ڈاکٹر نوشین خالد
ہندوستان میں غزنوی سلاطین کے دور میں فارسی زبان و ادب بہت حد تک رائج ہو چکا تھا۔ اگرچہ غزنوی ترک تھے لیکن فارسی زبان کی ادبی اور ثقافتی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ ہندوستان پر تیموری خاندان کی حکومت کے بعد فارسی دربار شاہی کی رسمی زبان بن گئی کیونکہ تیموری حکمران ایرانیوں کو اپنا ہم زبان سمجھتے تھے۔ برصغیر میں فارسی زبان کے انحطاط کے دور میں جب انگریزوں نے اس زبان کو مٹانے کا عزم کیا تب مرزا سد اللہ غالب اور علامہ اقبال جیس شخصیات اس زبان کی حفاظت کرنے میں مصروف رہیں۔
علامہ اقبال ؒنے ایک غیر فارسی زبان کے شاعر ہوتے ہوئے ایک نئے سبک شعر کو پیدا کیا جو انہی کے نام سے معروف ہوا اور اس کا اعتراف نہ صرف ہندوستان اور پاکستان کے ناقدین بلکہ ایرانیوں نے بھی کیا ہے ۔ علامہ اقبال نے اپنا ایک سبک قائم کیا جو ہندی اور ایرانی سبکوں سے جدا اور منفرد ہوتے ہوئے ان سب پر حاوی بھی ہے۔
صورت نپرستم من بتخانہ شکستم من
آن سیل سبک سیرم ہر بند گستممن
در بودو بنودمن اندیشہ گمانہاداشت
از عشق ہویدا شداین نکتہ کہ ہستم من
در دیرنیاز من درکعبہ نماز من
زنار بدوشم من تسبیح بہ دستم من
فرزانہ بہ گفتارم دیوانہ بہ کردارم
ازبادہ شوق تو ہشیارم و مستم من
کلیات اقبال فارسی ص۳۳۲
یعنی میں نے صورت پرستی نہیں کی اور ظاہری و باطنی ہر بت کو پاش پاش کر دیا۔ میری حیثیت اس سیل بے پناہ کی ہے جو اپنے راستے کی تمام رکاوٹوں کو دور کرتا چلا جاتاہے۔ عقل اگر ایک طرف میری ہستی کا اثبات کرتی رہی تو دوسری طرف میرے وجود میں شبہات بھی وارد کرتی رہی لیکن عشق سے مجھے اپنے ہونے کا یقین ہوا۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے سیالکوٹ کے زمانہ طالبعلمی سے ہی فارسی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ 1905 ء میں فارسی زبان میں ان کی پہلی نظم چھپ گئی تھی۔
شاعر مشرق، ترجمان حقیقت اور حکیم الامت جیسے القابات پانے والے ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبال ؒ پاکستان یا اردو ادب کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے شاعر ہیں۔ ان کے شعری مجموعے اردو اورفارسی دونوں زبانوں میں ہیں۔ اردو میں بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم، ارمغان حجاز اور فارسی میں اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، جاوید نامہ ،زبور عجم، مثنوی مسافر، پس چہ باید کرداے اقوام مشرق شامل ہیں۔ کلام اقبال کا بیشتر حصہ فارسی زبان میں ہے ۔ان مجموعوں میں شامل تمام تر کلام قوم کی اصلاح اور تربیت کے لیے ہے۔
علامہ اقبال کی فلسفیانہ شاعری کا پہلا مجموعہ اسرارخودی کے نام سے 1915ء میں شائع ہوا ۔ اس کتاب میں انفرادیت کے بارے میں نظمیں شامل ہیں۔ اسرار خودی کی اشاعت سے پہلے اس کے کئی حصے مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے اس کا دیباچہ علامہ محمد اقبال ؒ نے اردو میں تحریر کیا ،جس کو بعد کے ایڈیشن میں حذف کر دیا گیا۔ علامہ اقبال کی دوسری فارسی تصنیف رموز بے خودی ہے جو 1918میں شائع ہوئی۔ رموز بے خودی کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت اور اسرار خودی کے تیسرے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد دونوں مثنویوں کو یکجا کر دیا گیا۔ اسرار و رموزکے نام سے دونوں مثنویاں 1923سے یکجا ہی شائع ہو رہی ہیں۔
علامہ اقبال کا فارسی کا تیسرا مجموعہ کلام پیام مشرق ہے جو 1923میں شائع ہوا ۔ پیام مشرق دیوان غربی شرقی کا جواب ہے جو مشہور جرمن شاعر گوئٹے کا کلام ہے۔ علامہ کو گوئٹے کے طرز احساس میں اپنائیت محسوس ہوئی چنانچہ انہوں نے گوئٹے کی کتاب کے سو سال بعد پیام مشرق کے نام سے اپنا مجموعہ کلام شائع کر کے اسے دنیائے مشرق کی جانب سے جہان مغرب کے لیے ایک تحفہ قرار دیا۔
اس میں علامہ اقبال کا تحریر کردہ اردو دیباچہ بھی شامل ہے ۔ علامہ اقبال نے اس مجموعہ کلام کا انتساب امیر امان اللہ خان والی افغانستان کے نام کیا۔ زبور عجم 1927ء میں شائع ہوئی اس کے پہلے دو حصوں میں کلاسیکی غزلیں اور دوسرے دو حصوں میں طویل نظمیں ہیں۔ زبور عجم میں مثنوی گلستان راز جدید اور بندگی نامہ شامل ہیں۔
