• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے فوری بعد سی پیک منصوبے پر کام بند کردیا گیا تھا۔ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران سی پیک کا کوئی قابل ذکر منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔عمومی رائے ہے کہ چین سے دوستانہ تعلقات اور سی پیک منصوبہ عمران حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا ۔ کیونکہ انہوں نے منصب سنبھالنے کے فوراً بعدچینی کمپنیوں پر مسلم لیگ ن حکومت کے وزراء کو رشوت دینے کا الزام لگایا۔پارلیمنٹ میں کی گئی عمران خان کی تقریر کی گونج بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنی۔امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کے صف اول کے اخبارات نے عمران خان کے حوالے سے چینی حکومت کے پروجیکٹ سی پیک میں کرپشن کا دعویٰ شائع کیا۔ان ممالک میں کام کرنے والے بڑے بڑے چینی سرمایہ داروں اور چین کے ڈپلومیٹس نے بیجنگ حکام سے تحفظات کا اظہار کیا۔چین کے اخبارات نے بھی عمران خان کے سی پیک میں کرپشن کے حوالے سے دعوے کو شائع کیا۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کو چین کے اندر سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔چینی صدر شی جن پنگ کو مشیروںنے مشورہ دیا کہ سی پیک کے مقابلے میں ایران کے ساتھ شروع کیا گیا منصوبہ بیس گناہ بڑا ہے۔پاکستان سے آپکی محبت اور دوستی اپنی جگہ مگرپاکستان سے تعلقات آپکی ساکھ کی قیمت پر آگے نہیں بڑھا ئے جاسکتے۔کیونکہ شاید قارئین کے علم میں ہوگا کہ سی پیک پروجیکٹ میں جتنے بھی منصوبے شروع کئے گئے تھے۔ان تمام پروجیکٹس کے ٹھیکے چین کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی کو دئیے گئے تھے۔پاکستان میں کام کرنے کے لئے چین نے پاکستان کے قوانین کے مطابق یہاں یہ کمپنی جب رجسٹرڈ کروائی تو اس کا نام تبدیل کردیا گیا اور اس کمپنی کے تمام بورڈ آف ڈائریکٹرز چینی حکام ہیں،صرف پاکستانی قانون کے مطابق ایک مقامی پاکستانی کو اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کیا گیا۔پاکستان میں سکھر ملتان موٹر وے سے لے کر سی پیک کے تمام بڑے پروجیکٹس اسی کمپنی نے شروع کئے۔اس کمپنی نےکچھ کام مقامی تعمیراتی کمپنیوں کو بھی ٹھیکے پر دیا مگر اصل پروجیکٹ اس کمپنی کے پاس ہی رہا۔اس کی چین میں بھی بہت بڑی ساکھ ہے۔عمران خان کی متنازعہ تقریر اور چین کے پروجیکٹ سی پیک میں کرپشن اور رشوت کے الزام نے سی پیک منصوبے پر کاری ضرب لگائی اور چینی حکومت نے سی پیک منصوبے کے حوالے سے تما م نئے پروجیکٹس روک دئیے اور جو چل رہے تھے ان پر بھی انتہائی سست روی سے کام کیا۔عمران خان صاحب نے سی پیک کے حوالے سے دوسرا غیر ذمہ دارانہ اقدام جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو سی پیک اتھارٹی کاچیئرمین بنا کر کیا۔حالانکہ چین اور پاکستان کے درمیان طے تھا کہ پاکستان کے اور چین کے وزیر منصوبہ بندی اپنے اپنے ممالک میں اس منصوبے کی سربراہی کریں گے اور جے سی سی کی مشترکہ طور پر سربراہی کریں گے۔عاصم سلیم باجوہ صاحب جتنا عرصہ سی پیک کے سربراہ رہے۔چین حکام نے سی پیک میں ایک اینٹ بھی نہیں لگائی۔اسی طرح سے مراد سعید نے بطور کمیونیکیشن وزیر چین کی بڑی بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ نامناسب رویہ رکھا اور یوں چین دلبرداشتہ ہوکر پاکستان سے واپس چلا گیا۔

سی پیک منصوبہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔اس منصوبے کی وجہ سے پاکستان میں لوگوں کو وسیع روزگار میسر تھا۔سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان میں کرش کے پلانٹس تین ،تین ماہ کی ایڈوانس بکنگ پر مال دے رہے تھے۔کمرشل بینکس نے ریکارڈ لوڈر ،ٹرالیاں اور ٹرک لیز پر دے رکھے تھے۔پاکستان کے مقامی لوگ سی پیک سے کروڑوں روپے کما رہے تھے اور کروڑوں مالیت کی گاڑیوں کی لیز قسطیں بھی جمع کروارہے تھے۔ایک اوسط اندازے کے مطابق صرف ڈیرہ غازی خان سے سی پیک کا میٹریل لے کر تیس سے چالیس ہزار ٹرک گزرتے تھے ۔ ڈیزل اور پیٹرول ان گاڑیوں میں ڈلتا تھا۔حکومت ڈیزل اور پیٹرول پر لگنے والے ٹیکس سے روزانہ اربوں روپے کمارہی تھی۔مگر پھر عوام کی اکثریت نے عمران خان صاحب کو سپورٹ کیا اور انہوں نے آتے ہی سی پیک منصوبہ بند کروادیا۔جس سکھر ملتان موٹروے پر اکنامک کوری ڈورز بننے تھے، چین کو اپنی صف اول گاڑیوں کی کمپنیوں کے پلانٹ یہاں لگانے تھے۔بڑے بڑے برانڈز کی فیکٹریاں اسی موٹروے کے اردگرد لگنی تھیں۔جس سے ہمارے ملک سے سامان چین جاتا اور ڈالر پاکستان میں آتے۔جبکہ جب تک چین کو اسی موٹروے کا قرضہ واپس کرنے کا ٹائم آتا تو ہم اصل قرضہ اور اس پر لگنے والی شرح سود سے کئی گنا پیسہ اسی موٹروے سے کماچکے ہوتے اورہماری معیشت پر یہ قرضہ بوجھ نہ بنتا مگر بغیر منصوبہ بندی کے چین جیسے ملک کو بھی متنازع کردیا گیا۔آج چین نے اسی شرط پر سی پیک منصوبہ دوبارہ شروع کیا ہے کہ ہمارے ساتھ ماضی جیسا سلوک نہیں کیا جائیگا اور نہ ہی ملک دوبارہ ایسے لوگوں کے حوالے کیا جائیگا جو ہمارے ملک اور ہماری بڑی کمپنیوں کی ساکھ پر انگلی اٹھائیں۔چین کے وزیر خارجہ خطیر رقم کی سرمایہ کاری کیلئے تیار ہوکر پاکستان آئے ہیں،اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔

تازہ ترین