پروفیسر فاروق طاہر
فرد اور ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی میں تعلیم کاکلیدی کردار ہوتاہے۔ کسی بھی ملک کےافرادکی خوش حالی سے اس ملک کی خوش حالی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہر دور میں ذہن سازی کے عمل میں تعلیم کا بہت بڑادخل رہا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام گزشتہ کئی دہائیوں سے پستی کا شکار ہے۔ آج بھی ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ مطلوبہ تعلیمی سہولیات سے محروم ہے۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کی کثیر تعداد بہتر مواقعوں،ملازمت اور پرکشش معاوضوں کے پیش نظر بیرون ملک نقل مکانی کو ترجیح دے رہی ہے۔تعلیمی نظام اور تعلیمی عمل میں ابھی بھی کئی ایسی رکاوٹیں حائل ہیں، جنہیں عبور کرنا باقی ہے، صرف شرح خواندگی میں اضافہ، کامیابی اور معیار کی ضمانت نہیں ہوسکتا۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں تعلیمی نظام کی چند خرابیوں کے بارے میں ملاحظہ کریں:
آج بھی ہمارے ملک میں طلبہ کی قابلیت کو ان کے حاصل کردہ نمبر اور درجات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ 90فی صد سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو ’’ذہین وغیر معمولی ‘‘ سمجھنا ایک عام بات ہے۔ اوسط نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو عمومی طور پر کمزور سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم آج بھی بغیر کسی مثبت وصحت مند تبدیلی کے اپنی جگہ قائم و برقرار ہے۔یہ نظام طلبہ کی ہمہ جہت ترقی کے بجائے اچھے نمبر حاصل کرنے پرہی زیادہ زور دیتا ہے۔
90 فیصد تعلیمی نصاب نظریاتی (Theoretical) اصولوں پر مبنی ہے ۔عملی اکتساب وتحقیق کے لیے ہمارے نصاب میں بہت کم گنجائش پائی جاتی ہے۔ تنقیدی فکر ،تخلیقی درس و اکتساب کو ہمارے نصاب میں بہت کم جگہ دی گئی ہے۔ آج بھی طلبہ ایک مخصوص نصاب ونظام کے تحت بندھے ہیں۔ ہمارے تدریسی طریقے نہ صرف جامد ہیں بلکہ تنوع سے بھی عاری ہیں۔ اس میں زندگی کی رمق، چستی پھرتی اور سبک رفتاری بہت کم دکھائی دیتی ہے۔امتحانات میں بہترین نمبرز اور گریڈ حاصل حاصل کرنے کے باوجود ہمارے بچوں کا شرح اکتساب تسلی بخش نہیں۔
تعلیمی سال (Academic year) کے اختتام پر بورڈ امتحانات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، جن میں تسلی بخش نمبر حاصل نہ کرنےسے طلبہ کو ذہنی اذیت، پریشانی، تذلیل اور بے اعتمادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمارا معاشرہ، والدین اورتعلیمی ادارہ جات کھیل، فن کاری، دستکاری اورغیر نصابی سرگرمیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
تعلیم کا مقصد افراد کو بامقصد زندگی کے لیے تیار کرنا اوران کے مطلوبہ اہداف تک رسائی کے لیے بااختیار بنانا ہے۔ ہر بچہ بڑا ہو کر ایک راکٹ سائنٹسٹ بننا نہیں چاہتا، ہو سکتا ہے کہ وہ ایک شاعر، گلوکار، کھلاڑی یا ایک مقرربننا پسند کرے۔ یہ بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ پڑھائے گئے مضامین میں سے بیشتر مضامین طلبہ کے لیے اہم ثابت ہوتے ہیں نہ ہی سود مند۔ ہونا یہ چاہیے کہ،طلبہ کے تعلیمی زندگی کے دس قیمتی سالوں تک انھیں ایسے مضامین پڑھائے جائیں جو مستقبل میں ان کے کسی کام آئیں۔ اس فرسودہ اور روایتی نصاب کو بڑی حد تک بدلنے کی ضرورت ہے۔نصاب میں ضروری مضامین اور اس کی مقدار کی شمولیت کے معیار کو تبدیل کرنا ہوگا۔ بے شک صدیوں سے ریاضی اور سائنسی علوم کی اپنی اہمیت ہے۔ لیکن ساتھ ہی دیگر سماجی اور ادبی علوم کو یکساں اہمیت دینا چاہیے۔
ریاضی اور سائنس کے باقاعدہ مضامین کے ساتھ تخلیقی مضامین کی شمولیت کے لیے نصاب کی تبدیلی ایک نیک فال ثابت ہوگی۔ ان خطوط پر نصاب کی تدوین سے طلبہ میں اپنے تعلیمی دور کے ابتدائی ایام سے ہی اہم، بڑے اور گنجلک رجحانات و تصورات کو سمجھنے کی لیاقت پیدا ہوجائے گی۔ یہ قدم طلبہ میں پائیدار دلچسپ ،بامعنیٰ اکتساب اور حقیقی ترقی کی سلامتی کا ضامن ہوگا۔
تعلیمی اصلاحات کے لیے صرف نصاب کی تبدیلی ہی کافی نہیں ہے ۔بلکہ اساتذہ اور تدریسی طریقوں میں بہت زیادہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ہمارے تدریسی طریقے فرسودہ اور پرانے ہوچکے ہیں۔ ہم آج بھی بلیک بورڈ اور چاک کو ہی تعلیم کے واحد طریقے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اگرچہ طریقہ تعلیم میں ای لرننگ لہر سے کسی قدر تبدیلی ضرور آئی ہے لیکن اس کا تناسب بہت کم ہے۔ نہ صرف ہمارا طریقہ ہائے تدریس از کاررفتہ ہوچکے ہیں بلکہ ہمارے اساتذہ بھی قنوطیت کا شکار ہیں۔
تعلیمی اداروں میں ضروری ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کو درس و تدریس کے نئے طریقوں سے آراستہ کریں۔انھیں سرگرم ای ٹیچنگ ولرننگ سے لیس کرنے کے اقدامات کریں۔ تعلیمی اداروں کو جدید آلات (Gadgets)سے آراستہ کردینا ہی کافی نہیں ہوگا۔ جدید تعلیمی ٹولز کے موثر استعمال کی تعلیم و تربیت بھی فراہم کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ تالی بجانے کے لیے ہمیشہ دو نوں ہاتھ استعمال ہوتے ہیں۔ ہم مخصوص علمی اصطلاح سے توواقف ہیں لیکن اسے عملی طور پر کیسے انجام دیاجائے اس سے ہم بالکل کورے ہیں۔ مختصراً عملی تدریس سے ہم اب بھی کوسوں دور ہیں۔
درجات کے مطابق تدریجاًنصاب کے اضافے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنے تعلیمی نظام سے فعال افادی تعلیم کو بالکل نکال پھینکا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے تعلیمی نصاب کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ مارکیٹ کیسے کام کرتی ہے اور معیشت کس طرح سے چلتی ہے یا چلائی جاتی ہے۔ فعال افادی تعلیم اور مارکیٹ کے تقاضوں کے بارے میں ہمارے نصاب میں معلومات صفر ہیں۔ طلبہ کو کم از کم ثانوی سطح سے مارکیٹ کی بنیادی تعلیم فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ دنیا کے مالیاتی کام کاج کو بہتر طریقے سے سیکھنے اور سمجھنے کے لائق بن سکیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ایک ایسا تعلیم نظام وضع کریں،
جہاں گریڈنگ سسٹم کی شکل میں، محنت کی نمائش پر بچوں کو مجبور نہ کیا جائے۔ بچوں میں تجسس کو مہمیز کریں،ان سے سوالات پوچھیں، انہیں سوالات کرنے دیں اور ان کی دلچسپی اور پسند کے مطابق مضامین لینے کی آزادی دیں، جن میں وہ اپنا کیرئیر اور مستقبل بنا نا چاہتے ہیں۔ درس و تدریس اور اکتسابی عمل(سیکھنے کے عمل میں)میں ٹیکنالوجی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ لیکن یاد رہے یہ کسی صورت استاد کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔ آڈیو ویژول ایڈز،ا سمارٹ بورڈز، آن لائن مواد اور انٹرنیٹ مربوط کلاس رومس نے درس و تدریس اور اکتساب کے کام کو آسان بنا دیا ہے۔
طلبہ کے پاس پہلے سے زیادہ اب انٹر ایکٹوطریقوں سے سیکھنے کے ذرائع موجود ہیں ۔ تصورات کو سمجھنا اور ذہن میں محفوظ رکھنا آسان ہے۔اب وقت آچکا ہے کہ حکومت درس و تدریس اور اکتساب کے جدید طریقوں کواپنانے میں سرمایہ لگائے۔ بنیادی سطح پر موثر و افادی تعلیم کو نافذ کرنے کے لیے حکومت اساتذہ اور والدین کے مشوروں ا ور اشتراک سے کام انجام دے۔
معزز قارئین ایک نظر ادھر بھی
پروفیسر اور طلبا کی پُر زور فرمائش پر اس ہفتے سے تعلیم کا صفحہ شروع کیا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اُنہوں نے ہمیں تجاویز بھی ارسال کیں اور مضامین بھی۔ یہ صفحہ اُن سب کے لیے ہے جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں بہتری کے خواہاں ہیں اور اپنے صفحے کے لیے لکھنا بھی چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی رائے کے ساتھ تعلیمی حوالے سے مضامین بھی ارسال کریں۔ یہ صفحہ پندرہ روزہ ہے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی
Email: razia.fareed@janggroup.com.pk-musarrat.shahid@janggroup.com.pk