مثنوی مسافر 1930میں شائع ہوئی مگر 1936سے یہ بعد میں آنے والی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق کے ساتھ شائع ہورہی ہے۔ 1930ء میں افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے ڈاکٹر اقبال کو سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کے ساتھ افغانستان مدعو کیا ۔ انہیں کابل یونیورسٹی کے تعلیمی پروگرام کے سلسلے میں مشورہ لینے کے لیے دعوت دی گئی تھی۔ مثنوی مسافر میں علامہ اقبال نے اپنے دو ہفتے کے مشاہدات بیان کیے اور افغانیوں کو بیداری ، اتحاد اور ترقی کا پیغام دیا۔
پس چاہ باید کرد اے اقوام مشرق کی شان تصنیف یہ ہے کہ ایک زمانے میں علامہ محمد اقبال ؒ اپنے علاج کے لیے بھوپال تشریف لے گئے تھے۔ ایک رات سر سید احمد خان سے خواب میں ملاقات ہوئی ۔ سرسید نے ان سے کہا اپنی علالت کا ذکر حضور رسالت مآب ؐ سے کیوں نہیں کرتے ۔ جب آنکھ کھلی تو یہ شعر ورد زبان تھا۔
باپرستاران شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز
پھر چند اشعارعلامہ نے نبی اکرم ؐ کی خدمت میں پیش کیے ۔ اس کے بعد علامہ برصغیر اور خارجی ممالک کے سیاسی اور اجتماعی حالات پر اپنے تاثرات کا اظہار اشعار کی صورت میں کرتے رہے جنہوں نے ایک مثنوی کی شکل اختیار کر لی۔
جاوید نامہ کا ذکر پہلی بار گول میز کانفرنس کے دوران ہوا۔ اس کی اشاعت 1932میں ہوئی اس کتاب کا شمار علامہ اقبال کی بہترین کتابوں میں ہوتا ہے وہ اسے اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے ۔ علامہ فرماتے ہیں کہ اس کتاب نے مجھے نچوڑ کر رکھ دیا یہ مثنوی کی شکل میں ہے اور دو ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ علامہ اقبال کا افلاک کا خیالی سفرنامہ ہے جس میں ان کے رہبر مولانا رومی انہیں مختلف سیاروں اور سوئے افلاک کی سیر کراتے ہیں ۔ اپنی اس کتاب کے بارے میں خود علامہ محمد اقبال ؒ کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے حوالے سے جو بھی مہارت فن سے کام کرے گا وہ زندہ و جاوید ہو جائے گا۔ اگر مصور اس پر طبع آزمائی کرے گا تو دنیا میں نام پیدا کرے گا۔
علامہ محمد اقبال کے کلام کا اردو سے زیادہ حصہ فارسی زبان میں ہے۔ اس لیے علامہ اقبال کے افکار نے نہ صرف ایرانی قارئین کو متاثر کیا بلکہ ایرانی مفکرین بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ایران میں علامہ اقبال کو اقبال لاہور ی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مولوی کا لفظ صرف دو شخصیات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، علامہ اقبال اور مولانا رومی۔ ایران میں بے شمار سڑکیں ، لائبریریاں اور اداروں کے نام علامہ محمد اقبال ؒ کے نام پر ہیں۔
انقلاب ایران کے اہم راہنما ڈاکٹر علی شریعتی جنہوں نے ایرانی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا علامہ کے افکار سے بے حد متاثر تھے کیونکہ وہ یورپ سے تعلیم حاصل کر کے آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ ایرانی قوم کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا تھا جن کا سامنا علامہ اقبال ؒ اور پاکستانی قوم نے کیا۔ ایرانی مغربی یلغار کے سامنے اپنا تشخص کھو چکے تھے۔
ڈاکٹر علی شریعتی کا احیاء فکر دینی کا تصور اور خودی کا تصور فکر اقبالؒ سے ہی ماخوذ ہیں۔ انہوں نے اپنے ادارے حسینیہ ارشاد میں علامہ اقبال کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں سب سے اہم مقالہ ان کا اپنا تھا۔ علامہ اقبال پر ان کی دو تصانیف ماوا اقبال اور اقبال معمار تجدید بنائی تفکر اسلامی منظر عام پر آچکی ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے اپنے فارسی مجموعہ کلام میں انقلاب ایران کی پیش گوئی بھی کی ہے۔
می رسد مردے کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ ام ازدوزن دیوار زندان شما
یعنی میں نے زندان کے سلاخوں کے پیچھے سے دیکھ رہاہوں کہ ایک مرد آرہا ہے جو تمہیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرائے گا ۔