• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آجکل ملک میں عمومی تاثر ہے کہ عمران خان کے خلاف گیارہ جماعتیں اکٹھی ہیں اور پاکستان کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ ان کو مکمل سپورٹ کررہی ہے۔چار سال کی ناکام ترین حکومت کے باوجود عمران خان کے بیانیے میں ایسی ہوا بھری گئی کہ آج وہ اپنی مقبولیت کی بلندی پر ہیں۔ہمارے عوام کی اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی یاداشت بہت کمزور ہے۔مزاحمت اس خطے کی فطرت میں ہی نہیں ہے۔یہ کبھی بھی کمزور کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ سکندر اعظم سے لے کر محمد بن قاسم تک اور پھر مغل حکمرانوں سے لے کر انگریزوں تک۔اس دھرتی کے لوگوں نے ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کیا ہے۔پنجاب کے 20حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن کا نتیجہ کیا سامنے آیا۔پنجاب کے عوام کی اکثریت بزدار بدانتظامی اور فرح گوگی کرپشن بھول کر تحریک انصاف کے پیچھے چل پڑی۔عمران دور میں پاکستان کو خارجی و معاشی محاذوں پر جن ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا،عوام ایک امریکی مداخلت کے بیانیے کے چکر میں سب کچھ بھول گئے۔ ادویات کرپشن اسکینڈل،ڈیڑھ سال تک چینی کی ایکسپورٹ کھلی رکھ کر اربوں روپے کی کرپشن ہو یا پھر لندن سے آنے والے تقریباً چالیس ارب کی پرائیویٹ اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ۔ایف بی آر میں انڈر انوائسنگ کرکے سرکار کو 300ارب روپے کا ٹیکا لگانا ہو یا پھر راولپنڈی رنگ روڈ میں کئی سو ارب کی دیہاڑیاں۔ایک من گھڑت امریکی بیانیے پر عوام سب کچھ بھول گئے اور پنجاب ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد تو باقاعدہ طور پر عمران کو دوبارہ اقتدار میں خوش آمدیدکہنے کےلئے بھی تیار ہوگئے۔

کسی کسان نے یہ نہیں سوچا کہ ملک کی زراعت کو سب سے بڑا نقصان عمران دور میں پہنچا۔ڈی اے پی کی بوری 14ہزار میں بھی دستیاب نہیں تھی۔پاکستان کی معیشت میں گندم اور کپاس کی پیداوار کا کلیدی کردار ہوتا ہے مگر ان کے دور میں کسانوں کو یوریا کھاد میسر نہیں تھی۔ٹیوب ویل کی اسکیمیں بند کردی گئیں،سبسڈی ختم کردی گئی۔سیمنٹ کی بوری چار سو سے ایک ہزار تک پہنچ گئی،سریا 80ہزار سے پونے دو لاکھ پر پہنچ گیا۔پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے قرضے لئے گئے مگر بدقسمتی سے ایک بھی میگا ترقیاتی منصوبہ شروع نہ کیا گیا۔آئی ایم ایف سے معاہدہ تو کیا گیا مگر ان کے قرض واپسی کی کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی،جونہی پتہ چلا حکومت ختم ہونے والی ہے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں منجمد کردی گئیں۔حالانکہ پاکستان کے خسارے کی بنیادی وجہ ہی امپورٹ اور ایکسپورٹ بل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔نئی آنے والی شہباز حکومت کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں مزید پندرہ ،بیس روپے کم کرے اور فوری الیکشن میں چلی جائے۔مگر ایسی صورت میں شاید مسلم لیگ ن الیکشن تو کلین سوئپ کرجاتی مگر جب دوبارہ اقتدار سنبھالتی تو پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہوتا اور پیڑول ایک ہزار روپے لیٹر بھی دستیاب نہ ہوتا۔جبکہ دوسرا طریقہ تھا کہ عوام پر وقتی بوجھ ڈال کر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھا کر ڈالر اکٹھے کئے جائیں اور ا نہی قیمتوں کے فرق کے ذریعے عمران خان کا لیا گیا قرض اتارا جائے۔شہباز شریف کے علاوہ کوئی بھی دوسرا وزیراعظم ہوتا ،وہ یہ سیاسی قیمت کبھی ادا نہ کرتا مگرانہوںنے اپنی سیاست کے بجائے ملک بچانے کو ترجیح دی۔آج تین ارب ڈالر کو چھونے والے زرمبادلہ کے ذخائر دوبارہ سے دس ارب ڈالر کو کراس کرچکے ہیں۔شہباز شریف نے ایک ایسے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی،جس کو عمران خان کی معاشی ٹیم نے کینسر کی آخری اسٹیج پر پہنچا دیا تھا ۔ کینسر کا علاج کیمو سے ممکن ہوتا ہے۔کیمو کینسر سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔سامنے والا سمجھتا ہے کہ کیمو سے بہتر ہے کہ یہ بندہ کینسر سے مرجائے۔مگر کامیاب کیمو تھراپی ہی انسانی زندگی کی ضمانت بن کر آتی ہے۔آج پاکستان کی عوام نے انتہائی تکلیف دہ کیمو کا مقابلہ کیا ہے۔لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کی معیشت کو یہ کینسر لاحق کیسے ہوا تھا؟ عمران خان کے بدترین چار سال کو بھول کر شہباز حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا ناانصافی ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ عمران خان نے جب حکومت سنبھالنی تو آتے ہی سی پیک میں کرپشن کےالزامات لگا کرچینی حکومت کی ساکھ پر ایسا سوالیہ نشان لگایا کہ چینی حکومت نے اپنے عوام کے سامنے ساکھ بچانے کے لئے سی پیک روک دیا۔حالانکہ سی پیک ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کشمیر ہڑپ ہوگیا اور کشمیر متنازعہ علاقہ سے بھارت کا حصہ ڈکلئیر کرا دیا گیا۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنا شروع ہوئی،انہوں نے ایک بین الاقوامی میڈیا چینل کو انٹرویو دیتے ہوئےکہا کہ ’یونی لیٹرلی‘یعنی انڈیا کا حملہ نہ کرنے کی صورت میں ایٹمی ہتھیار کے حوالے سے بات ہوسکتی ہے۔حقائق یہ ہیں کہ آج جن دو ممالک نے آپکے ساتھ مل کر آپکی معیشت کو کھڑا کرنا ہے ،انہوں نے پاکستان پر واضح کیا ہے کہ عمران پروجیکٹ کی واپسی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔آنے والے چند ماہ میں پاکستان ہمسایہ ممالک چین اور سعودی عرب کے تعاون سے تمام معاشی بحرانوں سے نکل جائے گا۔لیکن ہمسایہ ممالک کم از کم آئندہ پانچ سال کے لئے سیاسی استحکام کی گارنٹی مانگتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین