• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساری توجہ سیاست کی طرف ہے۔ ہمارے اردگرد جو کچھ غلط ہو رہا ہے اُس پر کسی کی توجہ نہیں۔ یہاں تک کہ ٹی وی چینلز کے ذریعے جوبے ہودگی پھیلائی جا رہی ہے اُس بارے میں کوئی بات کرتا ہے نہ پیمرا یا کوئی دوسرا ادارہ ایکشن لیتا ہے۔ پہلے اگر کچھ مارننگ شوزپر اعتراض ہوتا تھا اور شکایتیں ملتی تھیں تو اب رات کو چلنے والے انٹرٹینمنٹ اور مزاحیہ شوز کے نام پر معاشرے کی اخلاقیات کو تباہ کیا جا رہا ہے۔جب ٹی وی چینلز معاشرے کی اخلاقیات کے متعلق اپنی ذمہ داری کو سمجھے بغیر ریٹنگز کی ریس میں سب جائز ناجائز دکھاتے رہیں، جب پیمرا پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق قابل اعتراض مواد دکھانے پر کوئی ایکشن لینے کی بجائے اپنی آنکھیں بند کر لے ، جب سیاسی جماعتیں ، پارلیمنٹ اور حکومت بھی میڈیا کے اس کردار پر بات کرنے سے ڈرنے لگیں، جب عدالتیں بھی اسلامی اصولوں کی بجائے مغربی اسٹینڈرز کے مطابق غیر اخلاقی اورفحش مواد کی تعریف تلاش کرنے میں لگ جائیں تو پھر جس نوعیت کی نشریات پر میں اعتراض اُٹھا رہا ہوں وہ معمول بن جائیں گی اور یہی کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ یقین جانیں انٹرٹینمنٹ کے نام پراکثر نیوز چینلز پر چلنے والے رات کے شوز میں ایسی بے ہودگی دکھائی اور سنائی جاتی ہے کہ ایک فیملی کے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر یہ شوز نہیں دیکھ سکتے۔ چوں کہ ان معاملات پر میڈیا کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے اور حکومت و ریاست نے عوام کی اخلاقیات کو تباہی سے بچانے اور معاشرےمیں بچی کھچی شرم و حیا کے تحفظ کےلئے اپنے کردار کو بھلا دیا ہےچنانچہ گھر بیٹھے لوگوں کے پاس دو ہی آپشن بچتے ہیں یا تو ٹی وی بند کر دیں یا جوکچھ دکھایا جا رہا ہے وہ دیکھتے رہیں۔ یہ بے ہودگی دکھانے اور دیکھنے کا سلسلہ جاری رہنے سے آہستہ آہستہ سب دیکھنے والوں کو جو کچھ بھی دکھایا جا رہا ہے، نارمل لگنے لگے گا، اعتراض کرنے والے کم ہوتے جائیں گے، فحش اشتہارات ہوں، ڈانس، فلمیں یا ڈرامے، سب معمول کا حصہ بن جائیں گے اور افسوس کہ یہی کچھ بڑی تیزی سے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی سازش ہے، پلاننگ یا کچھ اور؟ اس بارے میںلوگوں کی مختلف رائے ہو سکتی ہے لیکن اس سب کا نتیجہ واضح ہے اور وہ ہے شرم و حیا کا خاتمہ، مغربی ثقافت کا تسلط، فحاشی و عریانیت کا فروغ۔ یعنی پاکستانی معاشرےکی مکمل تباہی۔ یعنی ہمارا معاشرتی ڈیفالٹ۔ کردار سازی اور تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی ہماری اخلاقیات اور کردار کا بُرا حال ہے۔ ایک ہی چیز ہم میں جو بچی کچی تھی وہ تھی شرم و حیا ، جس کو ہمارا میڈیا تباہ و برباد کر رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اپنے معاشرےکی اسلامی اصولوں کے مطابق تعمیر نو کریں جس کی ذمہ داری آئین پاکستان ہم سب پر اور خصوصاً حکومت و ریاست اور تمام اداروں پر عائد کرتا ہے ۔ تاہم آئین کے اس حصہ کی کھلم کھلا اور ہرروز خلاف ورزی ہوتی ہے، آئین کی اسلامی شقوں پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا ،جو آئین کے ساتھ سب سے بڑی غداری ہے۔ ڈپٹی ا سپیکرقومی اسمبلی اگر تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو رد کر دے یا حکومت نوے دن میں الیکشن نہ کرائے تو شور مچ جاتا ہے کہ آئین ٹوٹ گیا، آئین سے غداری ہو گئی لیکن جب اسی آئین کی اسلامی شقوں پر عمل نہیں ہوتا اور معاشرہ سب کی آنکھوں کے سامنے اخلاقی طور پر تبا و برباد ہو رہا ہے تو کوئی کچھ نہیں بولتا۔ یہ اپنے اپنے آئین کا کھیل بڑا خطرناک ہے۔ آئین کی اگر ایک شق کی violationپر پاکستان کی سیاست، صحافت اور عدالت گزشتہ کئی ہفتوں سے بحث و مباحثہ اور ٹکراو کا شکار ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسی آئین کی اسلامی شقوں کی ہرروز کی violations سے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آئین پاکستان اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو اسلامی ماحول کی فراہمی کا وعدہ کرتا ہے۔ یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ اس آئینی خلاف ورزی پر، اس غداری پر کیا کبھی ہمارا میڈیا، سیاست، عدالت بولیں گے؟

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین