مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
دنیا میں جتنی اقوام موجود ہیں، اور جتنے مذاہب کے ماننے والے ہیں، ان میں سے ہر قوم اور ہر مذہب کے متبعین سال میں کچھ مخصوص ایام خوشی اور تہوار کے طور پر مناتے ہیں، لیکن ان کے تہوار اور خوشی کے منانے کے انداز میں اور مسلمانوں کی عید میں بہت بڑا فرق ہے۔دنیا کی اقوام کے تہوار معصیت، فحاشی، اللہ کی نافرمانی ، رسول اللہ ﷺسے بغاوت ،شراب نوشی، مردوزن کے بے محابا اختلاط پر اور طرح طرح کی گندگیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔
دوسری جانب ہمارا مذہب دین اسلام ہے، جس میں ہمیں سال میں خوشی کے دو دن دیئے گئے، ایک عید الفطر اور دوسرا عیدالاضحی، ایک تو یہ دونوں دن کسی یادگار یا کسی خاص واقعے سے منسوب نہیں ہیں، بلکہ یہ دونوں دن عبادات کی تکمیل پر بطور انعام کے ہمیں عطا ہوئے ہیں۔ یعنی مسلمان عبادت کرکے اپنے رب کے احکام کی تعمیل کرتا ہے تو اس پر اللہ نے بطور نعمت کے خوشی کے یہ دن مسلمانوں کو عطا کئے، یہ کتنا پاکیزہ دین ہےکہ ہمارے تہوار عام قوموں کے تہوار کی مانند کسی خاص واقعے ،یاکسی شخص کی ولادت یا موت سے منسوب نہیں، بلکہ ان کی نسبت عبادت سے ہے،اپنے پروردگار کی رضا سے ہے۔
جب یہ خوشی کے دو دن آتے ہیں، عید الفطر اور عید الاضحیٰ، ان دنوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ اس دن کے آنے پر بھی مجھ سے غافل نہیں ہونا، اپنے رب کو فراموش نہیں کرنا، حدود اور قیود سے آزاد نہیں ہونا، معصیت اورنافرمانی میں یہ دن نہیں گزارنے ،بلکہ دونوں دنوں میں ہم پر عبادات لازم کردیں، عید الفطر کے دن نماز عید واجب کردی، عید الاضحی کے دن نماز عید لازم کردی، عید الفطر کے دن نماز کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور تعاون صدقۂ فطر کی صورت پر واجب کردیا، اور عید الاضحی میں نماز عید کے ساتھ اپنے اموال کو قربانی کی صورت میں خرچ کرنے کا حکم دیا۔ گویا ہماری عید سراسر عبادت ہی عبادت ہے۔ یہ فرق ہے مسلمانوں کی عید اور غیرمسلموں کے جشن اورتہوار میں۔
عیدالفطر اور عید الاضحی کا آغاز
ابوداؤدشریف کی روایت میں ہے حضرت انس ؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺمدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ سال میں دو دن کھیل کود کے طور پر مناتے ہیں، آپﷺ نے لوگوں سے ان دو ،دنوں کے بارے میں دریافت فرمایا، تو جواب ملا کہ ہم جاہلیت کے زمانے سے اسی طرح دو دن تہوار مناتے چلے آئے ہیں اور یہ رواج اب تک جاری ہے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دو،دنوں کے بدلے ان سے کہیں بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں ،ان میں سے ایک عید الاضحیٰ اور دوسرا عیدالفطر ہے۔
عید کو گناہوں میں ملوث نہ کریں
ہم ان پاکیزہ دنوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا والے اعمال میں گزاریں ، تاکہ ہماری عید، حقیقی عید بن سکے، علماء نے لکھا ہے کہ عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ ان ایام میں بار باراللہ کی رحمت بندوں کی جانب لوٹ کر آتی ہے، اور بندے اللہ کی جانب سے رحمت اور مغفرت کے مستحق بنتے ہیں، تو اصل عید اس شخص کی ہوئی جو اللہ کی رحمت کا مستحق بنا، جسے بخشش کا پروانہ ملا۔لہٰذا ہم ایسا کوئی عمل نہ کریں، جس سے اس دن ہمارا پروردگار ہم سے ناراض ہو۔
ہر وہ دن جو نافرمانی سے محفوظ ہو ،وہ عید ہے
