• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور سرحدی جھڑپوں کے بارے میں دنیا بھر میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔ یہ واقعات کئی حوالوں سے دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں پیدا ہونے والے حالات سے بہت مختلف تھے۔ دنیا بھر میں یہ تسلیم کیا جارہا ہے کہ حالیہ واقعات کے دوران نے پاکستان نے بھارت کے شر انگیز پروپیگنڈےاور جارحانہ فکرکے مقابلے میں سیاسی، سفارتی، عسکری اور حربی شعبوں میں بہت تحمّل، تدبّر اور ہوش مندی سے کام لیاجس کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ ان تمام شعبوں میں بہت بہتر ہوئی اوراس کاموقف دنیا بھر میں درست تسلیم کیا گیا۔

علاوہ ازیں ماضی میں دنیا میں ہماری جو تصویر پیش کی جاتی تھی، اس کے رنگ بدلے، اس کا پھیکاپن دور ہوا، مذکورہ شعبوں میں ہماری فیصلہ سازی کی صلاحیت اور معیار کی تعریف کی گئی، خِطّے اور دنیا بھر میں ہماری سیاسی، سفارتی، عسکری اور حربی صلاحیتوں کی دھاک بیٹھی اور بھارت کو ان تمام شعبوں میں سخت ہزیمت اٹھانی پڑی۔ 

چناں چہ یہ ضروری ہے کہ ان حوالوں سے بھی حالیہ واقعات کا جائزہ لیا جائے۔ علاوہ ازیں حالیہ جھڑپوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے تیکنیکی معیار، ان سے حاصل شدہ نتائج اور اسلحے کی عالمی صنعت پر ان کے اثرات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔

بھارت کی سیاسی اور عسکری فیصلہ سازی کے پست معیارکا پہلا ثبوت 

بھارت کی سیاسی اور عسکری فیصلہ سازی کا معیار پست ہونے کا پہلا ثبوت یکم مئی کو ملا تھا۔ بھارت نےاس روز ایئر مارشل ایس پی دھارکر کو تقرر کے سات ماہ بعد ہی عہدے سے ہٹادیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق وہ رفال طیاروں کی جارحانہ پروازوں کے نگراں تھے۔ اس وقت اُن کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر سوال اٹھائے جارہے تھے، کیوں کہ پاک فضائیہ نے رفال طیاروں کو فوری اور مؤثر طور پر روکا تھا۔ نائب فضائی سربراہ نے اپنے پائلٹس کی رفال ہینڈلنگ پر شدید عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق یہ بھارتی طیارے پاکستان کے جدید ریڈارز کے سامنے بے بس ہوکر راستہ بھول گئے تھے۔ لائن آف کنٹرول کو جارحانہ طور پر کھوجنے کے ٹاسک کے دوران انہیں پاکستانی ریڈارز نے جام کردیا تھا۔ اس طرح بھارتی طیارے ایک اور آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کا شکار ہوئے، جس کے بعد ایئر مارشل نرمدی شور تیواڑی کو نیا نائب فضائی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

اس وقت فضائیہ کے نائب سربراہ کی برطرفی نے بھارتی فضائیہ میں شدید بے چینی پیدا کردی تھی۔ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد وہ دوسری بڑی عسکری تبدیلی تھی۔ یہ اعلیٰ فوجی قیادت میں تیز رفتار تبدیلیاں بی جے پی کے فاشسٹ ایجنڈے اور افواج کی پیشہ ورانہ خود مختاری کے درمیان بداعتمادی کا ثبوت تھیں۔

پاکستان کی فیصلہ سازی کے اعلی معیار کا ثبوت

ان حالات میں پاکستان نے بھارت کی تمام تر اور شدید شر انگیزیوں کے باوجود اپنے سیاسی، سفارتی، عسکری اور حربی اعصاب پوری طرح قابو میں رکھے۔ اگرچہ اندرون ملک بھارت کو فوری اور بھرپور جواب دینے کے لیے دباو روز بہ روز بڑھ رہا تھا، لیکن پاکستان نے مذکورہ تمام شعبوں میں بہت تحمّل، تدبّر اور ہوش مندی سے فیصلے کیے۔ کیوں کہ اس مرتبہ پاکستان کو پوری طرح یہ احساس تھاکہ بھارت کے فالس فلیگ آپریشنزکو اگر اب قطعی طور پر نہیں روکا گیا تو ان کی رفتار، تعداد اور منفی اثرات بڑھتے جائیں گے۔

پاکستان کو بھارت کی طاقت ور عالمی کھلاڑیوں سےقربت،اس کے بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ عزائم، خِطّے میں اس کی پولیس مین کا کردار ادا کرنے کی بڑھتی ہوئی خواہش اور کوششوں، خِطّے کے ممالک پر اپنی عسکری اور سیاسی طاقت اور بڑی معیشت ہونےکی دھونس جمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینے کی حرکتوں اور چین کا راستہ روکنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہونے کا پوری طرح احساس تھا۔

اسے یہ بھی معلوم تھاکہ بھارت کے فیصلہ ساز اس وقت اس کی کم زور اقتصادی حالت، دہشت گردی کی تیز لہر اور اندرونی سیاسی چپقلشوں کی وجہ سے تر نوالہ سمجھنے لگے ہیں، جسے بھارت کی ایک ہانک سہم جانے پر مجبور کرسکتی ہے۔ یقینا ایسے حالات میں مذکورہ شعبوں میں مناسب فیصلہ سازی بہت بہت مشکل کام ہوتا ہے۔

پاکستان کی فیصلہ سازی کے اعلی معیار نے بھارت کو دنیا بھر میں آوٹ کلاس کیا 

بلاشبہ اس طرح کے جاں گسل حالات میں پاکستان نے بھارت کی مذکورہ شعبوں میں حکمت عملی کو صبر، تحمل، تدبّر اور ہوش مندی سے اپنے بہت کم نقصان کے ذریعے نہ صرف آوٹ کلاس کیا بلکہ اسے نہ صرف خِطّے میں بلکہ عالمی سطح پر شدید سیاسی، عسکری، حربی اور تیکنیکی نقصان بھی پہنچایا۔

پاکستان نے اس ساری کشیدگی اور جنگ کے دوران سیاسی ، سفارتی اور حربی میدان میں جس طرح دانش مندانہ فیصلے کیے اورجس طرح عالمی برادری تک اپنی بات پہنچائی، اس نے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان ایک ذمے دار جوہری ملک ہے اور بہت موثر عسکری اور حربی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود وہ بین الاقوامی اور عسکری امور میں افراط وتفریط کا شکار ہوکر محض غیض و غضب میں آکر یا اپنی اندرونی سیاسی ضرورتوں کے تحت دنیا کا امن داو پر نہیں لگاتا۔ چناں چہ اس نے پہلے دن سے پہلگام کے واقعے کی آزادانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیااور اس میں مدد دینے کو تیّار نظر آیا۔

پاکستان نے بھارت کے تمام تر اکسانے کے باوجود جنگ میں پہل نہیں کی۔بھارت کی جانب سے پاکستان کو جوابی کارروائیوں میں الجھانے اور اپنی توانائیاں اور وسائل اس میں ضایع کرنے کی حکمت عملی میں بری طرح ناکامی ہوئی، لیکن وہ پاکستان کی اس حکمت عملی کو سمجھنے میں بری طرح ناکام رہا۔

اس نے سمجھا کہ پاکستان کے پاس جواب دینے کی صلاحیت نہیں، وہ بھارت کی کارروائیوں سے ڈرگیا ہے اورچوں کہ بعض بڑی طاقتوں کا جھکاو بھارت کی جانب ہے اس لیے پاکستان اس کا ہر ظلم و ستم چپ کرکے سہہ جائے گا۔لیکن دوسری جانب پاکستان ابتدا میں ایک حکمت عملی کے تحت خاموش رہ کر ایک تو دنیا میں اپنا کیس مضبوط کررہا تھاکہ ہم پر امن رہنا چاہتے ہیں اور ہم بھارت کی طرح جارح اور غیر ذمے دار ملک نہیں ہیں۔

