• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالات کو بہتر بنانے اور ان کو اپنے حق میں استوار کرنے کا کام اب نئی نسل کو خود کرنا چاہیے۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں، اُن کی امنگوں اور اُن کے تازہ کاری کے جذبوں سے یہ امید بھی باندھی کہ وہ اپنے مستقبل کی تعمیر کا اہم کام کرسکتے ہیں۔ 

نئی نسل میں غیر معمولی توانائی ہے، زندگی اور کلچر سے قربت کا جذبہ ہے، اپنی دنیا آپ پیدا کرنے اور افکارِ تازہ سے جہانِ تازہ کی نمو کی خواہش ہے۔ لیکن ہماری نوجوان نسل آج جس دنیا میں کھڑی ہے ، یہ دنیا ہے کیا؟ یہ کس طرف جارہی ہے؟ اس میں زندگی بخش حقائق کیا ہیں؟ اس میں خدشات کس قسم کے پوشیدہ ہیں؟خطرات،حوصلہ شکن کتنے ہیں،اور ان سے عہدہ برآہونے کے امکانات اور طریقے کیا ہیں؟

ہمیں اپنی نوجوان نسل کے حوالے سے ایک وجودی بیانیہ (Existentialist Narrative) بنانا ہوگا۔ ہمیں ان کے حوالے سے ایک ورلڈ ویو تک پہنچنا ہوگا۔ ہم بات ورلڈ ویو ہی سے شروع کریں گے۔ آج کی دنیا کو دو بڑے حوالوں سے زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ ایک حوالہ خود اس زمین پر انسانی بقا کا مسئلہ ہے،انسان اور نیچر کا رشتہ ہے جس میں بڑی گہری دراڑ یں پڑ چکی ہیں۔

موسمیاتی تغیرات نے نئی نسل کے لیے ہی نہیں ساری بنی نوع انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ دوسرا حوالہ انسان اور انسان کے رشتے، سماجی و سیاسی نظاموں میں انسانی مفادات کے ٹکراؤ،اور اس تضاد کے عالمی سانچے کا موضوع، جس کو ہم عالمگیریت یا Globalization کا موضوع کہہ سکتے ہیں۔

جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق ہے، ہمارے زمانے تک آتے آتے ، اور سیلابوں و طوفانوں کو اپنے شہروں، گاؤں ،اور محلّوں میں دندناتے ہوئے دیکھ لینے، اور بار بار دیکھ لینے کے بعد، اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جانا چاہیے کہ نیچر آج بدلہ چکانے پر اتر آئی ہے۔ ہم نے بجائے نیچر سے ہم آہنگ ہو کر رہنے کے، اس کو اپنے مفادات کیطابع کرنے کی حرص میں، اس کو اِس قدر زخمی کیا کہ اب وہ مزید اس ظلم کو برداشت کرنے سے انکاری ہے۔

ہم نے زمین پر جنگلات کو صاف کیا،ہم نے ساحلوں پر قدرت کے بنائے ہوئے تیمر کے درختوں (mangroves)کے پشتوں کو مسمار کرکے اپنے مکانوں اور ہوٹلوں کو لہروں کا منہ چڑانے کے مقام تک پہنچا دیا۔ ہماری صنعتوں سے خارج ہونے والے زہر آلود دھوئیں سے فضائیں مسموم ہوئیں، گلوبل وارمنگ کا سامان خود ہم نے کیا۔ 

یہ سب کچھ کرتے وقت یا توہم فطرت اور نیچر کی دنیا کو خاطر ہی میں نہیں لائے یا پھر ہمارا خیال تھا کہ ہم نیچر کو مغلوب کررہے ہیں۔ نیچر کو مغلوب کرنے کا ہمارا یہ بشر مرکز (Anthropocentric)تصور، ہمیں اِترانے کے مقام تک لے آیا۔اور اب نیچر کا ردعمل آرہا ہے۔ہمارے طرح دار شاعر عطا شاد نے کہا تھا ؎

سیلاب کو نہ روکیے رستہ بنائیے

کس نے کہا تھا گھر لب ِدریا بنائیے

اس وقت طوفانوں، سیلابوں، زلزلوں اور وباؤں سے انسانی مستقبل کو جو خطرات لاحق ہیں، اُن کے پیچھے بڑی حد تک انسان کی اپنی حرص اور لالچ، اُس کی منفعت اندوزی، اُس کا ایک دوسرے پر برتری حاصل کرلینے اور ایک دوسرے کو زیر کرلینے کا رجحان کارفرما رہا ہے۔

آج ہمارے نوجوانوں کوجن کے سامنے ابھی زندگی کا بڑا سفر باقی ہے، ایک ایسے نئے عالمی تصورکو اختیار کرنا ہوگا جو نیچر کے ساتھ دشمنی اور مخاصمت کے بجائے، اُس کے بے دریغ استحصال کے بجائے، نیچر کے ساتھ ہم آہنگ ہونے، اس کے ساتھ دوستی اور بقائے باہمی کا تصور ہو۔

اگر وہ ایسا کرسکے اور نیچر کے تحفظ کی متبادل سوچ اور پالیسیاں وضع کرواسکے تو وہ اب تک کے نقصان کی کسی حد تک تلافی بھی کرسکتے ہیں اور آئندہ کے خطرات کے آگے بند بھی باندھ سکتے ہیں، ایسا کرسکے تو آج ہم جہاں کھڑے ہیں، کہا جاسکتا ہے کہ وسیع تر تاریخ کے سفر کے تناظر میں ،یہ اس سفر کے اختتام کی گھڑی نہیں بلکہ آغازِ سفر کا مرحلہ ہے۔

بیسویں صدی کے بڑے مفکر برٹرینڈ رسل نے ایٹمی خطرات کی اندوہناکی اور انسان کے پاس پرُامن بقائے باہمی کے امکان، دونوں کا ذکر کرکے اپنی کتاب’کیا انسان کا کوئی مستقبل ہے؟‘ (Has Man a Future?) میں انسان کے سفر کی، اُس وقت تک کی منزل کوتمہید یا اختتامیہ سے تعبیر کیا تھا یعنی یہ منزل اختتامِ سفر بھی ہوسکتی ہے اور آغازِ سفر بھی۔

انسان اور نیچر کے رشتے کے علاوہ آج کے ورلڈ ویو کا دوسرا بڑا حوالہ انسان اور انسان کے رشتے سے متعلق ہے، اُس عالمی اقتصادی و سماجی اور سیاسی نظام سے ہے جس کے تحت یہ رشتے متعین ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم عالمگیریت اور گلوبلائزیشن کی بات کررہے ہیں۔ یہ گلوبلائزیشن آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

بنیادی طور پر گلوبلائزیشن کی اساس اقتصادی ہے۔ یہ سرمائے کی عالمگیریت، اس کی جہانگیری کا نظام ہے۔ سرمایہ اپنی سرشت میں بڑھنے، پھیلنے، رکاوٹوں کو عبور کرنے، منڈیوں کے ذریعے معاشروں تک رسائی حاصل کرنے، سیاست کو اپنے اہداف کے مطابق ڈھالنے یا ڈھلوانے ،ثقافت کو اپنی منشا کے مطابق رنگنے کا نظام ہے۔

آج کی نسل نے گلوبلائزیشن کے سب سے طاقت ور،ہمہ گیر اور گہرے اثرات مرتب کرنے والے دور میں آنکھ کھولی ہے۔ آج کی نئی نسل اگر اُس نسل کو قراردیا جائے جو2000ء یا اس کے ایک آدھ سال بعد پیدا ہوئی، یعنی وہ نسل جو Generation-Z کہلاتی ہے، اس کوٹِک ٹاک جنریشن بھی کہتے ہیں، یہ ہماری کُل آبادی کا 40 فیصد ہے، تو سوال یہ ہے کہ اس نسل کو اس کے دور نے کیا بنایا ہے؟ کچھ چیزیں وہ ہیں جو اس تک پہنچی ہی نہیں۔

ان چیزوں کو اُس تک پہنچانے کی ضرورت نہ توبیشتر ریاستوں نے محسوس کی نہ عالمی نظام کو اس سے کوئی سروکار رہا۔ مثلاً پشتوں کے تجربات پر استوار ہونے والی دیسی اور مقامی بصیرت (indegenous wisdom) سے یہ نسل غافل رکھی گئی ۔ ماضی کی نسلیں، ہمارے بزرگوں کی جدوجہد ِحیات سے ناواقف ہیں۔ تاریخ کو اس نسل سے پوشیدہ رکھا گیا۔

پاکستان کے تناظر میں نئی نسل کی اپنی تاریخ سے ناواقفیت کی سب سے بڑی مثال1971میں پاکستان کے دو نیم ہونے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا واقعہ ہے۔ میں ہر سال اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سے چند ایک میں جہاں مجھے جانے اور پڑھانے کا موقع ملتا ہے، نئے آنے والوں سے پوچھتا ہوں، تو سَو میں سے بمشکل کوئی ایک آدھ بچہ بتاپاتا ہے کہ مشرقی پاکستان، پاکستان سے الگ کب اور کیوں ہوا تھا؟ نئی نسل کے لیے یہ واقعہ غیر متعلق بن چکا ہے۔

اس نسل کے سامنے آج کی چیزوں کا ماضی بھی نہیں ہے۔ ہماری ماضی کی سیاست، فوجی آمریتیں، جمہوری تحریکیں یا ہمارے شہروں کی ماضی کی تہذیبی سرگرمیاں، ہمارے سنیما، تھیٹر ،ہمارے لوگوں کی بلکہ خود ان کے والدین اور بڑوں کی زندگی بھر کی جدوجہد ،یہ سب چیزیں ان کے علم اور حافظے کا حصہ نہیں ہیں۔

میں اکثر تاریخ کے اپنے طالبعلموں کو اسائمنٹ کے طور پرخود اپنی خود نوشت لکھنے کو دیتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ اپنے بڑوں سے انٹرویو کر کے اُس زندگی کی بابت سوال کریں جو انہوں نے گذاری ہے، تب طالبعلم زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے دادا، دادی، نانا، نانی اور والدین سے اُن کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ ان سب باتوں سے وہ پہلے واقف کیوں نہیں ہوئے۔ 

نت نئی معلومات تک رسائی کے برقی آلات ان کو آس پاس بکھری ہوئی خبریں تو ضرور پہنچاتے ہیں، وہ اس طوفانی اطلاعات سے مسحور بھی ہوتے ہیں، اس میں کھو بھی جاتے ہیں مگر زندگی کی کلّیت، ماضی، حال اور مستقبل کے ایک سلسلۂ عمل ہونے کی حقیقت تک ان کی نظر نہیں پہنچ پاتی۔

اس میں ان برقی آلات کا کوئی قصور نہیں، قصور ان کو استعمال کرنے والوں کاہے جو ان سے فوری فوائد کے حصول تک خود کو محدود رکھتے ہیں۔ ان کو ایک بڑے وژن کے حصول کا ذریعہ نہیں بناتے۔ ماضی، ظاہر ہے کہ مکمل طور پر خود بسر کی ہوئی حقیقت یا Lived Reality نہیں ہوتا مگر ماضی سے حال تک کا سفر اور اس کا علم ہمارے سماجی شعور کی ترقی کا ذریعہ بنتا ہے۔ہماری نئی نسل کے لیے ضروری ہے کہ اس سفر کے علم اور اس سے حاصل کردہ شعور کو اپنا رہنما بنائے۔

اس نسل نے جس دنیا میں، جس Globalized worldمیں آنکھ کھولی ہے، اُس کے دو جدید اور بہت بڑے ستون ہیں۔ ایک تو معلومات اور مکالمے کا کمپیوٹر کے توسط سے ہندسوں کے قالب میں ڈھل جانے (Digitization)کا نظام اور دوسرا مصنوعی ذہانت(Artificial Intelligence) کی دریافت کا محیر العقول واقعہ۔ اب سے تیس پینتیس سال قبل اشتراکی بلاک کی تحلیل کے بعد جب امریکہ اور مغربی یورپ کی طرف سے نئے عالمی نظام کی بشارت دی گئی تو دیکھتے ہی دیکھتے سرمائے کے دور افتادہ علاقوں تک پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

قومی ریاستوں کی سرحدیں کمزور اور معدوم ہونا شروع ہوئیں، محنت کشوں اور تیکنیکی مہارت رکھنے والی افرادی قوت کی روزگار کی تلاش میں پسماندہ ملکوں سے ترقی یافتہ یا مالدار عرب ملکوں کی طرف روانگی شروع ہوئی، اسی دوران مواصلات کے نئے زرائع دنیا میں چھا گئے۔ ایک بڑا خوش آئند واقعہ ظہور پذیر ہوا۔

معلومات کا انقلاب، انٹرنیٹ ،اس کی بنیاد پر آگے آنے والا الیکٹرانک میڈیا، اس کو مزید آگے لے جانے والا سوشل میڈیا، ان سب نے انسان کے ارد گرد ایک نئی دنیا تخلیق کردی۔ ہماری نئی نسل نے ٹیکنالوجی اور معلومات کے اسی انقلاب کے دوران آنکھ کھولی ہے۔ وہ اس انقلاب کے سب ہی مفید پہلوؤں سے استفادہ کرسکتی ہے اور کرتی ہے۔ نئے راستے ان کے ذہنوں پر اجاگر ہوتے ہیں۔ نوجوان اپنے ملک اور دوسرے ملکوں کے درمیان تقابل بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کی پسماندگی کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ امید کے دیے ِاُن کی نظروں میں روشن ہوتے ہیں۔

