• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجابی افسانہ نگار اکبر لاہوری سے تو شاید آپ آشنا ہوں گے، غالباً منیر لاہوری کو آپ نہیں جانتے۔ کوئی چالیس بیالیس برس گزرے، خاکسار نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ بی اے میں اختیاری مضمون کے ضمن میں فارسی، عربی اور پنجابی کی فہرست موجود تھی۔ عربی میں مجھے دلچسپی نہیں تھی۔ عام تاثر تھا کہ فارسی زیادہ نمبروں کے لالچ میں چنی جاتی ہے۔ درویش مشکل پسند تھا۔ پنجابی کا انتخاب کیا۔ وائس پرنسپل کے دفتر کے عقبی کمرے میں کوئی درجن بھر لڑکے پنجابی پڑھنے جمع ہوئے۔ یہاں ہمیں منیر لاہوری پڑھانے آئے۔ نوجوان تو نہیں، البتہ بھرپور جوان تھے۔ بوٹا سا قد، خالص لاہوری لہجہ، نرم گفتار، سادہ لباس۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ موہنا سا استاد ہمیشہ کے لئے پنجابی ادب کی محبت میں مبتلا کر دے گا۔ منیر لاہوری نے ہمیں مختلف شاعر اور نثر نگار اس دلکش انداز میں پڑھائے کہ شریف کنجاہی، منیر نیازی، انور علی، نواز، رفعت حسن، منظور وزیر آبادی، سلیم کاشر اور خلیل آتش ہمیں اپنے دوست یار معلوم ہونے لگے۔ پنجابی لفظ کی پرتیں ہمارے اندر اتر گئیں۔ منیر لاہوری نے ہمیں کسی دوسری زبان سے نفرت نہیں سکھائی، صرف اپنی زبان کی خوبصورتی سے تعارف کروایا۔ یہی ایک بڑے استاد کا نشان ہوتا ہے۔ ایک روز فرمایا کہ اکبر لاہوری پنجابی کا سب سے بڑا کہانی کار ہے۔ میں نے آہستگی سے کہا کہ مجھے تو انور علی کی نثر زیادہ اچھی لگتی ہے۔ یہ استاد سے اختلاف تھا لیکن نہایت شفقت سے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا، ’’اوہ وی بوہت وڈے نیں۔ ہر فنکار دا اپنا رنگ ہوندا اے۔‘‘ کس سلیقے سے باریک نکتہ سمجھایا تھا۔ دو برس کا عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ ہم سب تیز تیز قدم اٹھاتے دنیا کے ہجوم میں گم ہو گئے۔ کچھ برس بعد منیر لاہوری صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ امریکہ چلے گئے ہیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ اب اس رچائو سے کون پنجابی ادب پڑھائے گا؟ بڑا فنکار اپنے عہد کا محسن ہوتا ہے اور اچھا استاد طالب علم کے لئے زندگی کا احسان ہوتا ہے۔ منیر لاہوری، جہاں بھی رہیں، سلامتی اور خوشی کی چھائوں ان پر قائم رہے۔ فرد اپنی راہیں تراشنے کا غیرمشروط حق رکھتا ہے۔ آج اس مہربان استاد کی یاد اور ان کے بیرون ملک آباد ہونے کا خیال اگلے روز احباب کی ایک مجلس سے برآمد ہوا۔

دوستوں کا اتفاق تھا کہ آمریت وطن کی محبت میں نہیں، ذاتی اور گروہی مفاد میں ملک کے وسائل نچوڑنے کیلئے قائم کی جاتی ہے۔ چنانچہ ملکی معیشت کی تباہی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ اب یہاں پاکستان کی کوتاہ نظر اشرافیہ کی طرح گزشتہ آمریتوں کی نام نہاد معاشی ترقی کی مثال نہ دیجئے گا۔ ذرا سا کھرچنے سے واضح ہو جائے گا کہ مخصوص ادوار میں بیرونی امداد اور قرضوں کی برسات کے اسباب کیا تھے، وہ دولت کہاں خرچ ہوئی، آمادہ بہ تعاون طبقہ کس طرح مستفید ہوا اور عوام کے معیار زندگی میں ترقی کی رفتار باقی دنیا سے پیچھے کیوں رہ گئی؟ احباب اس پر بھی متفق تھے کہ آمریت اپنی نہاد میں ناجائز ہونے کے سبب ایک جرم مسلسل ہی نہیں، مستقل بحران بھی ہوتی ہے۔ حکومت اور ریاست کا فرق مٹ جاتا ہے۔ قانون فرد واحد کی خواہشات کے تابع ہو جاتا ہے۔ ممکنہ سیاسی مخالفت سے خائف آمر اپنے اقتدار کو ممکنہ حد تک طول دینے کے خبط میں مبتلا ہوتا ہے۔ چنانچہ قوم کے سیاسی ارتقا میں طرح طرح کی پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔ دستور سے کھلواڑ اور اداروں میں اکھاڑ پچھاڑ کرتا ہے۔ سیاسی عمل مفلوج ہو جاتا ہے۔ آمریت کی بظاہر مضبوط گرفت کے پس پردہ ہمہ وقت موجود غیریقینی کیفیت دیکھتے ہوئے سرمایہ کار ادھر کا رخ نہیں کرتا۔ ناجائز حکمران کے پنجہ استبداد میں گرفتار قوم کی توقیر ختم ہو جاتی ہے۔ جس ملک میں حکمران اپنے شہریوں کے احترام سے بے نیاز ہوں، دنیا بھی اس ملک کو تحقیر سے دیکھتی ہے۔اس پر درویش نے توجہ دلائی کہ آمریت بھلے موت کے کنویں والے تشہیری تختے پر جلوہ دے یا بند کمروں میں واردات کرے، اس کا کہیں زیادہ مہلک نقصان قوم کے تہذیبی، علمی اور تمدنی ارتقا کو پہنچتا ہے۔ علمی اور تخلیقی ترقی تو نقش کہن سے انحراف کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ دوسری طرف آمریت کو مصنوعی استحکام اور یک جہتی کا ہوکا ہوتا ہے۔ آمریت کے پاس بریگیڈیئر ایف آر خان اور لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن سے لے کر ’شکریہ راحیل شریف‘ تراشنے والوں تک، ذہن سازی کا پورا کارخانہ موجود ہوتا ہے لیکن مشتاق احمد یوسفی، جسٹس صمدانی اور فہمیدہ ریاض جیسے ذہن اس سنہری پنجرے سے نکل لیتے ہیں۔ کچھ رضاکارانہ طور پر نکل جاتے ہیں جیسے قرۃ العین حیدر اور فیض۔ کچھ صعوبت سے گزر کر جلاوطن ہوتے ہیں جیسے امین مغل، راجہ انور، افراسیاب خٹک، ظفریاب احمد اور پرویز رشید۔ کچھ گھر بیٹھے ہی چولا بدل لیتے ہیں۔ آوازوں کے قحط کی صورت کچھ بھی ہو، قوم کی دانش بہرحال کمزور ہوتی ہے۔ حد پرواز پر گرہ بندی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت سا انسانی سرمایہ معاش اور شخصی آزادی کے بہتر مواقع کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔ درویش کی جوانی میں سیاست حرف دشنام تھا جبکہ ڈاکٹر اور انجینئر بن کر قوم کی خدمت کرنے والے بہت تھے۔ آج میری نسل کا شاید ہی کوئی دانہ ایسا بچا ہو جس نے رضاکارانہ طور پر پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی، سب نکل گئے۔ آئندگان میں بھی جس کی نبض میں دم ہو گا، پتن پار اتر جائے گا۔ قابض اشرافیہ خوش ہے کہ یہ لوگ یہاں رہتے تو خواہ مخواہ شور و غل کرتے۔ ہم ایسے گھگھو گھوڑوں پر کاٹھی ڈالنا آسان ہے۔ حکمران طبقے کو شاید خبر نہیں کہ رسمی شعور و آگہی سے نابلد ہجوم کا اشتعال زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔ اگر اپنی کارگاہ میں تراشا ہوا کاٹھ کا شاہسوار ایک پوری نسل کو کف در دہان لشکر میں بدل سکتا ہے تو کسی حقیقی عوامی ابھار کو قابو میں رکھنا کس قدر دشوار ہو گا۔ ہماری کیا ہے؟ ہم ایسوں کے لئے جسٹس رستم کیانی نے ایک اچھا جملہ کہہ رکھا ہے، ’’پاکستان پنچایت کی طرف جا رہا ہے۔ آپ بھی ساتھ ہو لیں۔ میں یہیں بیٹھ جاتا ہوں‘‘۔

تازہ ترین