• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیڈمی اور انڈسٹری کے درمیان ایک وسیع خلا

سرسبزدرختوں ، خوب صورت راہداریوں ، شاندار کیفے ٹیریاز اور پرشکوہ درسگاہوں پر مشتمل یہ دنیا کی ایک خوب صورت ’’سول نیشنل یونیورسٹی‘‘ ہے جو جنوبی کوریا میں واقع ہے۔ اعداد وشمارکے لحاظ سے دنیا بھر میں یہ 36ویں نمبر پر ہے۔ یہ جہاں اپنی خوب صورتی کی وجہ سے طلبا کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے وہیں ایک وجہ اور بھی ہے۔وہ ہے اکیڈمی کی عمارت کے پیچھے مختلف مکینوں کے دفاتر، جن کی شیشے کی عمارتیں ہیں جو یونیورسٹی کا باقاعدہ حصہ نہیں ہیں۔

یہ دراصل ساؤتھ کورین انڈسٹری کی مختلف کمپنیوں کے دفاتر ہیں جن میں ایکسپرٹ بیٹھے ہوتے ہیں جو یونیورسٹی میں آنے والے طلبا کو مضامین کے انتخاب کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کے تقاضوں سے بھی متعارف کراتے ہیں۔

یہ انھیں بتاتے ہیں کہ آج کل انڈسٹری کوقابل لوگوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ فلاں موضوع پر ریسرچ کرلیں تو آپ کے لیے بہترین مواقع نکل آئیں گے اور مستقبل میں آپ شاندار کامیابیاں حاصل کرلیں گے، چنانچہ طلبا پہلے دن ہی جب یونیورسٹی میں اپنی ریسرچ کا آغاز کرتے ہیں تو انڈسٹری کے ساتھ ان کا لنک بن جاتا ہے۔

طالب علم یہ جان جاتا ہے کہ آج کے دور کے تقاضے کیا ہیں اور ہم کس طرح اپنی قابلیت کی بدولت ان تقاضوں کو پورا کرکے اپنا مستقبل روشن بناسکتے ہیں۔ جب طلبا فائنل ائر میں جاتے ہیں تو انڈسٹری کے ماہرین انھیں ایک بار پھر یہ پیش کش کرتے ہیں کہ اگر آپ یہ پراجیکٹ ہمارے ساتھ کرلیں توہم آپ کو بہترین سہولیات کے ساتھ ساتھ فنڈز بھی فراہم کریں گے۔

زمانہ طالب علمی میں ایک بڑا مسئلہ معاش کاہوتاہے ، چنانچہ جب ان کی یہ ضرورت پوری کرلی جاتی ہے تو وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہیں اور ایسی چیزیں تخلیق کرتے ہیں جن کی بدولت انھیں انڈسٹری میں ہاتھوں ہاتھ لے لیا جاتا ہے۔ یوں ایسی قابلیتیں پروان چڑھتی ہیں جو تخلیق اور ایجاد کے میدان میں اپنے ملک کا نام روشن کررہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج جنوبی کوریا ایجادات کے میدان میں بے پناہ ترقی کررہاہے۔

اب دوسری طرف اپنے ملک پاکستان کا جائزہ لیں، جہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ڈگری یافتہ فوج تو تیار ہورہی ہے لیکن تاحال نہ ہم ایجادات کی دنیا میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل کرسکے اور نہ ہی روز بروز بڑھتی بے روزگاری پر قابو پا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں اکیڈمی اور انڈسٹری کے درمیان ایک وسیع خلا پایا جاتا ہے افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قومی سطح پر سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کی گئیں۔ اس صورت حال نے کئی نقصانات کو جنم دیا ہے۔

پہلا نقصان یہ ہے کہ ایک نوجوان جب ڈگری حاصل کرکے عملی میدان میں قدم رکھتا ہے تو اس کو حالات بدلے ہوئے ملتے ہیں۔ کیوں کہ اس نےجو کچھ پڑھاتھا، وہاں اس کی ضرورت نہیں ہوتی نتیجتاً وہ مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس نے یونیورسٹی میں پڑھ کر اپنا وقت ضائع کیا۔

دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب اس کو نوکری نہیں ملتی تو وہ کوئی بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، یوں معاشرہ اچھے خاصے ’’ٹیلنٹ‘‘ سے محروم ہوجاتا ہے۔ تیسرا نقصان انڈسٹری کے لیے ہے۔ وہ یہ کہ اُس کو انسانی وسائل کی ضرورت تو رہتی ہے، ایسے میں جب اس کے پاس پریکٹیکل نالج سے محروم ڈگری یافتہ نوجوان آتے ہیں تو ان پر دوبارہ سے محنت کرنا پڑتی ہے اور ایک لمباعرصا اس پر خرچ ہوتا ہے۔

