وہ زیادہ مصالحانہ اور اعتدال پسند رویہ اختیار کریں۔ ہمیں یہ علم نہیں ہوسکا تھا کہ بھارت کس حد تک اس موقع کو نہ صرف مشرقی پاکستان میں پاکستان کے کنٹرول کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرے گا بلکہ وہ مغربی پاکستان کو بھی کمزور کرنے کے لیے اس موقع کو استعمال کرے گا۔
مسز گاندھی نے میری بے حد تعریف کی کہ میں ویت نام کی جنگ کو سمیٹ رہا ہوں اور چین کے معاملہ میں جرات مندانہ اقدام اٹھارہا ہوں۔ ہم نے پاکستان کی مشکل صورت حال پر بات چیت کی اور میں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ امر انتہائی اہم ہے کہ بھارت کوئی ایسا اقدام نہ اٹھائے جو اس صورت حال کو اور زیادہ خراب کردے۔
انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ بھارت کا مقصد پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت، پاکستان کی تباہی یا اسے مستقل طور پر مفلوج و ناکارہ کردینے کی خواہش نہیں رکھتا۔ سب سے بڑھ کر بھارت استحکام کی بحالی چاہتا ہے۔ ہم ہر قیمت پر گڑبڑ اور افراتفری کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
بعدمیں مجھے معلوم ہوا کہ جس وقت مسز گاندھی نے یہ باتیں کیں۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ ان کے جنرل اور مشیر مشرقی پاکستان میں مداخلت کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور مغربی پاکستان پر حملہ کرنے کے ہنگامی بنیاد پر منصوبے تیار کررہے ہیں۔‘‘
صدرنکسن کا یہ تبصرہ ان کی یادداشتوں کے صفحات525 اور 526 پر درج ہے۔ اگر لبرل ذہن رکھنے والی مسز گاندھی، صدر نکسن جیسے زیرک اور تجربہ کار سیاست دان کو پاکستان کے بارے میں بھارت کے رویہ کے متعلق دھوکہ دے سکتی تھیں تو ہم تصور کرسکتے ہیں کہ متعصب قسم کے جنتا پارٹی کے لیڈر کس طرح ناتجربہ کار مارشل لاء حکمرانوں کو پاکستان کے بارے میں اپنی ڈپلومیسی کے متعلق دھوکہ دے سکتے ہیں۔
1957ء کے موسم سرما میں جب تم چار سال کی تھیں تو ہم ’’المرتضیٰ‘‘ کے بلند چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ صبح کے وقت موسم بڑا خوشگوار تھا۔ میرے ہاتھ میں دو نالی بندوق تھی۔ ایک بیرل22 اور دوسرا 480 کا تھا۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک جنگلی طوطا مار گرایا۔ جب طوطا چبوترے کے قریب آکر گرا تو تم نے چیخ ماری۔ تم نے اسے اپنی موجودگی میں دفن کرایا۔ تم برابر چیختی رہیں۔ تم نے کھانا کھانے سے بھی انکار کردیا۔
ایک مردہ طوطے نے 1957ء کے موسم سرما میں لاڑکانہ میں ایک چھوٹی سی لڑکی کو رلا دیا تھا۔ 21سال بعد وہ چھوٹی سی لڑکی ایک نوجوان لڑکا بن گئی ہے جس کے اعصاب فولادی ہیں اور جو ظلم کی طویل ترین رات کی دہشت کا بہادری سے مقابلہ کررہی ہے۔ حقیقتاً تم نے بلاشبہ یہ ثابت کردیا ہے کہ بہادر سپاہیوں کا خون تمہاری رگوں میں موجزن ہے۔
میں جو کچھ لکھتا ہوں وہ کمزوریوں سے پُر ہے۔ میں بارہ ماہ سے قید تنہائی میں ،تین ماہ سے موت کی کوٹھڑی میں ہوں اور تمام سہولتوں سے محروم ہوں۔ میں نے اس خط کا کافی حصہ ناقابل برداشت گرمی میں اپنی ران پر کاغذ کو رکھ کر لکھا ہے۔
میں پچاس سال کا ہوں اور تمہاری عمر میری عمر سے نصف ہے۔ جس وقت تم میری عمر کو پہنچوگی تمہیں عوام کے لیے اس سے دگنی کام یابی حاصل کرنی چاہیے۔ جس قدرکہ میں نے ان کے لیے حاصل کی ہے۔ میر غلام مرتضیٰ جو میرا بیٹا اور وارث ہے وہ میرے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی شاہنواز اور صنم میرے ساتھ ہیں۔ میرے ورثہ کے حصہ کے طور پر اس پیغام میں ان کو بھی شریک کیا جائے۔ میر سائیں، رابرٹ کینیڈی کے بیٹے کا قریبی دوست ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو
ڈسٹرکٹ جیل، راولپنڈی
21 جون 1978