• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے شمال میں قراقرم سمیت دنیا کے دشوار ترین پہاڑی سلسلوں کو مسخر کرنا بظاہر ایک ناممکن چیلنج دکھائی دیتا ہے تاہم مثالی دوست اور عظیم تجارتی شراکت دار عوامی جمہوریہ چین نے اس نوعیت کے متعدد منصوبے تعمیر کرتے ہوئے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے جن کا عالمی ریکارڈ میں جگہ جگہ ذکر دیکھنے کوملتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کو چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملانے کیلئے گوادر تا کاشغر براستہ کراچی،لاہور اور اسلام آباد 1860 کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ ڈیزائن کیا گیا ہے جس پر 2014میں پاک چین اقتصادی راہداری پروگرام کے افتتاح کے موقع پر تجویز کی حد تک پیشرفت ہوئی تھی، حال ہی میں چینی ماہرین نے اس کے عملی ہونے اور ابتدائی کام کے لئے بجٹ مختص کرنے کی تصدیق کی ہے۔ اس سلسلے میں 58ارب ڈالر کی لاگت سے میگا پراجیکٹ کی فزیبلٹی تیار کی گئی ہے جس کے تحت متذکرہ ریلوے لائن کی تعمیر قدیم شاہراہ ریشم کو بحال کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔ تعمیراتی ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ مغربی ممالک کے روایتی راستوں پر انحصار کم کرنے میں مدد دے گا جو دنیا کے متعدد خطوں کو تجارتی طور پر مربوط کرنے سمیت کثیرالجہتی ثابت ہوگا۔ یہ جدید ترین ریلوے سسٹم عالمی سرمایہ کاروں کیلئے نہایت پرکشش ہے جس میں مسافر ٹرین سسٹم بنائے جانے کی تجویز بھی شامل ہے اس طرح ترکیہ، ایران، پاکستان اور چین مشرقی اور مغربی ممالک کیلئے موثر ترین راہداری بن کر ابھریں گے۔ واضح رہے کہ کراچی تا پشاور ریلوے کا ایم ایل ون منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری معاہدے کا حصہ ہے جبکہ گوادر اور کاشغر پروگرام میں سب سے مشکل مرحلہ مطلوبہ رقوم کا انتظام وانصرام اور دستیابی ہے جس کیلئے دونوں حکومتیں سرمایہ کاروں کو مناسب ترغیب دے سکتی ہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین