• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے کالم کےتوسط سے میں بحیثیت معیشتدان ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلوانا چاہتی ہوں۔ بیلنس آف پیمنٹ یعنی ادائیگیوں کا توازن سے سب ہی لوگ واقف ہوں گے۔ اس کے تین حصے ہوتے ہیں ، کرنٹ اکاونٹ، کیپیٹل اکاؤنٹ اور آفیشل سیٹلمنٹ بیلنس۔ کرنٹ اکاؤنٹ دو حصوں پہ مشتمل ہوتا ہے ایک ٹریڈ بیلنس یعنی تجارتی توازن اور دوسرا یک طرفہ منتقلی۔ یک طرفہ منتقلی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والا زرمبادلہ ،تحائف، امداد شامل ہوتے ہیں، جب کہ تجارتی توازن تین حصوں پہ مشتمل ہوتی ہے ایک ہوتی ہے eل اجناس کی درآمدات اور برامدات، دوسرا ہے خدمات کی برآمدات اور درآمدات، تیسرا ہے عاملین پیدائش کی آمدنی کا توازن مطلب کتنے پاکستانی عاملین باہر کے ملک میں کما رہے ہیں اور کتنے بیرونی ممالک کے عاملین پیدائش پاکستان میں کما رہے ہیں اس کا توازن۔ 

لگ رہا ہوگا کہ کوئی بہت لمبی تمہید باندھ کر لیکچر دیا جارہا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ مسئلہ کی طرف نشان دہی سے پہلے ایک عام شہری کو سمجھانا ضروری تھا۔ اب آپ تجارتی توازن کو لیجئے جس کے بارے میں ہر وقت رائے دی جاتی ہے کہ ہمیں تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ ہماری درآمدات ہماری برآمدات سے بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہمیں ادائیگیاں زیادہ کرنی ہے اور ہماری وصولی کم ہیں۔ یوں ہمیں درآمدات کے بل کی ادائیگی کے لئے مشکلات پیش آتی ہیں۔ ہر تھوڑے دن کے بعد خبر گرم ہوتی ہے کہ ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم ہو چکے ہیں جو کہ ہماری تین مہینوں کی درآمدات کی ادائیگیوں کے لئے بھی کم پڑیں گی۔ دوسری طرف ہمارے اوپر قرضوں کی ادائیگی کا بھی دباؤ ہے۔ زرمبادلہ کم ہونے کی وجہ سے ہم ڈیفالٹ ہوجائیں گے۔ ملک انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہے۔ یہ وہ دعوئ یا خبریں ہیں جو ہر چند سالوں کے بعد ہمیں سنے یا پڑھنے کو ملتی ہے۔ ڈالر بالکل ناپید ہوجاتا ہے، اور باوجود تلاش کے بھی نہیں ملتا اور ہم کاسہء  گدائی لئے دنیا بھر سے بھیگ مانگتے ہیں اور تھک ہار کر آئی ایم ایف کے قدموں میں ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ 

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف جیسے کہ اوپر تفصیل دی گئی ہے کہ تجارتی توازن تین توازن /  بیلنس پر مشتمل ہوتا ہے، پاکستان میں اجناس سے زیادہ درآمدات خدمات یعنی سروسز کی کی جاتی ہیں۔ جن کے بل اجناس کی درآمدات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح پاکستان سے کما کر پاکستان سے باہر پیسہ بھیجنا بھی بہت عام ہے اور بڑے پیمانے پر زرمبادلہ کا استعمال ہوتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے "سارے بڑے" چاہے سرکاری عہدوں میں بڑے ہوں یا بزنس میں، یا جاگیرداری میں، سرداری میں، سب کی اولادیں اور خاندان ملک سے باہر ہی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے اوپر اٹھنے والے اخراجات پاکستان سے ہی جاتے ہیں۔ جو تجارتی توازن کا تیسرا بڑا حصہ ہے جسے پرائمری انکم کہا جاتا ہے۔ یہ سارے پیسے ڈالر کی شکل میں ملک سے باہر جاتے ہیں۔ لیکن لطف کی بات یہ کہ جب پرائمری انکم اور خدمات کی درآمدات کی ادائیگیاں ڈالرز میں کی جاتی ہیں ( واضح رہے ان کا بل amount گڈز کے امپورٹ بل سے زیادہ ہوتا ہے) تو کبھی بھی اعلان ہوتا کہ زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں،درآمدی  خدمات کا بل دینے کے پیسے ہیں، جاگیردار نہیں کہتے کہ ہمیں باہر اپنے پیسے بھیجنے کے لئے ڈالرز نہیں مل رہے، بڑے عہدوں پر فائز سرکاری اہلکاروں کو یہ کہتے نہیں سنا کہ ہمیں ڈالرز نہیں مل رہے اپنے گھر والوں کے خرچے کے پیسے کیسے بھیجیں۔ بزنس مین اپنے منافع کی آمدنی کو بیرون ملک بھیجتے ہوئے کبھی ڈالرز کی تنگی کا رونا نہیں روتے۔ بالکل اسی طرح خدمات کی درآمدات کرنے والے ڈالرز کی کمی کا اعلان نہیں کرتے، جتنے ڈرامے اور فلمیں بیرون ممالک سے حاصل کئے جارہے ہیں آپ کے سامنے ہیں ( جب کہ اب وہ سب یو ٹیوب اور نیٹ فلیکس  پر ہندی زبان میں موجود ہوتے ہیں) اور ان پر بڑے پیمانے پہ زرمبادلہ خرچ کیا جارہا ہے، حج اور عمرے کی ادائیگیوں اور تفریحی غیر ملکی دورے ( جو ہمارے امراء کے لئے لازمی ہے) کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کبھی آڑے نہ آئی۔ بالکل اسی طرح  CIE امتحانات پر سال دو دفعہ پر اخراجات کا تخمینہ HEC پر اٹھنے والے اخراجات سے بھی زیادہ ہے اور اس کی ادائیگی بھی زرمبادلہ سے ہی کی جاتی ہے کبھی ڈالرز کی کمی کا ذکر نہیں ہوتا۔ اسی طرح انٹر کے بعد ہمارے یہاں بہت سے بچے ACCA کرنا پسند کرتے ہیں جب کہ CA پاکستان سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ACCA کو آسان سمجھنے کی بنیاد پر ہر سال ایک خطیر زرمبادلہ کی رقم برطانیہ بھیجی جاتی ہے۔ یہ تو وہ چند مثالیں ہیں جو کہ آپ کو سمجھانے کے لئے دی گئی ہیں ورنہ ان کی لسٹ اس سے کہیں زیادہ۔ اب آئیں imports of goods کی طرف، جب بھی کوئی ایمپورٹر کوئی چیز بیرون ملک سے خریدنے کا آرڈر دیتا ہے تو اس کو letter of  credit بھیجنا پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جو چیز باہر سے منگوارہا یعنی امپورٹ کر رہا ہے اس کی ادائیگی کے لیے اس کے پاس پیسے موجود ہیں اور وہ چیز جیسے ہی پاکستان پہنچے گی سامان بھیجنے والے برآمدکندگان کے اکاؤنٹ میں وہ پیسے منتقل ہوجائیں گے۔ یعنی درآمدات کرتے وقت ادائیگی کی یقین دہانی یا گارنٹی دی جاتی ہے۔ جب کہ ایسا خدمات کی امپورٹ اور عاملین پیدائش کی آمدنی( گھر کا کرایہ، کاروبار کا منافع، سیلری، سرمایہ پہ منافع) کے ٹرانسفر پر نہیں دی جاتی۔ تو ذرا سوچیں! جن درآمدات کی مانگ بل کی گارنٹی کے ساتھ کی جاتی ہیں ان پر شور مچایا جاتا ہے کہ ڈالرز کی کمی ہے اور جو درآمدات اس سے بڑے پیمانے پہ خدمات کے نام پر کی جاتی ہیں ان کی ادائیگی خاموشی سے کی جاتی ہیں اور کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوتا۔پھر اچانک روپے کی قدر کم ہوجاتی ہے اور ڈالر مہنگا ہوجاتا ہے۔ پھر مہنگائی میں اضافہ ہوتا ۔ تو کیا یہ زرمبادلہ کی کمی کا رونا کسی خاص مقصد کے تحت ہوتا ہے؟ کیا کسی ملک کی کرنسی کو مضبوط رکھنے کا یہ صرف ایک stunt ہے؟ آ خر ہم کب تک بے وقوف بنتے رہیں گے؟

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین