فلسطین کا بحران گزشتہ سات دہائیوں سےبھی زائد عرصے سے خطہ عرب کاپیچیدہ ترین چیلنج مسئلہ اور بین الاقوامی موضوع ہے۔ صیہونی رجیم کی بے رحمانہ، توسیع پسندانہ اور غیر انسانی پالیسیوں اور اقدامات کی بدولت، مظلوم فلسطینی عوام کو ان کےمسلمہ اور ناقابل تنسیخ حقوق سے محروم کرنے کے علاوہ، ان لوگوں کی صورتحال دن بدن بری هہوتی جا ری هے۔یہ پالیسیاں اور اقدامات اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں ، اہداف اور بین الاقوامی قانون کی دفعات بالخصوص بین الاقوامی انسان دوست حقوق اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی هیں۔
ہر روز صیہونی رجیم بچوں کے حقوق سمیت انسانی حقوق کی کھلی، مسلسل اور منظم خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتی ہے۔ بچوں کو مارنے والی اس رجیم کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے نہ صرف فلسطین میں امن قائم نہیں هہوگا بلکہ اس رجیم کیلئے مزید ظلم اور قبضہ کرنے کی حوصلہ افزائی کا باعث هوا هے اور ہو گا۔بیت المقدس فلسطینیوں کی سرزمین اور مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔ کوئی بھی نہ ہی اسےخرید سکتا هے اور نہ ہی اس پر قبضہ کر سکتا هے۔
فلسطینی عوام نے اپنے بنیادی حقوق خاص طور پر حقِ خود ارادیت اور اپنی سرزمین پر غیر قانونی (ناجائز) غصب اورقبضے کے خلاف جائز دفاع کے لیے مزاحمت کی هے۔
اب مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں هے بلکہ عالم اسلام کا ترجیحی طور پر اولین مسئلہ ہےاور’’عالمی یوم ِقدس‘‘ دنیا میں فلسطینی عوام کی فطری اور بنیادی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں، دہشت گردی، نسلی عصبیت، ناانصافی کے خلاف عالمی مزاحمتی تحریک کی ایک اہم علامت بن گیا ہے۔
اسرائیلی نسل پرست رجیم کی دہشت گردی کی نوعیت عام شہریوں ، عرب کے ممتاز افراد اور ایرانی سائنسدانوں کے روزانہ قتل عام سے عیاں ہے۔ عالمی یوم قدس،امت اسلامیہ کی وحدت کا مظہر اور ایک قانون شکن، قابض اور مغربی ایشیا میںمہلک اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والی ایٹمی رجیم کےخلاف کھڑے ہونے کی علامت ہے۔
’’فلسطین کے اہداف اور نسل پرست رجیم کے تشدد کے خلاف مزاحمت‘‘کا احترام، دنیا کے لیے’’انصاف ( عدل) کی اہمیت‘‘کو جانچنے کا معیار ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران فخر کے ساتھ فلسطینی عوام کی حمایت کرتا ہے اور یوم ِقدس ، اپنی مادری سرزمین کو واپس پا لینے کے لیے، ایک قوم کی کوشش کے تسلسل کا اظہار هہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران مسئلہ فلسطین کو عالمِ اسلام کا پہلا اور بنیادی مسئلہ قرار دینے پر زور دیتا ہے اور اسے بھلا دینے کے لیے عالمی صیہونیت کی کوشش کو شکست خوردہ گردانتا هہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے فلسطین کے بحران کے حل کے لیے’’فلسطین میں ریفرنڈم کے انعقاد‘‘کے عنوان سے ایک جمہوری اور منصفانہ خاکے ( طریقہ کار ) پیش کیا ہے۔ یہ خاکے( طر یقہ کار ) پچھلے ناکام منصوبوں کا مناسب متبادل ہوگا۔ حق خود ارادیت پر عمل در آمد اس خاکے ( طریقہ کار ) کی بنیاد ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ واحد ممکنہ حل یہ ہے کہ تمام حقیقی فلسطینیوں بشمول مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحیوں کی شرکت کے ساتھ قومی ریفرنڈم کا انعقاد کروایا جائے۔
اس خاکے ( طریقہ کار ) کے نفاذ میں 4 بنیادی مراحل شامل ہیں:
1۔فلسطینی پناہ گزینوں کی اپنی اصل اور تاریخی سرزمین پر واپسی کے حق پر عمل درآمد۔
2۔فلسطینی سرزمین کے اصل باشندوں کے درمیان قومی ریفرنڈم کا انعقاد، جس میں تمام مذاہب کے پیروکار بھی شامل ہیں جو اعلان بالفور سے قبل فلسطین میں مقیم تھے، تاکہ حق خود ارادیت اور سیاسی نظام کی قسم کا تعین کیا جا سکے۔
3۔فلسطینی عوام کی اکثریت کی مرضی کے مطابق ( مطلوبہ) سیاسی نظام کی تشکیل۔
4 ۔اکثریت کے منتخب شدہ سیاسی نظام کے ذریعے فلسطین کے غیر مقامی باشندوں کی حیثیت کے بارے میں فیصلہ سازی۔
(صاحبِ مضمون قونصل جنرل اسلامی جمہوریہ ایران لاہورہیں)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)