• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیو ایم جو پہلے مہاجرقومی موومنٹ کہلاتی تھی اوربعد میں متحدہ قومی موومنٹ کے طورپر پہچانی گئی ، کی تاریخ تقریباً1980ء سے شروع ہوتی ہے جس میں اب تک کئی اتار چڑھا ئو آئے ‘مگر اس بار جو مرحلہ آیاہے اس کے بعد اب نہ فقط میڈیا میںسیاسی مبصرین ‘دانشوروں اورشاید کسی حدتک ایم کیوایم کے حامیوں میں بھی یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ اب کی بار ایم کیوایم کاکیا مستقبل ہوگا؟کیا واقعی ایم کیوایم دودھڑوں یادومختلف جماعتوں میں تقسیم ہوجائے گی؟ اگرایم کیوایم کی تاریخ پرنظر ڈالی جائے تو پتہ چلتاہے کہ ایک تو کم سے کم تین بار ایم کیوایم کے خلاف ریاستی آپریشن کیاگیا بعد میں ایم کیوایم کے بطن سے آفاق احمد وغیرہ کی قیادت میں ایک نیا دھڑا وجود میں آیا مگر یہ دھڑا حالات کی نذرہوتا ہوا نظرآیا، اس دوران یہ بحث چلتی رہی کہ جو دھڑا وجود میں آیا وہ خودبہ خود وجود میں آیا یاکسی ’’خاص‘‘ قوت کی مدد سے وجود میں آیا۔ مجھے اس کالم میں ان باتوں کاجائزہ لیناتھا مگر میں چاہوں گا کہ جناب الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیوایم کے قیام کے بعد ان سے جو میری ملاقاتیں اوربات چیت ہوئی اسے پیش کروں۔جوحلقے ایم کیوایم کاقریب سے جائزہ لیتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مہاجر قومی موومنٹ بننے کے بعد ایم کیوایم نے اپنا پہلا جلسہ حیدرآباد کے پکاقلعہ میں منعقد کیا ۔الطاف حسین اس جلسے کے انعقاد سے کوئی ایک ہفتہ قبل کراچی سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ حیدرآباد آئے یہاں ایک تو انہوں نے جلسے کے انتظامات کو آخری شکل دینے کے لئے متعدد اجلاس کئے اوربعد میں کراچی روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے حیدرآباد پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس وقت میں ایک انگریزی اخبار کے بیورو چیف کی حیثیت میں حیدرآباد میں تھا۔ لہٰذا اس پریس کانفرنس میں بھی موجودتھا ۔اس وقت اردو بولنے والے ہمارے کچھ ساتھی جماعت اسلامی اور مولانانورانی کی پارٹی جے یوپی کے اثر میں تھے ۔ جب الطاف حسین بولنے لگے تو ہمارے کچھ ساتھی خواہ مخواہ غیرضروری سوال کرنے لگے جس کی وجہ سے الطاف حسین کو بولنے میں کافی دشواری ہورہی تھی۔مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگا‘ لہٰذا میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہاکہ پہلے آپ انہیں بولنے دیں ۔بعد میں سوالات کریں۔ اس کے بعد سب خاموش ہوگئے۔پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعدپریس کلب سے نکلتے ہوئے الطاف حسین لوٹے اور سیدھے میر ے پاس آئے انہیںاپنی طرف آتا دیکھ کر میں بھی کھڑا ہوگیا، میرے نزدیک پہنچتے ہی الطاف حسین نے انتہائی عزت واحترام کے ساتھ مجھ سے ہاتھ ملایا اور پریس کانفرنس میںمیری مداخلت کا شکریہ ادا کیا۔میں نے کہا کہ میرا یہ فرض تھا اس دوران وہ میرے ہاتھ پکڑے رہے اورمجھے کہنے لگے کہ مغل صاحب آج رات کا کھانا آپ ہمارے ساتھ کھائیں۔ میںنے ان کی دعوت کاشکریہ ادا کیا اورکہا کہ الطاف صاحب اب آپ سیاست میں آئے ہیں کبھی ہم آپ کا کھانا کھائینگے توکبھی آپ ہمارا کھانا کھائینگے میرا خیال ہے یہ کھانا ہم کسی اور وقت کھائینگے۔

مگر الطاف حسین نے اس حدتک زور دیاکہ مجھے ہاں کہنا پڑی اور کہا کہ اگر گپ شپ بھی کرنی ہے تو میں ایک دو ساتھیاںکو بھی لے آئوں؟جواب میںوہ بہت خوش ہوئےاورانتہائی پرجوش انداز میںکہنےلگےکہ کیوں نہیں؟انہوں نے کہا کہ فلاں ٹائم پر ہماری دو تین گاڑیاں آپ کو لینے آئینگی ۔میرے ساتھ اس دعوت میں جانے والوں میں سینئر صحافی مرحوم نثار چنہ‘ عبرت کے سابق ایڈیٹر مرحوم خیرمحمدکھوکھر ‘سینئر صحافی دستگیر بھٹی شامل تھے۔ وہاں پہنچنے کے بعد شروع میں ہلکی پھلکی گپ شپ ہوتی رہی بعد میں کھاناہوا اس کے بعدسیاست پر بھرپوربحث شروع ہوئی۔ الطاف حسین نے اپنے پروگرام کی خوب وضاحت کی جب یہ باتیں ہورہی تھیںتوایک بات بار بار میرے ذہن کلبلا آرہی تھی ،آخر کار مجھ سے رہانہ گیا میں نے الطاف حسین کو انتہائی احترام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ الطاف صاحب اگرآپ برانہ مانیں تومیں ایک بات آپ کے سامنے رکھوں؟ جواب میں الطاف حسین نے انتہائی خوشدلی سے کہا’’کیوںنہیں؟‘‘ہم اسی لئے تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔اسکے بعد میں نے کہا کہ ’’آپ نے اپنی جماعت کانام بھی مہاجر قومی موومنٹ رکھاہے اور ساتھ ہی مہاجروں کو ایک قومیت کے طورپر پیش کررہے ہیں جبکہ میرا خیال ہے کہ سندھ کے عوام کی نفسیات پراس بات کاکافی منفی اثر ہوسکتاہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسی باتوں سے سندھ کی سیاست مجموعی طورپر کسی ناخوشگوار صورتحال کاشکار ہوجائے۔ میراخیال تھایہ سوال سننے کے بعد ان کاموڈ خراب ہوجائے گا مگرمجھے اس وقت واقعی حیرت ہوئی جب میں نے دیکھا کہ الطاف حسین ہنس کر میری طرف دیکھ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ’’مغل صاحب ‘‘اچھا ہوا کہ آپ نے یہ سوال کیا میں خود بھی اس نکتے کی وضاحت کرناچاہتاتھا کہ ’’مجھے یہ نام اس وجہ سے adoptکرناپڑا ہےکہ اس وقت اردو بولنے والے (مہاجر) زیادہ ترجماعت اسلامی اور جے یوپی کی سیاست کے اسیر ہیں ان کو اس مخصوص سیاست کے پھندے سے نکالنے کیلئے ہمیں کوئی ایسا نعرہ تو اختیار کرنا تھا تاکہ ہمارے مہاجر بھائی اس سیاست سے چھٹکارا حاصل کرسکیں ۔ الطاف حسین نے اپنی جماعت کا نام تبدیل کرکے ’’متحدہ قومی موومنٹ‘‘ رکھا اور آج تک وہ یہی نام اختیار کئے ہوئے ہیں مگر ساتھ ہی مجھے یہ بات بھی کہنے کی اجازت دیں کہ الطاف حسین اور ان کی جماعت نے یہ نام تو ڈراپ کردیا مگر ’’مہاجر سیاست ‘‘کو ترک نہ کرسکے۔

تازہ ترین