ملکی صورتحال خاصی گمبھیر ہے ۔ پہلے سنتے تھے پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ یہ جملہ پرانا ہو چکا اب تو اس پر حیرانی بھی نہیں ہوتی تاہم یہ بات شک و شبہ سے بالا ہے کہ وطن عزیز اس وقت خراب صورتحال سے دوچار ہے۔ خطرہ سر پر آن پہنچے تو دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں یا تو کبوتر کی طرح آنکھیں موند لیں یا پھر ذی شعور مخلوق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور کوئی تدبیر کریں۔ مگر یہاں تو ہم ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانے میں مصروف ہیں ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی کھیل جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے اور سب ایک دوسرے کا سر قلم کرنے کے در پے ہیں۔ یوں تو شہنشاہی ادوار میں یہی اصول کار فرما تھا کہ جو بچ گیا وہی بادشاہ ....! مگر جناب یہ اکیسویں صدی ہے۔ عقل و شعور بامِ عروج پر ہے۔ جمہوریت کی شکل میں باقاعدہ ایک نظام مروج ہے جس میں انتقالِ اقتدار کا طریقہ کار انتخابات کی صورت میں وضع کیا گیا ہے۔ شعور اور نظام کی موجودگی میں بھی اگر ہم سیاسی دشمن کو ’’کچا چبا جانے‘‘ کی ڈگر پر گامزن ہوں تو پھر مجھے کہنے دیجئے کہ شعور اور نظام سے ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا۔
موجودہ گمبھیر صورتحال کے لاکھ نقصانات ہوں گے مگر ایک فائدہ یہ ضرور ہوا ہے کہ اتفاقاً ہی سہی ملک میں۔ Two Party System فروغ پا گیا ہے۔ ایک پارٹی پی ٹی آئی ہے اور دوسری پی ڈی ایم ۔ پی ڈی ایم کا وجود مشروط ہے اگر پی ٹی آئی سیاسی میدان میں موجود رہتی ہے تو پی ڈی ایم بھی قائم و دائم ہے ۔ خیر ہمارا آج کا موضوع یہ نہیں ہے کہ کون قائم رہے اور کون نہ رہے۔ ہمارا موضوع یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمان کے موجودہ تصادم سے کس طرح نپٹا جائے ؟آئین موجود ہے ،عدالتیں موجود ہیں ،ادارے موجود ہیں جن سے کسی کو کسی وقت اختلاف بھی ہو سکتا ہے تاہم اس وقت حقیقت یہ ہے کہ نئے انتخابات وقت اور آئین کا تقاضا ہیں جن سے مفر ممکن نہیں۔ سیاستدانوں کے کندھوں پر جتنی ذمہ داری آج آن پڑی ہے شاید پہلے کبھی نہ ہوں۔ اداروں سے محاذ جنگ کھولنے کی بجائے سیاستدانوں کو ازخود کوئی نہ کوئی حل نکالنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ’’کچا چبا جانے‘‘ جیسے رویے پر قابو پاتے ہوئے برداشت پیدا کرنا ہوگی۔ مدمقابل کو میدان میں اتار کر ہی مقابلہ ممکن ہے۔
دوسرا مسئلہ احتساب کا ہے ۔ ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے کا نہ کوئی فائدہ ماضی میں ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔ سب لیڈر ایک دوسرے کو معاف کر دیں۔ عوام کی پروا نہ کریں۔ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ برباد ہوتا ہے تو کوئی بات نہیں اس کی پروا نہ کریں۔ یہ بیچارے تو صدیوں سے نقصان کے عادی ہیں۔ میلے میں جیب کٹ جائے تو صبر ، سفر میں بیگ چوری ہو جائے تو صبر ، عمر بھر کی جمع پونجی کوئی اُچک لے تو صبر ، بیٹی کا جہیز چوری ہو جائے تو صبر، بیوہ کے گھر پر کوئی قبضہ کرلے تو صبر ، ناحق موت مارا جائے تو صبر، کوئی آفت آجائے تو صبر ، الغرض یہ قوم تو صبر کی عادی ہے لہٰذا اشرافیہ کی لوٹ مار پر بھی صبر کر لے گی۔ اسے معلوم ہے یہاں لوٹی ہوئی رقم واپس نہیں آتی۔ جس ملک میں غریب آٹے کی بوری کے لئے جان دے دے اور اشرافیہ کے لئے 50 کروڑ تک کی کرپشن کرپشن ہی نہ ہو اور اگر اس سے زیادہ بھی ہو تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں خیر سے پلی بارگین کی سہولت موجود ہے۔ میں تو کہتا ہوں ہمارے ملک میں احتساب وغیرہ کے لئے کوئی ادارہ ہی نہیں ہونا چاہئے ۔ سب کو معاف کر دیں۔ عام معافی نامہ جاری کر دیں۔ ہمارے ہاں کرپشن کا سانپ بڑا ذہین ہے لکیر بھی نہیں چھوڑتا ،کس کو پیٹیں گے؟
اس گمبھیر صورتحال میں آج کا پاکستانی یہ نہیں سوچتا کہ پچھلے 75 سال میں کیا ہوا ؟ یہ سوچتا ہے کہ آگے کیا ہوگا ؟ اب مستقبل کی فکر ہے۔وجود قائم رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ عزت نفس تو بچی نہیں وجود ہی بچا لیں۔ اس کے لئے تمام سیاستدانوں کو ، تمام اداروں کو واپس زیرو پوائنٹ پر آنا ہوگا۔ ماضی کی تلخیاں بھلا کر آخرکار مذاکرات کی میز پر ہی مسائل کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔ ملک اس وقت نہ تو سخت عدالتی فیصلوں کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ کسی لانگ مارچ کا۔ اس وقت بنیادی تنازعہ انتخابات ہیں۔ ایک پارٹی فوری الیکشن چاہتی ہے جبکہ دوسری اس سال اکتوبر میں ۔ ہر جنگ میں سیز فائر کا امکان ہوتا ہے۔ اگر موجودہ سیاسی جنگ میں سیزفائر ہو جائے سب زیرو پوائنٹ پر واپس آجائیں اور الیکشن کی تاریخ باہمی مشورے سے مئی اور اکتوبر کے درمیان میں طے کرلیں تو آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ عدالت بھی سیاسی تصفیے پر مہر تصدیق ثبت کر سکتی ہے۔ یوں دونوں سیاسی گروپ بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنا بند کریں اور خود فیصلے کرکے ملک و قوم کو انتشار اور موجودہ ہیجانی کیفیت سے باہر نکالیں۔