(گزشتہ سے پیوستہ)
یہ اور افسوسناک بات ہے کہ فوری طور پر انتخابات کراکے اور قومی اسمبلی سے ملک کا آئین نہ بناکر ہمارے اس وقت کے حکمرانوں نے قرارداد پاکستان کی توہین کی مگر یہ بھی کم افسوسناک بات نہیں کہ 1947ء میں برطانوی حکومت نے ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کا ایکٹ جاری کیا تو ہندوستان کے آزاد ہوتے ہی ہندوستان کے حکمرانوں نے فوری طور پر سارے ملک میں انتخابات کرائے‘ بعد میں انتخابات کے نتیجے میں ملک کی پہلی قومی اسمبلی وجود میں آتے ہی اس اسمبلی سے ہندوستان کا آئین منظور کیا گیا مگر پاکستان میں کیا ہوا؟ ۔
افسوس تو یہ ہے کہ پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں نے نہ تو قرارداد پاکستان کا نوٹس لیا اور نہ برطانوی حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے اس ایکٹ پر عملدرآمد کیا جس کے نتیجے میں پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت میں وجود میں آیا تھا۔ قائد اعظم تو پاکستان کے آزاد ہوتے ہی شدید بیمار ہوگئے اور مختصر مدت میں انتقال کرگئے‘ اسی طرح پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی راولپنڈی کے جلسے میں خطاب کے دوران گولی مارکر شہید کردیا گیا ۔ بعد میں پاکستان کے حکمرانوں نے انتخابات کراکے قومی اسمبلی سے آئین منظور کرانے کے بجائے غیر قانونی طور پر ملک پر قبضہ کرکے پاکستان کو ایک ’’کالونی‘‘ کے طور پر چلانا شروع کردیا ‘ پہلے تو سویلین ڈکٹیٹر ملک پر قابض ہوگئے مگر بعد میں ملک مارشل لا کے تحت چلایا گیا۔ اس عرصے کے دوران پاکستان اور خاص طور پر چھوٹے صوبوں اور اس وقت ملک کے سب سے بڑے صوبے مشرقی پاکستان سے کیا برا سلوک نہیں کیا گیا‘ قائد اعظم اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کے اس طرح رخصت ہونے کے بعد پاکستان کا پہلا گورنر جنرل پنجاب سے تعلق رکھنے والا ملک غلام محمد بنا‘ آئین تو تھا ہی نہیں تو کس قانون کے تحت یہ سب کچھ ہوا‘ لیاقت علی خان کےبعد مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر سیاستدان خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنائے گئے مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ایک حکم نامہ جاری کرکے ان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا اور اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر جن کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا‘ کو ملک کا نیا وزیر اعظم بنایا‘ درحقیقت یہ فیصلہ مشرقی پاکستان کے عوام اور سیاسی سوچ کو پہلا دھچکا تھا‘ تھوڑے ہی عرصے میں اس دور کے حکمرانوں نے ایک اور انتہائی منفی اور افسوسناک فیصلہ کیا جس کے تحت پاکستان کے چاروں صوبوں کی صوبائی حیثیت ختم کرکے اس علاقے کو ’’مغربی پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا‘ اس فیصلے کا دوسرا اہم حصہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی کو کم کرکے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کوبرابر کا حصہ دار بنایا گیا۔ اس فیصلے کے بعد مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی حیثیت کم و بیش ایک خاص علاقے کی ’’کالونیوں‘‘ جیسی ہوگئی۔ اس فیصلے سے خاص طور پر سندھ میں کافی غم و غصہ پیدا ہوا اور سندھ میں ون یونٹ کے خلاف تحریک شروع ہو گئی‘جبکہ سرحد اور بلوچستان میں بھی ون یونٹ کے خلاف شدید ردعمل ہوا‘ اس کے بعد پاکستان کا کاروبار زیادہ تر بغیر آئین کے چلایا جاتا رہا یا بعد میں مارشل لائوں کا دور شروع ہوگیا‘ مارشل لائوں کا دور شروع ہونے سے پہلے ایک آمر حکمران نے آئین تیار کرایا مگر اس آئین کے خلاف بھی اتنی نفرت پھیلی کہ ممتاز شاعر حبیب جالب نے اپنے اشعار سےاس آئین کا مذاق اڑایا۔ اس سلسلے میں ان کا ایک شعر تھا کہ ’’ایسے دستور کو صبح بے نور کو ،میں نہیں جانتا‘ میں نہیں مانتا‘‘۔ حبیب جالب کے یہ اشعار اتنےمقبول ہوئےکہ اس کا مسودہ تیار کرنے والے قانون دان نے اس آئین کو Disown کردیا۔
بہرحال پاکستان کا پہلا آئین ملک میں ’’ون مین‘ ون ووٹ‘‘ کی بنیاد پر منتخب ہونے والی قومی اسمبلی سے 1973ء میں منظور کیا گیا‘ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آئین میں صوبوں کو کسی حدتک خود مختاری دی گئی تھی مگر اس آئین میں بھی Sovereignity کا سایہ نظر نہیں آیا مگر پاکستان کے ’’اصل‘‘ حکمرانوں کو 1973 ء کا آئین قبول ہوا اور نہ اس آئین کے تحت ملک میں جاری کی گئی جمہوریت منظور تھی لہٰذا تھوڑے ہی عرصے کے دوران ایک بار پھر ملک میں مارشل لا لگادیا گیا اور ملک ایک بار پھر بے آئین ہوگیا مگر کچھ عرصے کے بعد جب انتخابات کے ذریعے پھر ایک منتخب حکومت وجود میں آئی تو نہ فقط 1973 ء کا آئین بحال کیا گیا بلکہ اس میں 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے کئی اہم ترامیم کی گئیں۔ (جاری ہے)