• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھلا ہو پانامہ لیکس کا کہ اقتدار کے ٹھنڈے ٹھار بنکر نما محفوظ پناہ گاہ میں محوِ لطف و کرم ، وزیرِ اعظم نواز شریف کو باہر نکلنے پر اور عوام کو زیارت کی سعادت سے سرفراز فرمانے لگے ورنہ عام حالات میں دوسرے درجے کے وزرائے مملکت اور تیسرے درجے کے بعض مشیرانِ کرام وزیر اعظم کے دیدار کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں آخر کار پانامہ لیکس کے ابرِ باراں سے بدنامی اور رسوائی کی اس قدر بارش برسی کہ ہر سمت سے آنے والے پتھروںسے اس پُرسکون تالاب میں اس قدر تلاطم خیزی آ گئی کہ وزیر اعظم کو عوامی حمایت کیلئے سیاسی جلسوں جیسے کڑوے زہر کے گھونٹ پینے پڑے ۔ پانامہ لیکس کے پتھراؤ سے بچنے کیلئے پہلا جلسہ کوہ مری کی ملحقہ تحصیل کوٹلی ستیاں میں کرنا پڑاکہ بارشوں کی وجہ سے پہاڑی علاقے میں’’ زمینی سرکاؤ ‘‘ کے متاثرین جو کہ فلاحی تنظیموں کی طرف سے مہیا کئے گئے خیموںمیں موت سے بھی بد تر زندگی کے بقیہ ایام پورے کرنے پر مجبور تھے ان کی مالی معاونت کیلئے حکومتی امداد دینے کیلئے سیاسی ریاکاری اور حکومتی اداکاری کے جوہر اب تک دیکھے جا سکتے ہیں کہ پٹواریوں اور سیاسی کالی بھیڑوں کے گٹھ جوڑ جیسے گاڑھے رشتے کی بدولت حقیقی حقدار اب تک خیمہ زن ہیں اور اقربا پروری کا شاندار نمونہ اس سے بہتر اور کیا ہو گا کہ جس کوٹھڑی میں ایک کنال زمین کی مالیت سے مہنگا کتا باندھا جاتا تھا وہ کوٹھڑی گری تو پٹواری بادشاہ نے پانچ لاکھ کا چیک بنا دیامگر ایک درجن سے زائد خاندان گھنے جنگلوں میں جنگلی حیات کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں کہ ان تک چاند کی روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی۔ مگر میٹرو زدہ زمانے میں کہ جس کی روشنیوں سے چیونٹیوں کے پاؤں تک گنے جا سکتے ہیں وہ لوگ لالٹین جلا کر شب بسری کرتے ہیں ۔
سنا ہے محوِ خمار’’ گڈ گورننس ‘‘بیدار ہوئی ہے اور چیکو ں کی بندر بانٹ پر اس اندھے کی تلاش جاری ہے جو بار بار اپنوں میں ریوڑیاں بانٹتا رہا ہے مگر اس اندھیر نگری میں وہ کالے رنگ کا نابینا کسی وزارت کے پلنگ کے نیچے چھپا ہوا ہے اور لوڈشیڈنگ کے اندھیرے میں اسے تلاش کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ دوسرے جلسے میں ایبٹ آباد والوں کی قسمت جاگی اور تیسرا جلسہ سکھر کی قسمت کی بیداری کی وجہ بنا ۔ وزیرِ اعظم نے سکھر تا ملتان موٹر وے کے سنگِ بنیادکیلئے کیا اس جلسے کی ایک خبر جو کہ روز نامہ جنگ میں شائع ہوئی ملاحظہ فرمائیے۔
وزیرِ اعظم کی سکھر آمد پر دو گھنٹے کی مہمان نوازی تقریباً دو کروڑ روپے کا جھٹکا دے گئی جس کے بعد وزیرِاعظم سکھر تا ملتان موٹروے کا افتتاح کر کے واپس روانہ ہو گئے، انتظامیہ نے ایسی آؤ بھگت کی کہ بڑے بڑے شہروں کی مہمان نوازی کو پیچھے چھوڑ دیا یہ انتظامات شاہی تو نہیں تھے لیکن شاہی سے کچھ کم بھی نہیں تھے۔ سکھر میں 41 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں وزیرِ اعظم کے لئے ٹھنڈا ٹھار خیمہ تیار کرنے کا ٹھیکہ کراچی میں دیا گیا ڈھائی سے تین سو مزدوروں کی ٹیمیں تین دن اور تین راتیں مسلسل کام کرتی رہیں ۔ 10 دن ہیوی ائیر کنڈیشنڈ پلانٹ نصب کئے گئے اور دس جنریٹرپہنچا ئے گئے گرمی سے بچنے کیلئے تقریباً پچاس لاکھ روپے خرچ ہوئے دو ہزار افراد کیلئے شاندار پنڈال کی لاگت تقریباً 75 لاکھ روپے آئی۔ سیپکو نے 200 والٹ کا ٹرانسفارمر بھی ویران میدان میں نصب کیا اور پاور سپلائی کیلئے چار پول بھی لگادیئے بجلی کی مد میں تقریباً 15 لاکھ روپے آیا بڑی بڑی اسکرینز، اسٹیج پر ٹھنڈی ہوا کیلئے 20 سے زائد پاور اسپلٹس برقی قمقمے اور دیگر اخراجات کی مد میں تقریباً 20 لاکھ روپے خرچ کئے گئے ، میاں نواز شریف نے میزبانوں کو دو گھنٹے کی مہمان نوازی تقریباً دو کروڑ روپے کا جھٹکا دے گئی جس کے بعد وزیرِ اعظم سکھر تا ملتان موٹروے کا افتتاح کر کے واپس روانہ ہو گئے۔
یہ خبر پڑھ کر برِ صغیر پاک و ہند کے دور کے ایک مغل حکمران کی باد شاہت یاد آ گئی اس وقت کشمیر میں والی ریاست جس کی رسم تاج پوشی بھی دہلی میں کی گئی کہ باد شاہ سلامت کے پاس اتنی فرصت نہیں تھی اس لئے والی ِ ریاست کو پایہ تخت دہلی میں بلوا کر رسم تاج پوشی ادا کی گئی والیِ ریاستِ کشمیر اپنی طرز حکومت یا گڈ گورنلئےنس بہتر کرنے اور نئے انتظام و انصرام دکھانے کیلئے بادشاہ کے پاس پہنچا تو کئی روز انتظار کرنے کے بعد گورنر کشمیر کو اذنِ باریابی نصیب ہوااور مغل بادشاہ کے حضور اپنی خواہش کا اظہار کیا تو باد شاہ نے اپنی بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے کشمیر کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ گورنرِ کشمیر بے نیل و مرام واپس لوٹا اور کچھ مزید انتظامات کئے اور دوبارہ سلطان ِدہلی کےحضور حاضر ہو کر دعوت دی بادشاہ نے پوچھا کہ آپ میرے دورے پر اور اسی ماہ کیوں بضد ہیں گورنر نے کورنس بجا لاتے ہوئے التجا کی کہ اسی ماہ بہار کا موسم آنے والا ہے جس میں پوری ریاست میں پھول کھلے ہوئے ہونگے اور ہر طرف خوشبو اور رنگ آپ کے استقبال کے لئے بے قرار ہونگے بادشاہ نے پوری رعونت اور جاہ وجلال سے لبریز لہجے میں کہا کہ میں دو ماہ بعد آؤنگا گورنر نے دوبارہ التجا کی کہ حضوربہار کا موسم گزر جائے گا اور پھول مرجھا جائیں گے ۔ بادشاہ نے کہا ’’ بہار سے کہو کہ ہمارا انتظار کرے اور جب تک ہم کشمیر کی راجدھانی کا دورہ نہیں کرتے وہ بھی موقوف ہو جائے ‘‘
گورنر کی خوشی کی انتہا نہ رہی مگر دہلی سے لے کر سری نگر تک یہ غم دامن گیر رہا کہ بہار کو کیسے روکا جائے کوئی وقت کو تھام سکا ہے ۔ ایک وزیرِ باتدبیر نے چٹکیوں میں اس مسئلے کا حل پیش کر دیااور یوں اگلے روز پورے علاقے میں منادی کر وا دی گئی کہ بادشاہ سلامت آ رہے ہیں اور ان کے استقبالی انتظامات کیلئے ساری رعایا گورنر کے محل کے باہر جمع ہو جائے حکم کے مطابق تمام رعایا اور سرکاری مشینری جمع ہو گئی اور انہیں حکم دیا گیا چونکہ یہ مارچ کا مہینہ ہے اور اپریل میں بہار آتی ہے مگر بادشاہ نے مئی میں قدم رنجا فرمانے ہیں اسلئے وادی کے بالائی پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑی ہوئی برف اٹھا کر لانی ہے اور یہاں پر برف کی تہہ ساری جگہوں پر جمانی ہے اور ایسا ہی کیا گیا کہ ساری خلقت اس کام پر لگا دی گئی اور وہ سارے سری نگر میں برف کا پہاڑ بنانے میں جتے رہے اور روزانہ برف کو بیلچوں اور برتنوں سے’’ڈھانپتے‘‘ رہے تاکہ برف بدلتے ہوئے موسم کی حدت سے پگھل نہ پائے ۔ بادشاہ کی آمد سے چند روز قبل تک برف پگھل گئی اور نئے برگ و بار ، پھول اور پتیاں کھلنے لگیں ہریالی اور سبزے نے سبز مخمل نما قالین بچھا دیا ۔ بادشاہ سلامت نے بہار کو جبری روکنے کا یہ منظر دیکھ کر والیِ کشمیر کو نہ صرف شاباش دی بلکہ اس کی گورنری کی مدت میں اس کی مرضی کے مطابق توسیع بھی کر دی ۔تاریخ کا ورق اس کہانی کے ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ جب انگریز وں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو دہلی کے پایہ تخت پربیٹھے ہوئے شہزادے کو جب گرفتار کیا گیاتو انہیں تعجب بھی ہوا اور یہ تجسس بھر ا سوال شہزادے سے کیا اس محل کے تمام محافظ ، معاونین وزیر مشیر اور ملازمین بھاگ گئے ان کے ساتھ آپ بھی بھاگ کر جان بچا سکتے تھے تو شہزادے نے جواب دیا کہ میں اسلئے نہیں بھا گ سکا کہ کوئی مجھے جوتے پہنانے والا نہیں تھا۔ اور پھر انگریزوں نے اسے جوتے پہنانے کی بجائے ہتھکڑیاں پہنا دیں۔وقت اور حالات بدل چکے ہیں اب نہ تو بادشاہت کا زمانہ ہے اور نہ ہی مغل شہزادوں جیسی طرزِ حکومت چل سکتی ہے ۔ اگر پانامہ لیکس کی دلدل میں دھنسے ہوئے حکمران بحفاظت نکل بھی آئیں تو تاریخ کا تازیانہ سہنے کی سکت کسی میں بھی نہیں ہے۔اور تاریخ تاریخ ہوتی ہے وہ جبری طور پر یا مصنوعی طریقے سے روکی جانے والی بہار نہیں ہوتی ۔
تازہ ترین