برق لکھنوی نے پرانے زمانے میں ایک شعر کہا تھا جو ہر زمانے میں نیا رہے گا ۔ انہوں نے فرمایا تھا۔
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
سات مئی کو پاکستان ایئر فورس نے انڈین ایئر فورس کے چھ جنگی طیارے مار گرائے تو مجھے برق لکھنوی کا یہ شعر بار بار یاد آنے لگا۔ 27؍اپریل کو امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک کانفرنس کے دوران پاکستانی طلبہ و طالبات بار بار مجھ سے پوچھتے تھے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملہ کیا جائے گا یا نہیں؟ میں سوال پوچھنے والوں کو بار بار یہ کہتا رہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو پھر ہم سب لڑیں گے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک انڈین پروفیسر نے مجھے سے پوچھا کہ کیا تم پاکستان واپس جا رہے ہو ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اُس نے مجھے انگریزی میں کہا کہ کچھ دنوں میں ہم پاکستان کو آزاد کروالیں گے تم دو تین ہفتے بعد واپس چلے جانا۔ میں نے مسکرا کر اس انڈین پروفیسر کے طنز کو نظر انداز کر دیا۔
مجھے کوئی شک نہیں تھا کہ بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملہ ضرور کیا جائے گا اور مجھے یہ بھی یقین تھا کہ مدعی لاکھ بُرا چاہے لیکن ہو گا وہی جو منظور خدا ہوگا ۔ اور پھر جب بھارت نے حملہ کیا تو اُس کا غرور خاک میں مل گیا۔
قرآن پاک میں بار بار غرور و تکبر کرنے والوں کے بارے میں ناپسندیدگی ظاہر کی گئی ہے لہٰذا سات مئی سے دس مئی کے دوران پاکستان ایئر فورس، پاکستان آرمی اور پاکستان نیوی نے مل کر جنوبی ایشیا کے ایک بدمعاش ملک کی رعونت کو جو عبرت کی مثال بنایا اُس میں دراصل اللہ کی مرضی شامل تھی۔ بھارت کی رعونت کا جنازہ نکالنے والی افواج پاکستان کی کامیابی پر صرف پاکستانی نہیں بلکہ بنگلہ دیش، نیپال، میانمار ، سری لنکا، مالدیپ اور افغانستان کے عوام بھی خوش نظر آتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے تمام چھوٹے بڑے ممالک پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شکست پر اس لئے خوش ہیں کہ بھارت کی پارلیمنٹ میں 2023 ء میں اکھنڈ بھارت کا ایک نقشہ آویزاں کیا گیا جس میں ان تمام ممالک کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔ بھارتی پارلیمنٹ میں آویزاں کیا گیا یہ نقشہ موجودہ بھارتی حکومت کی عالمی دہشت گردی اور ہوس ملک گیری کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے لہٰذا افواج پاکستان نے صرف ایک ملک کی بقاء کا تحفظ نہیں کیا بلکہ بھارت کو شکست دیکر افغانستان سے سری لنکا اور بنگلہ دیش سے مالدیپ تک پورے جنوبی ایشیا کے امن کا تحفظ کیا۔
سات مئی کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان ایئر فورس نے بھارتی ایئر فورس کے چھ جنگی جہاز مار گرائے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر سے صحافیوں اور ٹی وی چینلز نے مجھے سے پوچھا کہ اب کیا ہو گا ؟ میرا جواب یہ ہوتا تھا کہ بھارت دوبارہ حملہ کرے گا اور پھر مار کھائے گا۔ دس مئی کو بھارت نے پاکستان کے ایئر بیسز سمیت کم از کم نو فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔
جواب میں پاکستان نے بھارت کی 30فوجی تنصیبات پر حملہ کیا اور سائبر حملوں کے ذریعہ بھارتی معیشت کو جو نقصان پہنچایا وہ علیحدہ تھا۔ 15 مئی 2025 ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ افواج پاکستان کی جرأت و بہادری اور پیشہ وارانہ قابلیت کو خراج تحسین پش کیا ۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی میں ہونے والی جنگوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جنگ کا طریقہ کار تیزی سے بدل رہا ہے۔
1948 ء کی پاک بھارت جنگ کشمیر کے محاذ پر لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں اکثر مقامات پر دونوں ممالک کی افواج نے مورچوں میں سے لڑائی کی اور بعض جگہوں پر ہمارے افسران اور جوان مورچے سے نکل کر دشمن پر حملہ آور ہوئے جن میں کیپٹن محمد سرور شہید شامل تھے جن کی قبر آج بھی مقبوضہ مقامات کے علاقے اوڑی کی ایک پہاڑی پر ہے جہاں وہ دشمن کے مورچے میں گھس گئے تھے اور نشان حیدر کے حقدار ٹھہرائے گئے۔
1948 ء کی جنگ میں ایئر فورس اور نیوی کا زیادہ کردار نہ تھا۔ اُس وقت پاکستان ایئرفورس کے سربراہ ایئر وائس مارشل ایلن پیری اور انڈین ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل سر تھامس ایلیمرسٹ تھے۔ دونوں اطراف کی ایئر فورس نے اپنی بری فوج کیلئے ایئر لفٹ اور سپلائی کا کام کیا ۔ ایک دوسرے پر بمباری سے گریز کیا 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ٹینکوں کا کردار اہم تھا۔ یہ جنگ کشمیر سے پنجاب اور راجھستان سے بنگال کے محاذوں پر پھیلی ہوئی تھی۔
ایک طرف پاکستان آرمی نے چونڈہ کے محاذ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا تو دوسری طرف ایئر مارشل نور خان کی قیادت میں پاکستان ایئر فورس بھی ایک مضبوط جنگی قوت بن کر سامنے آئی جس کے پائلٹ ایم ایم عالم کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ اس جنگ میں بّری فوج اور پاکستان ایئر فورس کو بھارت پر برتری حاصل رہی ۔ 1971ء کی جنگ فوجی شکست سے زیادہ ایک سیاسی شکست تھی کیونکہ یہ جنگ دو فوجوں کے درمیان نہیں ہوئی۔
اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ 1970 ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ معاملات سلجھانے کی بجائے ایک فوجی آپریشن نے مزید اُلجھا دیئے۔ اکثریتی جماعت عوامی لیگ کی قیادت نے بھارت کے ساتھ مل کر مکتی باہنی قائم کی۔
مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان کے گلیوں اور بازاروں کو پاکستانی فوج کے خلاف میدان جنگ بنا دیا اور بھارتی فوج نے حملہ کر کے پاکستان کو دو لخت کر دیا ۔ 2025ء میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کے دورے میں اعلان کیا کہ ہم نے 1971ء کا بدلہ لے لیا ہے۔
کامرہ میں اس اعلان کی بڑی اہمیت ہے۔ پاکستان ایئر فورس دنیا کی واحد ایئر فورس ہے جو اپنے جنگی جہاز خود بناتی ہے ۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ 1971 ء کی شکست کے فوری بعد قائم کیا گیا تھا اور آج یہاں بنائے جانے والے جے ایف 17 جنگی طیارے آذربائیجان خرید رہا ہے۔
جنگی طیارے بنانے کے منصوبے میں چین نے پاکستان کی مدد ضرور کی ہے لیکن آج چین اپنے طیارے اپنے ملک میں بنا رہا ہے اور پاکستان اپنے طیارے خود بنا رہا ہے۔ جنگی جہاز خود بنانے کی وجہ سے پاکستان ایئر فورس نے دشمن کے حملے سے بچنے اور دشمنی پر جوابی حملہ کرنے کے جدید ترین طریقوں پر تحقیق کی۔
2019ء میں پاکستان ایئر فورس نے بھارتی ایئر فورس کے جنگی جہاز کو گرایا اور بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کیا تو ایئر مارشل مجاہد انور خان پی اے ایف کے سربراہ تھے۔ اُن کے بعد ایئر مارشل ظہیر احمد بابر پی اے ایف کے سربراہ بنے تو اُن کے لئے سب سے بڑا چیلنج رافیل طیارے تھے جو بھارتی ایئر فورس کا حصہ بن گئے تھے۔
مارچ 2021 ء میں ایئر چیف بننے کے بعد اُنہوں نے پی اے ایف سائبر کمانڈ اور پی اے ایف اسپیس کمانڈ کے علاوہ نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسے ادارے بنا کر پاکستان ایئر فورس کو جدید فضائی اورجنگ کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔
یہ کہنا حقیقت کے خلاف ہے یہ ساری ٹیکنالوجی پاکستان کو چین سے بنی بنائی مل گئی ۔ پاکستان ایئر فورس نے یہ سارا سازو سامان کسی ایک ملک سے نہیں لیا۔ جدید مشینیں اور آلات جہاں سے بھی ملے وہ حاصل کرنے کے بعد اُنہیں ایک دوسرے سے جوڑا گیا۔ اور پھر اُن پر تجربات کئے گئے ۔ بار بار کے تجربات اور جنگی مشقوں سے وہ مہارت حاصل کی گئی جس کے تحت 28 اور 29 اپریل کی درمیانی شب پاکستان ایئر فورس نے بھارتی ایئر فورس کے رافیل جہازوں کا پہلا حملہ پسپا کیا۔
پی اے ایف کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر ہر وقت کمانڈ آپریشن سینٹر میں موجود رہتے تھے۔ انہوں نے 28اور 29اپریل کی درمیانی شب فضا میں بلند ہونے والے چار رافیل جہازوں کو خود مانیٹر کیا۔ اُنہوں نے فوری طور پر پی اے ایف کے جنگی طیاروں کو فضا میں بلند کیا۔
بھارتی جہازوں کو ٹارگٹ کرنے سے گریز کیا گیا کیونکہ وہ اپنی فضائی حدود میں تھے اور انہوں نے کوئی میزائل فائر نہیں کیا تھا لیکن جیسے ہی انہوں نے پی اے ایف کے شاہینوں کو اپنی طرف آتا دیکھا تو وہ بھاگ گئے ۔ 6 اور 7مئی کی درمیانی شب انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ۔ ایک ہی وقت سے بھارتی جنگی جہاز مختلف مقامات سے فضا میں بلند ہوئے ۔ ان کی تعداد 72 تھی جن میں 14 رافیل تھے ۔ پاکستان ایئر فورس ایک دفعہ پھر تیار تھی۔
پاکستان ایئر فورس نے 72 کے مقابلے پر 72 جہاز سامنے لانے کی بجائے دشمن کو اپنی مہارت سے شکست دینے کا فیصلہ کیا ۔ کمانڈ آپریشن سینٹر میں موجود ایئر چیف ظہیر احمد بابر کا اپنے 30 سے زیادہ جہازوں سے رابطہ تھاجب تک دشمن نے کوئی میزائل فائر نہیں کیا اُنہوں نے بھی فائر کا حکم نہیں دیا ۔ جیسے ہی دشمن نے ایک میزائل فائر کیا تو ظہیر احمد بابر نے بھی فائر کا حکم دیدیا جس کے بعد رافیل جہازوں کا ریڈار سسٹم جام کرکے اُن کا کام تمام کر دیا گیا ۔ اس فضائی شکست کا بدلہ لینے کیلئے دشمن نے 10مئی کی رات پاکستان کے ایئربیسز پر میزائل داغے۔
اس جارحیت کا جواب پاکستان آرمی کے زیرکنٹرول میزائلوں نے دیا۔ ان میزائلوں نے جو تباہی مچائی وہ نریندر مودی کے وہم و گمان میں نہ تھی لہٰذا موصوف نے صدر ٹرمپ کی منت سماجت کرکے سیز فائر کرایا۔ اور مزید رسوائی سے بچنے کی کوشش کی۔ اب مودی جو بھی کرلیں پاکستان کا جتنا بھی بُرا چاہیں لیکن وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، رسوائیاں اُن کا مقدر بن چکی ہیں ۔ پاکستان نے نہ پہلے جارحیت کا آغاز کیا تھا نہ آئندہ کرے گا۔
پاکستان کو جو کامیابی ملی ہے یہ منظور خدا تھی اس لئے اس کامیابی پر غرور کرنے کی بجائے ہمیں عاجزی دکھانی چاہئے۔ ہمیں اپنی افواج کو مزید جدید اسلحے سے لیں کرنا ہے تا کہ اکھنڈ بھارت کے خواب کو کبھی حقیقت نہ بننے دیا جائے۔ فوج کا کام ملکی سرحدوں کا دفاع ہے۔ جو فوج یہ کام فرض شناسی سے کرے اُس فوج کی حوصلہ افزائی کرنا اور اُس کے جوانوں کیلئے دعا کرنے ہر پاکستانی کا فرض ہے۔