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک موقع پر عراقی لوگوں کو دیکھا کہ زیب و زینت اختیار کررہے ہیں اور عید منارہے ہیں تو آپ نے ایک جملہ ارشاد فرمایا: ہر وہ دن جس دن ہم سے اللہ کی نافرمانی سرزد نہ ہو ،کوئی گناہ نہ ہو ،ایسا ہر ہردن ہمارے لیے عید ہے۔
عید کے بارے میں صوفیائے کرام کے عارفانہ جملے
مظاہر حق جو مشکوٰۃ شریف کی شرح ہے اس میں بعض صوفیاء کے یہ جملے نقل کئے گئے ہیں جو ہمارے لیے بڑا سبق رکھتے ہیں : عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو نئے کپڑے پہنے، بلکہ اس کے لئے ہے جو برے کاموں سے بچتا رہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا مستحق ہوا ور اس کے عتاب سے امن میں رہے۔عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو عود کی خوشبو سے معطر ہو بلکہ عید اس کے لئے ہے جو توبہ کرنے والا ہو کہ پھر گناہ نہ کرے۔
عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو آرائش، دنیا کی زینت اختیار کرے، بلکہ اس کے لئے ہے جو تقویٰ (پرہیزگاری) کو آخرت کے لئے زاد راہ بنائے۔ عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو سواریوں پر سوار ہو، بلکہ اس کے لئے ہے جو گناہوں کو ترک کرے۔عید اس آدمی کے لئے نہیں جو ( آرائش و زیبائش کے) فرش بچھائے، بلکہ اس کے لئے ہے جو پل صراط سے گذر جائے گا ۔
عید کی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کریں
ہمارا دین ہمیں انفرادی نہیں ،بلکہ اجتماعی فکر کی دعوت دیتا ہے، عید کی خوشی ہماری ذات تک محدود نہ ہو، معاشرے میں جولوگ غریب ہوں ، فقیر ہوں، محتاج ہوں ، بیوائیں ہوں ، ان کے ساتھ تعاون کریں، انہیں عید کی خوشیوں میں شریک کریں، کسی مسلمان کو خوشی کا موقع فراہم کرنا بہت بڑی سعادت ہے، اس لیے عید کے دن ہم فرحتوں اور مسرتوں میں مشغول ہوکر معاشرے کے اس طبقے کو فراموش نہ کریں۔
کسی مسلمان کی دلجوئی کرنا، اس کی ضرورت کو پورا کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔نبی کریمﷺ اپنے صحابہ ؓکی ضروریات کا لحاظ رکھتے تھے، جوصحابہ ؓ کسی بھی اعتبار سے ضرورت مندہوتے ان کی دلجوئی فرماتے، مختلف طریقوں سے ان کی ضروریات کو پورا فرماتے تھے۔
دلائل النبوۃ میں امام بَیْہقی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺنے ایک بار قریش کے تین افراد سے قرض لیا، صفوان بن امیہ سے پچاس ہزار درہم ، عبداللہ بن ابی ر بیعہ سے چالیس ہزار درہم، اور حوطب بن عبدالعزی سے چالیس ہزار درہم اور یہ ساری رقم مالی اعتبار سے کمزور صحابہ ؓمیں تقسیم کردی، اور بعد میں ایک غزوے میں فتح کے بعد یہ سارا قرض آپﷺ نے ادا کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عید کی حقیقی خوشیاں نصیب فرمائے۔(آمین)
عیدالفطر کے مسنون اعمال
عید کے دن مندرجہ ذیل اعمال مسنون ہیں:(۱) شریعت کے مطابق اپنی آرائش کرنا۔ (۲) غسل کرنا ۔(۳) مسواک کرنا ۔(۴) عمدہ سے عمدہ کپڑے جو پاس ہوں پہننا ۔(۵) خوشبو لگانا۔ (۶) صبح بہت سویرے اٹھنا۔ (۷) عید گاہ بہت جلدی جانا۔ (۸) عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھجور، چھوہارے وغیرہ کھانا۔ (۹) عید گاہ جانے سے قبل ہی صدقہ فطر ادا کرنا۔ (۱۰) عید کی نماز عید گاہ میں جا کر پڑھنا۔ (۱۱) ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ (۱۲) عید گاہ پیدل جانا۔ (۱۳) عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللّٰہ الحمد‘‘ آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔‘‘حضور ﷺ سے عیدین میں غسل کرنا ثابت ہے۔