اور دوسری جانب وہ بھارت کی عسکری کارروائیوں سے بھارت کے عسکری دماغوں اور ان کی حکمت عملیوں کو پڑھ اور سمجھ رہا تھا، اپنی توانائیاں اور وسائل ضایع ہونے سے بچا رہا تھا، طاقت کے عالمی مراکز کا ردعمل دیکھ رہاتھا اور اپنے دوستوں سے رابطہ کرکے سیاسی ،عسکری اور حربی حکمت عملی وضح کرہا تھا۔

ابتدا میں پاکستان کی خاموشی اور بھارتیوں کی فرسٹریش اور غلط فیصلے

ابتدا میں پاکستان کی بہ ظاہر خاموشی اور تحمّل نے بھارت کے سیاسی اور عسکری دماغوں کو پہلے فرسٹریشن میں مبتلا کیا اور پھر غلط فیصلے کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے پاکستان کو سیاسی اور عسکری میدان میں کم زور سمجھا اور اپنے تئیں یہ فیصلہ کرلیا کہ انہوں نے پاکستان کوعالمی سطح پر تنہا کردیا ہے اور اب وہ بھارت کے لیے تر نوالہ ثابت ہوگا۔

انہوں نے ابتدائی جھڑپ کے لیے ہی اپنے بہترین طیارے، جن پر انہیں غرور تھا، یعنی رفال بھیج دیے۔ یہ فیصلہ بہ ذات خود بھارت کی کم زورعسکری اور حربی فیصلہ سازی کی غمازی کرتا ہے۔ کیوں قدیم زمانے سے جنگوں کا یہ اصول چلا آرہا ہے کہ جنگ کے ابتدائی مرحلے میں کوئی بھی فوج اپنے بہترین سپاہی یا ہتھیار میدان میں نہیں اتارتی۔

شاید بھارت کے عسکری اور سیاسی فیصلہ سازوں نے اپنی ابتدائی سیاسی اور سفاتی کوششوں اور عسکری شر انگیزیوں سے بہ زعم خویش یہ سمجھ لیا تھا کہ پاکستان اپنی اندرونی سیاسی کش مکش، بہت برے اقتصادی حالات، بعض عالمی طاقتوں کے پاکستان کی جانب منفی رویے، بھارت کی جانب ان کے واضح جھکاو اور ماضی کے مقابلے میں پاکستان کے پاس اعلی پائے کے مغربی ہتھیاروں کی کمی کے سبب اس مرتبہ پاکستان پہلے کی طرح ردعمل نہیں دے سکے گا۔ اس فکر کے تحت انہوں نے یہ غلط فیصلہ کرلیا کہ پہلے ہی مرحلے میں اپنی فضائیہ کے جدید اور اعلی ترین اثاثے استعمال کرکے پہلے ہی ہلّے میں پاکستان کی فضائیہ کو دھول چٹاکر اس پر اپنی دھاک بٹھادی جائے۔

شاید ان کا خیال تھاکہ اس مرتبہ انہیں رفال کی وجہ سے فضا میں پاکستان کی فضائیہ پر برتری حاصل ہوگی اور اس جھڑپ میں پاکستان کے دس بارہ اہم جنگی طیارے تباہ ہوجائیں گے۔

ان کا خیال تھاکہ اس طرح نہ صرف دنیا بھر میں بھارت کی عسکری صلاحیتوں اور طاقت کی دھاک بیٹھ جائے گی، بلکہ پاکستان اس سے ڈر جائے گا، اس کی دنیا بھر میں سبکی ہوگی اور وہ عسکری اور حربی میدان میں بھارت سے کہیں پیچھے نظر آئے گا۔