یہ انقلابی وسائل جس digitizationپر منتج ہوئے ہیں، اُس نے انسانی روابط کی نوعیت بدل ڈالی ہے، انسانی رشتوں کو نئے معنی دیے ہیں، ثقافتی شناختوں کو نئے انداز سے اجاگر کیا ہے، قومی اور ملکی سرحدوں سے ماورا شناختوں نے وابستگی کے نئے دائرے بنائے ہیں۔ یوں گلوبلائزیشن کا ایک مثبت پہلو اجاگر ہوا ہے۔ اب اس digitiationکے بطن ہی سے Artificial Intelligence نے جنم لیا ہے۔ یہ ایک اور امکانات سے بھرپور دنیا کے دروازے کھول رہی ہے۔

انسان کے ذہنِ رسا کی تخلیق،خود اس کے ذہن سے آگے بڑھ کر کام کر دکھانے پر مُصر ہے۔ اس سے انسان استفادہ کرسکتا ہے اور کر بھی رہا ہے، مگر digitization ہو، یاArtificial Intelligence یا ان دونوں کے دروازے کھولنے والا Globalization،ان کے منفی پہلو بھی ہیں۔ نئی نسل ان کا شکار ہورہی ہے اور ان کا ہدف بھی بن رہی ہے۔ 

یہ دنیا اتنی تیزی سے وجود میں آگئی ہے اور بظاہر یہ اتنی خود کفیل بھی ہے کہ جیسا کہ، اس میں آنکھ کھولنے والوں کو ماضی کے انسان کے سماجی اور علمی سفر سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔ ان کا شعور ماضی کی روایت اور تجربات سے کچھ اخذ کرنے کے بجائے تمام تر نئے آلات، نئے زرائع ابلاغ اور جدید مواصلات سے حاصل کردہ منتشر ذخیرۂ معلومات ہے۔

digitizationمعلومات کے انبار تو لگا دیتا ہے، یہ نہیں بتاتا کہ اچھا کیا ہے، برا کیا ہے،تہذیب کے ارتقا میں بنیادی انسانی قدریں، اخلاق، انصاف، ہمدردی، دوسرے انسانوں کے حقوق کا احساس، غرض بنیادی انسانی قدروں سے digital revolutionکا کوئی خاص لینا دینا نہیں ہے۔ اس جدید انقلاب کا ایک بڑا گہرا اور معنی خیز پہلو جس سے ہمارے نوجوانوں کو آگاہ رہنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ نئے زرائع معلومات، Information revolution، digitization اور Artificial Intelligence اس globalization کی ہم رکابی میں، اور اس کے حصے کے طور پر آئے ہیں جو معلومات میں اضافے، روابط کی جدت اور معاشی و معاشرتی کشادگی کے ساتھ ساتھ طاقت ور اور کمزور،وسائل یافتہ اور بے وسیلہ، حکمرانوں اور محکوموں کے درمیان فاصلوں کو مزید مستحکم بنارہے ہیں۔

دنیا پہلے صنعتی طور پر ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں، اشتراکی بلاک اور تیسری دنیا میں تقسیم تھی، آج globalization کے عام ہونے کے بعدGlobal Northاور Global South میں تقسیم ہوچکی ہے۔شمال کی صنعتی ترقی کی قیمت جنوب کے ماحولیاتی بحرانوں کی شکل میں ادا کی جاتی ہے۔

ہمارے ملکوں کی معیشت عالمی معیشت کے مراکز سے پہلے بھی متعین ہوتی تھی،اب بھی ہوتی ہے مگر نئی ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد ہم پر اُن کی گرفت کہیں زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔ ہمارے بہترین دماغ شمال کے اداروں میں دادِ لیاقت دیتے ہیں۔ کراچی میں ایسے بیسیوں ادارے موجود ہیں جن میں ہمارے Meritoriousبچے content writingکرتے ہیں۔

وہ امریکہ اور مغربی دنیا کے ٹیچروں اور ریسرچ سکالرز کے مقالے لکھتے یا لکھے ہوئے مقالوں کو اچھا بناکر بھیجتے ہیں۔صبح سے رات تک کی محنت کے ان کو پچاس ساٹھ ہزارماہانہ ملتے ہیں۔ ان پر کسی labour lawکا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف ہمارے گھروں میں ، ہماری نجی زندگیوں میں داخل ہوچکا ہے۔

نادرا ہم سے جو کوائف حاصل کرتا ہے وہ، ہمیں امداد دینے والے ملکوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے ہر وقت سامنے رہتے ہیں۔ ہمارے محنت کش شمال کی معیشتوں کے کَل پُرزے بنتے ہیں۔ ہمارے بے روزگار، روزگار کی امیدمیں شمال کی طرف جاتے ہیں۔ گجرات اور منڈی بہاؤالدین کی سینکڑوں جوانیاں بحیرہ روم میں ڈوب چکی ہیں۔

انسانی اسمگلنگ شمال کا بچھایا ہوا جال ہے، ہم جیسے غریب ملک اس جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ نظام اشرافیہ کی بالادستی کا Elite Captureکا نظام ہے۔ پسماندہ ملکوں کی حکومتیں اس نظام کو اپنے اپنے ملک میں ہموار بنانے کی ذمہ داری پوری کرتی ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اس نظام کے تقاضے پورے کرنے میں مشغول ہے۔ 

ہمیں اس نظام کے لیے ایسی finished goods پیدا کرنی ہیں جو اس نظام کا کَل پرزہ بن کر اپنی productivity ثابت کرسکے۔ یہ کام ہم نے یونیورسٹیوں کے سپرد کردیا ہے جہاں نیا علم پیداہو یا نہ ہو، نئی تھیوریز وجود میں آئیں نہ آئیں، مگر ایسے ہنر مندنوجوان پیدا ہوتے رہنے چاہئیں جو اُس jجاب مارکیٹ میں کام آئیں جو محض اقتصادی و مالی منفعتکے حصول کو اپنارہنما اصول سمجھتی ہے۔

ہمارا نظام تعلیم اسکولوں کو بڑھانے اور بہتر بنانے کو غیر ضروری سمجھتا ہے جبکہ یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانے پر پورا زور ہے۔ یونیورسٹیوں کا بڑھنا بجائے خود غلط نہیں ہے لیکن اگر تعلیم کو دیکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف یونیورسٹیاں کیوں بڑھ رہی ہیں۔ گذشتہ دس سال میں پاکستان میں اسکولوں کی تعداد میں صرف 0.3فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافے کی شرح 55فیصد رہی ہے۔

اسکولوں کی طرف عدم توجہ کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کی پروڈکٹ اس نظام کو چاہیے اور جس تعداد میں چاہیے وہ ضرورت یونیورسٹیوں کے مخصوص شعبوں سے ہنرحاصل کرنے والوں سے پوری ہوجاتی ہے۔ اسکولوں کی طرف بے توجہی کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں ڈھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جو اسکول جانے کی عمروں میں ہیں مگر اسکولوں میں داخل نہیں ہیں۔

ان میں بیشتر Generation-Z ہی کے بچے ہیں۔ مرکزی حکومت جو تعلیمی معیار کی ذمہ دار ہے ،جب اُس سے پوچھا جاتا ہے تو جواب آتا ہے کہ ’تعلیم صوبوں کو منتقل کی جاچکی ہے، اُن سے بات کریں‘۔ ایسا کہتے وقت مرکزی حکومت کے ذمہ دار بھول جاتے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی اس وقت آؤٹ آف اسکول بچوں کی تعداد89ہزار سے زیادہ ہے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عالمی نظام اور ہمارے ملک کا نظام دونوں گہرے تضادات اور distortionsکے حامل ہیں۔ ہمارے بچوں کا ، نئی نسل کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے نظام کا حصہ نہیں بنتے تو تمام تر خسارے میں رہتے ہیں۔ 

اس نظام کا حصہ بن جائیں تو اس کے غیر منصفانہ پہلوؤں کی زد میں آتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ ان کو اپنے ملک میں تعلیم سمیت سارے بنیادی حقوق حاصل ہوں اور الیکٹرانک اور ڈیجیٹل دور کے نئے نظام میں ان کی شمولیت منصفانہ بنیادوں پر ہو۔ میں نوجوان نسل کو سامنے رکھتے ہوئے اقبالؔ کے ان اشعار پربات ختم کروں گا کہ ؎

شیشے کی صراحی ہوکہ مٹی کا سبو ہو

شمشیر کی مانند ہو تیزی میں تِری مَے

ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے

بے معرکہ، ہاتھ آئے جہاں تختِ جم وکے

ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلّی

اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے

نوجوان سے مزید
تعلیم سے مزید