انڈسٹری اور اکیڈمی کے درمیان فاصلہ اس وقت ہمارا ایک قومی ایشو بن چکا ہے، جس کاذمہ دار کوئی ایک طبقہ نہیں بلکہ تینوں طبقات (انڈسٹری، اکیڈمی اور طلبہ) ہیں اور ان تینوں طبقات کی کمزوریوں کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ آئیے ، ایک نظر ان کمزوریوں پر ڈالتے ہیں۔

اکیڈمی کی کمزوریاں

* تعلیمی اداروں میں سب بچوں کو ایک ہی ترازو میں تولاجاتا ہے۔ یہ نہیں دیکھاجاتا کہ اللہ نے ہر بچے کو الگ شخصیت اور الگ قابلیت دی ہے۔ اس پہلو پر غور نہ کرنے اور قابلیتوں کے تنوع(Diversity) کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے طلبا کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں جونکھر کر سامنے آنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔

* تعلیمی اداروں میں طلبا کو کتاب سے پڑھایا جاتا ہے۔ مضمون کے بارے میں ذوق و شوق ، سوچنے کی دعوت یاپھر تحقیق وجستجو کی ترغیب نہیں دی جاتی ،جس کی وجہ سے بچے بھی کتاب تک ہی محدودرہ جاتے ہیں اور ان کے علم و شعور میں اضافہ نہیں ہوتا۔

* طلبا نے جو سیکھا ہوتا ہے، اس سے کچھ تخلیق کرنے کا ماحول موجود نہیں ہوتا، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں کسی بچے کے پاس اگر کوئی احمقانہ آئیڈیا بھی ہو توادارہ اس کی حوصلہ افزائی کرتاہے ۔جس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ بچوں کے اندرجستجو کامادہ برقرار رہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر بچہ ناکام ہوگیا تو اپنی غلطی سے سیکھ ضرو ر جائے گا۔

* تعلیمی ادارے اپنے نصاب اور اپنے اساتذہ کو اپ گریڈ نہیں کرتے ، جبکہ انڈسٹری وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈ ہوتی ہے کیوں کہ اس نے منافع کمانا ہوتا ہے اور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ چلنا اس کی مجبوری ہوتی ہے۔ نصاب کے اپڈیٹ نہ ہونے کا نقصان یہ ہوتاہے کہ جب طلبہ ڈگری لے کر باہر نکلتے ہیں تو انھیں لگتاہے ہم نے کچھ پڑھاہی نہیں ہے۔

* تعلیمی اداروں میں طلبہ کی کیرئیر کاؤنسلنگ اور شخصیت شناسی نہیں کی جاتی ۔طلبہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ٹیلنٹ کے اعتبار سے اس کے لیے کون سا کیرئیر بہتر رہے گا۔

طلبا کی کمزوریاں

* طلبہ کورس کے علاوہ خارجی مطالعہ نہیں کرتے اورنہ ہی کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔ کتاب پڑھنا انھیں وقت کا ضیاع لگتا ہے۔

* ان میں اعتماد کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے وہ نیا قد م اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے۔

* وہ تبدیلی کو قبول کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کمفرٹ زون سے نکلنا پسند نہیں کرتے اور نہ ہی بھرپور محنت کاجذبہ رکھتے ہیں۔

* ان کی سوچ محدود ہوتی ہے۔ تعلیم کے بعد وہ صرف نوکری حاصل کرنے تک کا سوچتے ہیں۔ زندگی میں کچھ نیا کرنے کاعزم ان میں نہیں ہوتا۔

* اللہ نے انھیں جن صلاحیتوں سے نواز رکھا ہوتا ہے، ان کی طرف دھیان نہیں دیتے۔

انڈسٹری کی کمزوریاں

* انڈسٹری میں براجمان ماہرین کی آپس میں مقابلہ بازی کی فضا قائم ہے۔جس کی وجہ سے وہ نئی نسل کی رہنمائی کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے۔

* طلبہ کو انڈسٹری سے متعارف کروانے ،سیکھنے کے مؤثر مواقع پید اکرنے اور انھیں نئے دور کے تقاضو ں سے آگاہ کرنے کے لیے انڈسٹری کی طرف سے کوئی منظم پروگرام موجود نہیں ہے۔

* انڈسٹری کے ماہرین اپنا تجربہ اوراپنا علم اپنی ذات تک ہی محدود رکھتے ہیں ۔وہ دوسروں کے ساتھ آزادانہ طور پر شیئر نہیں کرتے۔

یہ دور آئی ٹی کا ہے

یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ یہ دور مکمل طور پر آئی ٹی کا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد انسانی وسائل کی اہمیت بڑھ گئی تھی لیکن اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت کی وجہ سے روبوٹک مشینوں نے انسانوں کی جگہ لے لی ہے اور مستقبل میں اس کی شرح مزید بