• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسوں بہوئوں دامادوں سے ملنے۔ دوپہر کے کھانے پر خیالات کے تبادلے کا دن۔ ان کے تیکھے تیکھے سوالات سننے اور جواب دینے کے لمحات۔ یہ مشترکہ خاندان کی روایت کو مضبوط رکھنے کیلئے بہت ضروری ہے۔ ان دنوں یہ احساس شدید ہورہا ہے کہ کیا ہم محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ ایسے ایسے بیانات سنائی دے رہے ہیں کہ ہمیں اپنے ارد گرد دیکھنا پڑتا ہے کہ کیا ہم واقعی حفاظت میں ہیں۔ ان حالات میں اپنے پیاروں سے ہفتے میں کم از کم ایک بار ملنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ یہ جو موبائل آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ کروڑوں ہم وطنوں کے پاس بھی ہے۔ یہاں جو بھی معلومات پڑھنے دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں۔ وہ اوسان خطا کر دیتی ہیں ۔کسی جنگل میں بھٹکنے کا تاثر دیتی ہیں۔ میری یہ التجا بھی ہوگی کہ ظہر کی نماز کے بعد تو اپنے عزیزوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ حالات حاضرہ پر کھل کر باتیں کریں۔ عصر کی نماز کے بعد اپنے محلے والوں کے ساتھ بیٹھیں۔ بہتر یہی ہے کہ مسجد میں ہی کسی گوشے میں اکٹھے ہوجائیں۔ ایک دوسرے کے ذہنوں میں تڑپتے خدشات کا تبادلہ کریں۔ اس اعتماد کے ساتھ کہ آپ خود اپنے مسائل حل کرنے کے زیادہ اہل ہیں۔ وہ جن پر ہم برسوں سے اعتماد کرتے آرہے ہیں۔ کبھی پاکستان کی سلامتی کے حوالے۔ کبھی لسانی اعتبار۔ کبھی نسلی بنیادوں پر۔ کبھی مسلک کے لحاظ سے۔ ہم اپنے آپ کو۔ اپنی سلامتی اپنی معیشت کو ان کے حوالے کرتے آرہے ہیں۔ وہ نا اہل ثابت ہوئے ہیں۔ انہی کے غلط فیصلوں۔ ذاتی مفادات کے تحفظ نے ہمیں ان ابتلائوں کا شکا رکردیا ہے۔ ہم ہر قسم کے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔

یوں تو ہمیں 70کی دہائی سے ہی انتشار کا سامنا ہے۔ لیکن اپریل 2022سے اپریل 2023تک کا ایک سال تو ہماری تاریخ کا ایک عبرت ناک سال بن گیا ہے۔ ان بارہ مہینوں میں 23کروڑ ہم عینی شاہد بن گئے ہیں۔ سودے بازی کے ۔ ہارس ٹریڈنگ۔ مصلحتوں ۔ وفاداریوں کی تبدیلیوں۔ اس ایک سال میں جھوٹ کھل کر بولا گیا ہے۔ اپنے انفرادی مفادات کی تکمیل کیلئے غلط بیانیاں کی گئی ہیں۔ سرکاری خزانے کا۔ سرکاری اختیارات اورسرکاری مشینری کا ، اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے بے جا استعمال کیا گیا ہے۔ ریاستی تشدد بھی اپنے عروج پر رہا ہے۔

یہ ایک سال نمونہ ہے۔ قومی مزاج کا ۔ اس سال کا اگر تحقیقی مطالعہ کیا جائے گا تو ہماری اشرافیہ۔ ہمارے حکمراں طبقوں کی اہلیت۔ ذہنی ساخت کھل کر اپنی اصل شکل میں ہمارے سامنے آجائیں گے۔ تھنک ٹینکوں۔ یونیورسٹیوں۔ این جی اوز کی طرف سے ۔حقیقی معنوں میں تجزیہ کاری کےلئے یہ ایک سال ہمارے 75سال کے رویوں۔ ذہنی ساخت کا اور آئندہ کا تعین کرنے میں بہت مدد دے سکتا ہے۔ حکمران طبقوں میں ملک چلانے کی اہلیت کتنی ہے۔یہ نا اہلی عدم تربیت کا نتیجہ ہے یا آئین قانون اور خلق خدا کے ساتھ کھلواڑ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ اس کے تانے بانے کیا کسی بین الاقوامی طاقت کے ساتھ جڑ ے ہیں یا ہم صرف اپنی چوری۔ بد عنوانی اور فریب کو چھپانے کیلئے ایسا کرتے ہیں۔

اس ایک سال میں وفاقی حکومت۔ صوبائی نگراں اور منتخب حکومتوں۔ پنجاب۔ سندھ۔ کے پی کے۔ بلوچستان۔ آزاد جموں و کشمیر ۔ گلگت بلتستان ۔ کہیں کسی معاملے میں تدبر کا مظاہرہ کیا گیا۔ منصوبہ بندی میں عمدگی دکھائی دیتی ہے۔ کہیں اولادوں کے مستقبل کا سوچا گیا۔ ہم تو اپنا وقت پورا کرچکے ہیں۔ ہم زیادہ دیر اب مکیں نہیں رہیں گے۔ یہ جو ہمارے مستقبل کے مکیں ہیں۔ یہ بچپنے ۔ لڑکپن۔ نوجوانی۔ یہ پانچ سال سے 25سال تک کی عمر کے پاکستانی۔ ان کے بہتر مستقبل کی بنیاد آج کل ہی رکھی جارہی ہے۔ اب جن کے ہاتھوں میں ان نسلوں کی باگ ڈور ہے۔ صدر عارف علوی(73سالہ) وزیر اعظم شہباز شریف (71سالہ) آصف علی زرداری (67سالہ) میاں نواز شریف (73سالہ) مولانا فضل الرحمن (69سالہ)اسحاق ڈار(72سالہ)خواجہ آصف (73سالہ) اپوزیشن میں عمران خان(70سالہ) شاہ محمود قریشی(66سالہ)اسد عمر(61سالہ) فواد چوہدری(47سالہ) چوہدری پرویز الٰہی (77سالہ)۔ کیا انہیں احساس ہے کہ آئندہ نسلوں کے مستقبل کا تحفظ کن خطوط پر ہونا چاہئے۔ آئندہ دس پندرہ سال میں اس خطّے کے حالات کیا ہوں گے۔ یہاں کی آبادی کتنی بڑھ چکی ہوگی۔ گندم کی ضروریات کیا ہوں گی۔ پینے کا پانی، زرعی ضروریات کا پانی میسر ہوگا کہ نہیں۔ بھارت میں کس قسم کے حکمراں آ رہے ہوں گے۔ چین ایک سڑک ایک پٹی میں اس علاقے میں کیسی معیشت پیدا کرچکا ہوگا۔ امریکہ اپنی کتنی طاقت گنواچکا ہوگا۔ 70سے اوپر کی عمر کے حکمران ۔ جن کو مختلف بیماریاں بھی لاحق ہیں۔ ان کی بقا کے امکانات کیا ہیں۔ اور موروثی طور پر ان کی جگہ لینے والوں کے تدبر، اہلیت کی کیا صورت ہے۔ اب جو دنیا وجود میں آرہی ہے۔ سوشل میڈیا ۔ مصنوعی ذہانت۔ خلا کی تسخیر۔ جدید ٹیکنالوجی جو ہر لمحے آگے بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی آبادی کی جو زرعی ضروریات ہوں گی۔ صحت کے امور ہوں گے۔ ان کیلئے مریم نواز(49سالہ) بلاول زرداری(34سالہ) ایمل ولی خان(36سالہ) حمزہ شہباز(48سالہ) مونس الٰہی(47سالہ) کو آئندہ حکمرانی کیلئےپیش کیا جارہا ہے۔ آصف علی زرداری اپنی زندگی میں بلاول کووزیر اعظم دیکھناچاہتے ہیں۔ کیا وہ آئندہ کے سیاسی۔ اقتصادی۔ علاقائی۔ عالمی حالات کے مطابق اہلیت رکھتے ہیں۔ کیا ان کی ایسی تربیت کی جارہی ہے۔ اسی طرح ایک سال میں ان آئندہ کے ممکنہ حکمرانوں کے رویے کیسے رہے ہیں۔ کیا یہ طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں ۔آئین نَو سے ڈرتے ہیں۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ۔ عدلیہ۔ انتظامیہ۔ الیکشن کمیشن کے اعلیٰ عہدوں پر فائز پاکستانی اور ان کے ماتحتوں کی اس ایک سال میں کارکردگی کیا رہی ہے۔ کیا انہوں نے اپنے حلف کے مطابق اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے اندازِ کار نے حکمرانوں کے ذاتی مفادات کو تحفظ پہنچایا یا قومی مفاد کا خیال کیا۔

یہ ایک سال جہاں گزشتہ چالیس سال کی حکمرانیوں کا نتیجہ ہے۔ وہاں یہ آئندہ بیس پچیس سال کے امکانات کی بنیاد بھی رکھ رہا ہے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی دانش کا بھی مظہر ہے۔ ریاست کے ستونوں کی مضبوطی اور کمزوری بھی ظاہر کررہا ہے۔ اس پر غیر جانبدارانہ تحقیق سے یہ حقائق بھی سامنے آئیں گے کہ ہم بحیثیت ایک ریاست کامیاب رہے یا ناکام۔ کس شعبے میں کتنے کمزور رہے۔ کہاں کہاں زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ آئندہ دس پندرہ برس میں یہ موجودہ حکمران اور آئندہ ممکنہ حکمران اس ریاست کو کہاں لے جائیں گے۔ کیا ہمارے نوجوانوں میں اس ملک میں محفوظ رہنے کا اعتماد پیدا ہوگا یا وہ کسی نہ کسی ملک کے سفارت خانے کے سامنے کڑی دھوپ میں ویزے کیلئے کھڑے ہوں گے۔؟

تازہ ترین