• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ تکرار، میری سیاست کا وجہ وجود ’’رول آف لا یا قانون کی حکمرانی‘‘ رہی ہے ۔ یقیناً اسکے لئے ’’مدر آف لاز‘‘ ( آئین پاکستان) کا آسرا لینا تھا۔ بدقسمتی کہ عمران خان نے ’’مدر اِن لا ‘‘میں آسرا ڈھونڈ نکالا۔

آڈیو لیکس کا سلسلہ چھپے کھلے دہائیوں سے جاری ہے۔لیکس کی اخلاقی سماجی قانونی حیثیت سے قطع نظر ، چند مہینوں سے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچانے والی آڈیو لیکس نے حیران رکھا نہ پریشان کیا کہ یہ پُرانا ، آزمودہ طریقہ ہماری قومی خصلت کا جزولاینفک بن چُکاہے۔ دوستوں ، رشتہ داروں کا نظام ریاست پر اثرانداز رہنا بھی کبھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ مفادات کیلئےدباؤ میں لانا ، ہمارے نظام اور اداروں کا COMPROMISED ہونا ثابت ہے۔

مجھے چیف جسٹس کی ساس اور تحریک انصاف کے وکیل خواجہ طارق رحیم کی بیگم کی آڈیو لیکس کی گفتگو سے غرض ہے۔ عدالت کے سامنے ایسا مقدمہ جس نے ملکی سیاست میں ہیجان برپا کر رکھا ہو، اس پر خوشدامن کا اثر انداز ہونا میرے لئے تشویشناک ہے۔ عمران خان بارے نیک خواہشات، دُعائیں وارفتگی جائز ہے، مخالفین کیلئے بددُعائیں بھی اچنبھے کی بات نہیں۔ گفتگو کا ایسا حصہ جس میں چیف جسٹس صاحب کیلئے مناجات سے بڑھ کر پیغامات، توقعات، خواہشات کا وقف رہنا انتہائی قابل گرفت ہے۔

پاکستانی سیاست میں سچ اور اخلاص سے عاری اوصاف رکھنے والے عمران خان پہلے نہیں البتہ ایک دلچسپ اضافہ ضرور۔ اس سے پہلے ان سے ملتے جُلتے چند کردار شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو اور الطاف حسین نادر نمونہ رہے ہیں۔ ویسے تو پچھلی چند دہائیوں سے جتنے بھی نمایاں سیاستدان متعارف ہوئے، یکسوئی سے سچ، اخلاص اور اُصول پرستی سے نابلد رہے ہیں۔ عمران خان ممیز اس لئے کہ ایسے اُصول و ضوابط اور ایسی روایت کے کسب کو کمال کا درجہ دے رکھا ہے۔ اس سے پہلے شاید ہی کسی دوسرے میں اس شدت اور کثرت سے تضادات دیکھنے کو ملے ہوں ۔ ایک موقع پر جن اوصاف حمیدہ کو اپنی طاقت، خصلت، منشور بتاتے ہیں ، دوسرے موقع پر اُنہی کو روندتے ہیں۔ اور پھر دوبارہ سے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کا احترام، اداروں پر اعتماد، اسلامی ٹچ و مشرقی روایات کی پاسداری پر تفصیلی بھاشن دینے سے ہچکچاتے نہ شرماتے ہیں۔

مرحوم مشرقی پاکستان کی یاد ستا رہی ہے۔ا لبدر اور الشمس بشمول دیگر عوامی لیگ مخالف سیاسی جماعتوں کو ہدیہ تبریک پیش کرنے کیلئے آج دل مچل رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کے دگر گوں اور نامساعد حالات میں شیخ مجیب الرحمان نے مقدمات سمندر سامنے اسٹیبلشمنٹ ( جو مملکت کو اس نہج پر لانے کی ذمہ دار تھی) کا ساتھ دیا۔بین ہی آج عمران خان کی مقبولیت کے سامنے تمام وطنی سیاسی جماعتیں اگرچہ بے بس اور بے وقعت نظر آ رہی ہیں، اسٹیبلشمنٹ ( جو موجودہ حالات کی اکلوتی ذمہ دار) کی حمایت میں نہ صرف کمر بستہ بلکہ انصافی سوشل میڈیا طوفان اور عدالتی گٹھ جوڑ کا بھر پور مقابلہ کر رہی ہیں۔ جس موڑ پرہیں وطنی سیاست کو رائج دھوکہ، جھوٹ، منافقت، فریب، منافرت سے آزاد کروانا بظاہرناممکن ، ناممکنات کو ممکنات کے قریب لانے کیلئے وقت درکار ہے ۔جبکہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس وقت کی قلت ہے۔ الیکشن اکتوبر میں ہوں یا نومبر میں ، سر پر ہیں۔ گوعمران خان کو اپنی موجودگی میں فوری انتخابات کی شدید طلب ہے۔ پچھلے ایک سال سے ہر جائز وناجائز حربہ استعمال کر چکے، ناکامی نصیب بنی۔بالآخر ساری اُمیدیں سپریم کورٹ سے بندھ چکی ہیں۔ کچھ ججز کے بچوں اور فیملیز کا عمران خان کیلئے دلجمعی سے رات دن ایک کرنا ہر گزغیر قانونی یا غیر اخلاقی نہیں۔ البتہ ایسوں کا عدالتی نظام اور متنازعہ مقدمہ پر اثر و رسوخ استعمال کرنا تشویشناک ہے۔چیف جسٹس صاحب کے معاملات میں ہر خاص و عام میں چہ میگوئیاں کہ توسیع ملازمت کا امکان یا بعد از ملازمت منفعت بخش عہدے کا حصول ، تاثرراسخ کہ متنازعہ سوموٹو کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اُنکےلئے ضروری ہے۔

رول آف لا اور قانون کی کسوٹی پر پورے اُترنے والے عمران خان کیخلاف بے شُمار مقدمات اور نوعیت بھی سنگین ہے ۔موصوف سے آئین کی خلاف ورزیاں ہوئیں، اخلاقی حدود کی پامالی رہی، توہین عدالت ہوئی، ہر مد میں ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ غیر ملکی سنجیدہ میڈیا خصوصاً فنانشل ٹائمز کی 23 جولائی 2022 میں سمن کلارک کا عمران خان کی کرپشن پر طویل مضمون چھپا۔خیراتی چندے سے سیاست پروان چڑھانے کا سنگین الزام لگا۔جگ ہنسائی ہوئی۔ عمران خان پر ایمان لانے والے فنانشل ٹائمز الزامات سے بے پروا رہے۔

عدالتوں میں عمران خان کی مقبولیت کا تذکرہ رہنا، عمران خان کیخلاف مقدمات میں عدالتی عدم دلچسپی کا تاثر عام ہونا، ایک ہی طرح کے مقدمات میں عدالتوں کا چہرے دیکھ کر فیصلے صادر فرمانا، عدالتی نظام خصوصاً سپریم کورٹ پر اعتماد متزلزل کر چُکا ہے۔ مزید، موجودہ حکومت کے کاموں میں روز اول سے ہی سپریم کورٹ کا روڑے اٹکانا، جو عمران خان سیاست کو مصرعِ طرح دینے کیلئےکافی تھے۔دوسری طرف عمران خان اپنے مبینہ غیر قانونی غیر اخلاقی معاملات میں وضاحت، تحقیقات ،تفتیش ،توجہ دینا بھی تضحیک سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے RULE OF LAW کو بے تکلفی سے روندا، بلند بانگ دعووں کے بعدKP میں احتسابی نظام کو چلنے نہ دیا، بحیثیت وزیراعظم بھاشن دیا کہ’’سب سے پہلے احتساب میراہوگا ‘‘۔چند ماہ بعد نیب چیئرمین نے پیش رفت کرنا چاہی تو چیئرمین جاوید اقبال کو اُس کے کرتوتوں کا آئینہ دکھادیا ۔ 1ماہ اندر عمران خان ا ور لواحقین کو دودھ کا غسل ملا ،جبکہ مخالفین کو اندھا دھند بغیرتحقیق و تفتیش برسوں جیل میں رکھنا شروع کر دیا ۔

موصوف نے پارٹی فنڈنگ کیس 10سال چلنے نہ دیا، پیش رفت کو روکنے کیلئے ہرجائز ناجائز ہتھکنڈہ استعمال ہوا۔ 2018کے ا لیکشن میں انہی فنڈز کا خونِ ناحق استعمال میں رہا۔ آج بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ نیب عمران خان اور بشریٰ بی بی کی انکوائری نہ کرے ، درخواست خارج کر دی گئی۔

اگرچہ آج تحریک انصاف کی وجہ وجود رول آف لا بتلاتے نہیں ہکلاتے،اپنے لئے رول آف لا کبھی بھی پسند نہیں فرمایا۔ بد قسمتی کہ وطنی تاریخ ِ سیاست عمران خان کی وجہ وجود کو ’’رول آف لا‘‘ کی بجائے ’’مدر اِن لا‘‘ کے تناظر میں یاد رکھے گی۔شاید یہی وجہ کہ عمران خان ساری مقبولیت کے باوجود بند گلی میں، دور دور تک انتخابات سے محروم نظر آتے ہیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ کی آج کی کارروائی’’دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا‘‘، عدالت بظاہر کوئی درمیانی راستہ نکالنے پر آمادہ نظر آ رہی ہے، بہت دیر کی مہرباں آتے آتے واردات ہو چکی ہے۔عمران خان اور عدالتی نظام بہت پہلے سے مملکت کو اندھے کنوئیں میں کامیابی سے دھکیل چکے ہیں، اے وطن تیرے بھاگ۔

تازہ ترین