سیاست بڑی بے رحم چیز ہے۔ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ہمارے سیاست دانوں کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر گدھے کو دو دھاری رنگ کرکے اسےزیبرا بنا کر پیش کرتے ہیںاور جب بارش پڑنے پر رنگ اترتا ہے تو دولتی کھاتے ہیں۔ پھر جو ٹیسیں اٹھتی ہیں تو چاؤں چاؤں کرتے عوام کو نت نئی کہانیاں سنا کر رام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم تو بڑے معصوم تھے ہماری پیٹھ میں فلاں نے چھرا گھونپا، کہتے ہیں جو تھپڑ جنگ کے بعد یاد آئے اسے اپنے ہی گال پر مارو تو ممکن ہے عقل ٹھکانے آجائے۔ پوچھنا یہ تھا کہ جب اقتدار میں تھے تو کیا عقل کام نہیں کررہی تھی کہ اب ہمیں نئے بیانئے کے طورپر بتایا جارہا ہے کہ مجھے اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ جنرل باجوہ نے دیا تھا۔ اصل کہانی کچھ اور تھی۔ خان صاحب خود ہی ایک ایسی سازش کا نقاب اُلٹ رہے ہیں جو ان کے اور جنرل باجوہ کے درمیان طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق تیار کی گئی تھی۔ اس کے سہولت کار صدر عارف علوی تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سازش کی تپش جب لندن میں بڑے میاں صاحب تک پہنچی تو تمام منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اس بات کو تو خان صاحب کے چاہنے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جب انہیں آئینی طریقے سے اقتدار سے نکالا گیا تو یہ اقتدار ان کے گلے میں پڑا ہوا تھا۔ انہیں لانے اور نکالنے والے سبھی ساڑھے تین سالہ حماقتوں پر پریشان تھے۔ بظاہر نظر یہی آرہا تھا کہ خان کی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ”کٹی“ ہوگئی۔ اب بات دوبارہ نہیں بنے گی لیکن آپ ہی گواہ ہیں کہ خان صاحب نے اسے پہلے امریکی سازش قرار دیا۔پھر خان نے کس انداز میں امریکی سازش سے توپوں کا رُخ جنرل باجوہ کی طرف موڑ دیا اور امریکہ کومکمل طور پر بری الذمہ قرار دے دیا۔ یہ وہی جنرل باجوہ ہیں کہ جن سے لڑائی کے باوجود خان صاحب نے صدر عارف علوی کی سہولت کاری کے نتیجے میں اسلام آباد کے ”سیف ہاؤسز“ میں غالباً تین سے زائد خفیہ ملاقاتیں کیں۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگاکہ خان صاحب ”سیف ہاؤسز“ سے باہر نکلتے ہی یہ تجویز پیش کرتے کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کرکے عام انتخابات ان کی نگرانی میں کروائے جائیں تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔سازش کی یہ کہانی یہاں سے ہی نیا موڑ لیتی ہے کہ دونوں کے درمیان گٹھ جوڑ یہی تھا کہ چھ ماہ کی توسیع کے بعد عام انتخابات کے نتائج خان صاحب کے حق میں ہوں گے اوربرسراقتدار آنے کے بعد وہی پرانی ٹیم نئی تنخواہ ،مراعات اور مزید طاقت کے ساتھ پوری پی ڈی ایم کو اگلے پانچ سے دس سال رگڑا لگائے گی۔لندن پلان یہی تھا کہ جنرل باجوہ کو مزیدتوسیع نہیں دی جائے گی ،پاک فوج کی قیادت سنیارٹی کی بنیاد پر جنرل سید عاصم منیر کے سپرد ہوگی۔ احسان فراموشی اسی کو کہتے ہیں کہ جب سازش کامیاب نہ ہوئی تو خان صاحب نے جنرل باجوہ کو اپنے ”نشانے“ پرلے لیا۔ اب فرماتے ہیں کہ اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ جنرل باجوہ نے دیا تھاجبکہ خان صاحب اس بات کے دعوے دار ہیں کہ ہند ، سندھ ، پورب پچھم کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ جب انہیں یہ مشورہ دیا جارہا تھا کہ اسمبلیاں توڑ دو تو دوسری طرف جنرل باجوہ اورچودھری پرویز الٰہی انہیں سمجھا رہے تھے کہ خان صاحب جان دیو.... اسمبلیاں نہ توڑو۔ تو انہیں سمجھ کیوں نہ آئی کہ اس فیصلے کے ان کی سیاست پر کتنے بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سو وہ اس فیصلے کے نتائج آج بھگت رہے ہیں۔کچھ ایسا ہی معاملہ قومی اسمبلی سے استعفوں کے مسئلے پر بھی نظر آتا ہے کہ میدان خالی چھوڑ کر بنی گالہ جا بیٹھے ، حکومت اور اس کے اتحادیوں کو من مرضی کی قانون سازی کا موقع دیا، جذباتی، بد مزاج کبھی سیاست دان نہیں ہوسکتا جوسیاست دان اپنے مد مقابل کا فیس ٹو فیس سامنا کرنے سے گھبرائے، براہ راست مذاکرات سے خوف زدہ ہوکہ کہیں اسے لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ ایسا اینگری مین اچھاولن تو بن سکتا ہے ہیرو ۔تاہم خان صاحب کو کون سمجھائے کہ جو اپنی ناک سے آگے کچھ دیکھنے کو تیار نہیں۔ حیرت اس وقت بھی ہوئی جب انہوں نے حال ہی میں تحریک انصاف کے زیر اثرآئے ایک اینکر پرسن کے عید شو میں اس سوال کہ خان صاحب حالیہ سیاسی پس منظر میں آپ کا آپ کے علاوہ پسندیدہ سیاست دان کون ہے ؟ تو بڑی سوچ بچار کے بعد جواب دیا سب چور ڈاکو ہیں۔ پھر پوچھا گیا کہ کوئی ایک تو ہوگا جسے آپ پسند کرتے ہوں تو پہلے نمبر پر پیپلز پارٹی سے نکالے گئے اعتزاز احسن، دوسرے پسندیدہ سردار لطیف کھوسہ نکلے اور ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دے دیا کہ عنقریب یہ دونوں میرے ساتھ ہوںگے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔خان صاحب آئے دن نیا کٹا کھولنے کے ماہر ہیں۔ اب کہتے ہیں کہ مذاکرات کا اختیار اسد قیصر کو نہیں شاہ محمود قریشی کو دیا ہے۔ آگے آپ خود سمجھ دار ہیں ابھی پنجاب اسمبلی کی ٹکٹوں کی تقسیم پر کئی ”کٹے“ کلّہ توڑ کر بھاگیں گے۔ اب خیبرپختونخوا کا ”کٹا“ بھی کھول دیا ہے ۔ کل کہیں گے یہ سازش بھی جنرل باجوہ نے تیار کی تھی۔ آپ سارا وزن جنرل باجوہ پرہی ڈالےجارہے ہیں۔ حکیم لقمان کا مشورہ ہے کہ کچھ بوجھ اپنے سر پر اٹھانے کی عادت بھی تو ڈالیں، ممکن ہے کوئی حل نکل آئے۔