لیکن، اے بسا آرزو کہ خاک شُد۔ہُوا اس کے برعکس۔نہ صرف رفال گرے، بلکہ بھارت کی پوری فضائی طاقت زمیں بوس ہوتی نظر آئی، کیوں کہ رفال کے ساتھ اس کی فضائیہ کے ہرمان، ہر شان نے ذلت آمیز انداز میں زمین کی راہ دیکھی۔ سخوئی، مِگ اور یو اے وی بھی تو اس کی پہلی صف کے ’’یودھا‘‘ تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے بھارت کے سیاسی اور عسکری فیصلہ سازوں کے دماغوں پر جھنجلاہٹ اور غصہ حاوی ہونا شروع ہوا۔

جھنجلاہٹ اور غصّے میں کیے گئے بھارتی فیصلوں کے نتائج 

اس کیفیت کے نتائج کیا نکلے، یہ جاننےکےلیے بہتر ہوگا کہ اس مرحلے پر خود بھارتیوں کی سوچ بڑھی جائے۔ چناں چہ یہاں ایک بھارتی اخبار میں شایع ہونے والے تجزے کا حوالہ دینا بے محل نہ ہوگا۔ بھارتی اخبار کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات میں پاکستان نے اپنی ایٹمی صلاحیت مؤثر انداز میں منوالی، آپریشن سندور جیسے اقدامات بار بار دہرانے سے نتیجہ نہیں بدلے گا، ایسا اقدام دہرایا گیا تو بھارت کو صرف سو گھنٹوں میں ناکامی کا سامنا کرنا ہوگا۔ 

بھارتی اخبار نے سفارتی اور عسکری سطح پر پاکستان کی کام یابی کو تسلیم کرتے ہوئے مودی سرکار کی سفارتی اورعسکری ناکامی پر جو تجزیہ شایع کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ آپریشن سندور کے دوران بھارت کو کسی پڑوسی ملک کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ یورپی یونین کے ساتھ بھی بھارت کی سفارتی کشیدگی ظاہر ہو گئی، روس کی بے رخی نے بھارت کی خارجہ پالیسی کی کم زوریوں کو بے نقاب کر دیا۔

اخبار نے لکھا ہے کہ آپریشن سندور کی قانونی حیثیت پر عالمی سطح پر شکوک و شبہات ابھر رہے ہیں۔ بھارتی حکم راں طبقہ مکمل طور پر امریکی مفادات کے تابع ہو چکا ہے، امریکی ثالثی کے بعد بھارت کی قیادت مایوسی اور انکار کی کیفیت میں مبتلا ہے۔

بھارتی اخبار نے مزید لکھا کہ بار بار کی عسکری مہم جوئی سے ناصرف اثر ختم بلکہ قیادت پر عوام کا اعتماد بھی متزلزل ہو گا۔ کچھ ہی عرصے بعد نئی فوجی حکمتِ عملی کا خواب دیکھنا بند کرنا ہوگا۔ پاکستان ماہر ملک ہے، وہ جلد ہی بھارتی حکمتِ عملی کا مؤثر جواب تیار کر لیتا ہے۔ آخر میں اخبار نے لکھا کہ بھارت کو اپنی ناکام قیادت پر نظرِ ثانی اور پاکستان کی جوابی صلاحیت کا ادراک کرنا ہوگا۔

بھارت کی جھنجلاہٹ، غصّے میں کیے گئے فیصلوں اور آخر میں ان ناقص فیصلوں سے پیدا ہونے والے منفی اور تباہ کن اثرات کو چھپانے کی بھونڈی کوششوں نے اندرون اور بیرونِ ملک اسے بُری طرح رسوا کیا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدائی کوششیں تو بھارت کے ذرایع ابلاغ کو جنگی جنون پیدا کرنے اور جھوٹ کا طوفان اٹھانے کی کھلی چھوٹ دینا اور سوشل میڈیا پر حقائق بتانے والے ملکی اور غیر ملکی اکاونٹس بند کرنے کی تھیں۔

پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی کے بعد وہاں ٹی وی چینلز نے جس طرح حقائق کے بالکل برعکس تصویر پیش کی اور ذرایع ابلاغ کو جس طرح حقائق بتانے اور دکھانے سے روکا گیا وہ اس ضمن میں اگلے مراحل تھے۔

لیکن ان کوششوں کی معراج مودی جی کا آدم پو رایئربیس کا دورہ اور ایس 400 فضائی دفاعی نظام کے میزائل لانچرکے قریب اتاری گئی تصویر تھی۔مودی جی نے اس تصویر کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان کا بھارتی فضائی دفاعی نظام تباہ کرنے کا دعویٰ غلط ہے۔

لیکن بہت سے بھارتیوں سمیت دنیا بھر کے لوگوں نے یہ تصویر سامنے آنے کے فورا بعد ہی یہ کہنا شروع کردیا تھاکہ اس نظام کے کمانڈ این کنٹرول سسٹم کے ساتھ تصاویر کھینچواتے تو ان کی بات کا اعتبار کیا جاتا۔ پھر یہ کہ پورے نظام میں سے کسی ایک حصے کی بھی وڈیو شیئر نہیں کی گئی۔ حالاں کہ یہ نظام کم از کم آٹھ بہت بڑے بڑے ٹرکس پر مشتمل ہوتا ہے۔

دفاعی میدان میں پاکستان کی بہت دانش مندانہ سرمایہ کاری 

سوئیڈن کے معروف تھنک ٹینک،اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری)کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024 میں بھارت نے دفاع پر پاکستان کے مقابلے میں نو گنا زیادہ رقم خرچ کی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2025میں بھارت نے اپنے دفاع پر تقریباً 86ارب ڈالرزکے مساوی رقم خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور پاکستان نے 25-2024 کے مالی سال کے لیے مسلح افواج کے لیے10ارب ڈالرز سے زیادہ رقم مختص کی ہے۔

اس طرح بھارتی ایئرفورس، جسے دنیا کی چوتھی بڑی ایئرفورس مانا جاتا ہے، اسے پاکستان پر عددی برتری یقینی طور پر حاصل ہے۔ انڈین ایئرفورس کے پاس طیاروں کے31اسکواڈرن ہیں۔ ہرا سکوڈارن میں17یا18لڑاکا طیارے ہوتے ہیں۔ پاکستان ایئر فورس کےپاس صرف11اسکواڈرن ہیں۔ گلوبل فائر پاورکے اعداد وشمار کے مطابق بھارت کے پاس جہاں 2229 طیارے ہیں وہاں پاکستان کے پاس طیاروں کی تعداد 1399 ہے۔

بالاکوٹ پر 2019میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی اسٹرائیک اور  طیارے مار گرائے جانے کے بعد دونوں ملکوں نے نیا دفاعی سازو سامان خریدا۔بھارتی ایئر فورس کے پاس اب36فرانسیسی ساختہ رفال جنگی طیارے ہیں۔ لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کے مطابق اسی دوران پاکستان نے چین سے کم از کم20جدید جے10جنگی طیارے حاصل کیے جو پی ایل 15 میزائلوں سے لیس ہیں۔

دوسری جانب بھارت نے2019کے بعد ایئر ڈیفنس کے لیے روسی ایس400 اینٹی ایئرکرافٹ میزائل سسٹم حاصل کیا اور پاکستان کو چین سے ایچ کیو 9 فضائی دفاعی نظام ملا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کی فضائی دفاعی صلاحیتوں میں 'ایڈوانسڈ ایریل پلیٹ فارمز، ہائی ٹو میڈیم ایلٹی ٹیوڈ ایئر ڈیفنس سسٹم، بغیر پائلٹ کےکامبیٹ ایریل وہیکلز،ا سپیس، سائبر، الیکٹرانک وارفیئر اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والے سسٹمز موجود ہیں۔

دفاعی ماہرین کے مطابق بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے خاص طور پر دس پندرہ برسوں میں دفاعی سازوسامان خریدنے میں بہت احتیاط اور دانش مندی سے کام لیا ہے۔ کیوں کہ پاکستان کے سامنے اس ضمن میں دو بہت بڑے اور نمایاں چیلنجز تھے۔ 

اوّل، کم مالی وسائل۔ دوم، حریف کا بہت بڑا حجم۔ان حالات میں پاکستان نے ہر چھوٹا ،بڑا دفاعی سازوسامان خریدتے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ وہ کم قیمت ہو، لیکن کارکردگی میں حریف کے میں منہگے سازوسامان کا ہم پلّہ یا اس سے بہتر ہو۔

جھڑپوں کا اصل میدان فضا اور الیکٹرانک وار فیئر 

دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ تنازع میں زمینی جھڑپیں بھی ہوئیں، لیکن فیصلہ کُن معرکہ فضا اور الیکٹرانک وار فیئر میں ہوا۔ زمینی جھڑپوں میں روایتی ہتھیاروں کے علاوہ جدید طرز کےاور دُور تک مار کرنے والے میزائل بھی استعمال کیے گئے۔ بھارت نے براہموس اور پاکستان نے فتح ون میزائل استعمال کیے۔ بھارت نے ڈرون اوریو اے وی یا ان مینڈ ایریل وہیکلز بھی استعمال کیے۔ البتہ پاکستان نے صرف جاسوس ڈرون استعمال کیے۔

پاکستان کے جے10سی طیّاروں نے، سی ایم 400 اے کے جی میزائل استعمال کیے جو سیٹلائٹ نیوی گیشن کے ذریعے اپنے ہدف تک بہت سرعت سے پہنچتا ہے اور آخری لمحات میں بھی اسے ہدف کے بارے میں ہدایات دی جاسکتی ہیں۔یہ ریئل ٹائم ڈیٹا استعمال کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے دشمن کے لیے بہت تباہ کن ہتھیار ثابت ہوتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ یہ بھارت کے ایس 400ٹرائمف سسٹم کو جو ڈیڑھ ارب امریکی ڈالرز مالیت کا فضائی دفاعی نظام ہے اور جسے ناقابلِ تسخیر قرار دیا جاتا تھا، ان میزائیلز کا نشانہ بن گیا۔ حالاں کہ یہ نظام چار سو کلومیٹر زدور سے دشمن کے طیاروں کا سراغ پا لینے اور انہیں، کروز میزائلز، بیلسٹک وارہیڈز اور ڈرونز کو مارگرانے کی صلاحیت کا حامل بتایا جاتا ہے۔

اس کی تباہی نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ایسی کسی واحد بیٹری کی موجودگی کسی ملک کا فضائی دفاعی نظام سو فی صد محفوظ نہیں بناسکتی اور اس کے لیے کئی سطحی نظام کا ہونا ضروری ہے جو بہت منہگا سودا ہے۔ اس نظام کی تباہی نے بھارت سمیت دنیا بھر کے ممالک کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ سپر سانک میزائل کے منصوبے مزید جِدّت، تحقیق اور سرمایہ کاری کے متقاضی ہیں۔

پاکستانی جہازوں نے یہ حملہ مکمل الیکٹرانک کور اور مکمل ریڈی ایشن سیکرٹ کے ساتھ کیا اور چند ہی لمحوں میں ایس 400ٹرائمف سسٹم کی سراغ لگانے اور جوابی کارروائی کرنے کی صلاحیتیں مفلوج کردی تھیں۔ پاکستان کی فضائیہ نے اس کی مشق انڈس 2023 نامی مشقوں میں کررکھی تھی۔

پاکستان کی فضائیہ نے گراونڈ رڈار، پیٹرولنگ جیٹس اور اویکس نگرانی اور راہ نمائی کرنے والے طیاروں کی مدد سے اپنے لڑاکا طیاروں اور ان کے ذریعے چلائے جانے والے ہتھیاروں کی حفاظت اور بہت حد تک درست راہ نمائی کے لیے جو نظام اپنا رکھا ہے وہ اس کارروائی میں بہت معاون ثابت ہوا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھارت میں پاکستان کے اویکس سسٹم (AWACS)(Erieye Airborne Early Warning and Control System) کو بہت دہائی دی جارہی ہے۔ پاکستان نے بھارت کی ڈرون کے ذریعے جاسوسی کی پالیسی کو بھی کام یابی سے چکمہ دیا۔

پاک۔بھارت حالیہ جھڑپیں اور اسلحے کی عالمی صنعت اور منڈی کا مستقبل 

حالیہ جھڑپیں اگرچہ جنوبی ایشیا کے دوہم سایہ ممالک کے درمیان تھیں اور خوس قسمتی سے ان کے نتیجے میں معاملہ کھلی جنگ تک نہیں پہنچا تھا، لیکن مختلف حوالوں سے اس کے اثرات عالمی سطح تک پہنچے ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ آج پاکستان کی افواج کے زیر استعمال زیادہ تردفاعی سازوسامان یا تو چینی ساختہ یا اس کی مد داور تعاون سے تیار شدہ ہیں۔دوسری جانب بھارت کے پاس دنیا کے معروف ترین اسلحہ ساز اداروں کے تیار کردہ ہتھیار ہیں جوبہت سی جنگوں میں آزمائے ہوئے ہیں۔

چین نے 1962میں ہونے والی سائنو۔ انڈیا جنگ (جو تقریبا ایک ماہ تک جاری رہی تھی) کے بعد کوئی جنگ نہیں لڑی تھی نہ ہی اس کے بعدچین کی جانب سے تیار کیا جانے والا اسلحہ کبھی میدانِ جنگ میں آزمائش کے مراحل سے گزرا تھا۔

ایک خیال یہ ہے کہ امریکا چین کے اسلحے اور ٹیکنالوجی کا عملی استعمال ہوتے ہوئے اور ان کے نتائج دیکھنا چاہتا تھا اور جب اس نے یہ دیکھ لیا تو فورا اس قضیے کو ختم کرانے کے لیے سرگرم ہوگیا۔

چین کے اسلحے، ٹیکنالوجی اور اس کی کارکردگی نے حالیہ جھڑپوں میں پوری دنیا پر اپنی دھاک بٹھادی ہے۔ اس نے کم قیمت ہونے کے باوجود بعض اعتبار سے مغربی ٹیکنالوجی سے اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ اس نے بڑی طاقتوں اور مغرب کی بہت معروف اور معتبر اسلحہ سازی کی صنعت کی بنیادیں ہلادی ہیں اور مغرب کی اسلحہ سازی کی صنعت کے مقابلے میں خود کو دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔ اس کا تیار کردہ دفاعی سازوسامان کم قیمت ، موثر اور قابل بھروسہ ہے اور وہ بعض عالمی طاقتوں کے زیر عتاب ممالک کو بھی مل سکتا ہے۔

اس سے سکہ بند اسلحہ سازی کی صنعتوں میں زلزلہ آسکتا ہے، خریداروں کو اسلحے کا نیا بازار مل سکتا ہے، دنیا میں طاقت کا توازن تیزی سے تبدیل ہوسکتا ہے، بڑی طاقتوں کی اسلحے کی منڈی پر اجارہ داری کوسخت نقصان پہنچ سکتا ہے، اور یوں عالمی طاقت، مفادات، تنازعات اور دولت کے ارتکاز کے مراکز میں قابل ذکر حد تک اور تیزی سے تبدیلی آسکتی ہے۔

اسپیشل ایڈیشن سے مزید