• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شہباز شریف کے اعلان کہ ’’حکومت نے IMF کی تمام شرائط پوری کردی ہیں اور اب IMF معاہدے پر دستخط کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں‘‘ کے فوراً ً بعد IMF کی منیجنگ ڈائریکٹر نے اس وقت جب حکومت اور IMF اسٹاف لیول معاہدہ سائن کرنے کے قریب تھا، پاکستان کو مزید ایک ارب ڈالر دوست ممالک سے حاصل کرنے،ایکسپورٹ سیکٹر پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے، کم آمدنی والے خاندانوں کو پیٹرول، گیس اور بجلی پر مصنوعی سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کردیا جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کی عہدیدار الزبتھ ہورسٹ نے زور دیا کہ پاکستان کو IMF اصلاحات پروگرام پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کرنا ہوگا جس کے بعد حکومت نے IMF کی کچھ اضافی شرائط ،جس میں گردشی قرضوں کو مستقل طور پر ختم کرنے کیلئے بجلی کے نرخوں پر 3.82روپے فی یونٹ مستقل سرچارج لگانا ،جس کی نیپرا نے منظوری دیدی ہے، مارکیٹ کے حساب سے ایکسچینج ریٹ کا نفاذ جس سے ڈالر 288 روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا تھا۔

اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں مزید اضافہ جس سے ڈسکائونٹ ریٹ 21فیصد اور بینکوں کی شرح سود 23 سے 24 فیصدپر پہنچ گئی، شامل تھیں۔ پاکستان نے کرنٹ اکائونٹ خسارے (CA)، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں اور زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کیلئے دوست ممالک سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر اور چین سے 2 ارب ڈالر کے ڈپازٹس حاصل کئے ہیں لیکن IMF کے نئے تخمینے کے مطابق پاکستان کو ایکسٹرنل فنانسنگ کیلئے 6ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے جس میں سے 5ارب ڈالر حاصل ہوگئے ہیں لیکن IMF معاہدہ کرنے سے پہلے پاکستان کو کسی دوست ملک سے مزید ایک ارب ڈالر حاصل کرنے ہوں گے جو وزیر خزانہ کیلئے موجودہ حالات میں ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔IMF اور پاکستان کے ایکسٹرنل فنانسنگ پر اختلاف کی وجہ ملکی کرنٹ اکائونٹ خسارے کا تخمینہ ہے جو اس سال جولائی سے فروری 2023 تک کم ہوکر 3.8 ارب ڈالر تک آگیا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سال کے آخر تک یہ زیادہ سے زیادہ 4 سے 5ارب ڈالر ہوگا جبکہ IMF کے مطابق حکومت کو ایکسٹرنل فنانسنگ کیلئے 6 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی کیونکہ حال ہی میں حکومت کی جانب سے اشیاء کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی کم کرنے اور بندرگاہ پر ہزاروں رکے ہوئے کنٹینرز کو کلیئر کرنے سے امپورٹس میں اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے اس سال کرنٹ اکائونٹ خسارہ 5 ارب ڈالر متوقع ہے۔

لہٰذا پاکستان کو کم از کم ایک ارب ڈالر کی مزید بیرونی فنانسنگ کا انتظام کرنا ہوگا جس کیلئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (AIIB) کے صدر سے 450ملین ڈالر اور ورلڈ بینک سے 900ملین ڈالر کے قرضوں کی درخواست کی ہے۔موجودہ سیاسی صورتحال میں پی ٹی آئی جس نے 2019ء میں IMF معاہدہ توڑا تھا، اب نئی حکومت بنانے کی امید پر موجودہ بجٹ IMF شرائط پر بنانے کی خواہشمند ہے تاکہ بجٹ میں لگنے والے نئے ٹیکسز اور سبسڈیز کے خاتمے کا عوامی ردعمل ان کی حکومت پر نہ آئے جبکہ IMF بھی قرضہ دینے سے قبل یہ چاہتا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ان کی شرائط پر مکمل عملدرآمد ہو جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ IMF پروگرام بحالی میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے جو ملک کیلئے نقصان دہ ہوگی۔IMF معاہدہ بحالی میں 6مہینے سے زیادہ تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس میں قرضوں کی ادائیگیوں کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر، روپے کی قدر، ایکسپورٹ اور عالمی ریٹنگ ایجنسیوں کی ریٹنگ میں کمی قابل ذکر ہے۔ بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بینکوں کی شرح سود بڑھانے، امپورٹ LCs پر پابندیوں نے خام مال کی سپلائی چین کو متاثر کیا ہے۔ IMF معاہدہ ہونے کے بعد پاکستان کو IMF کے علاوہ دیگر مالیاتی اداروں ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے مختلف پروگرامز کی مد میں فنڈز مل سکیں گے اور دوست ممالک زیادہ اعتماد سے ہمیں فنڈز دے سکیں گے جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر جون 2023 تک 8 سے 10 ارب ڈالر ہوسکتے ہیں جس سے پاکستانی روپیہ مستحکم اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔

IMF کی اضافی شرائط اور پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار پاکستان کو IMF کی 1998 جیسی سخت شرائط کا سامنا ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے اور اسے IMF کے پاس جانا پڑااس وقت بھی IMF نے ہمیں 24 سخت شرائط میں سے کسی شرط میں استثنیٰ نہیں دیاتھا اور آج بھی IMF ہمیں کسی شرط پر استثنیٰ دینے کو تیار نہیں ۔ آنے والے 3 سال میں ہمیں ہر سال تقریباً 25 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس کیلئے ہمیں ملک میں ڈالر آنے کے تینوں ذرائع ایکسپورٹس، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا تاکہ ہمیں دوست ممالک کے سامنے بار بار ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور ہم ایک خود دار قوم بن کر جئیں ۔ میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا مشکور ہوں کہ انہوں نے سعودی عرب، یو اے ای اور چین سے 5ارب ڈالر کی امداد حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا، یہ ملکی مفاد میں ہے کہ IMF معاہدہ جلد از جلد بحال ہو۔

تازہ ترین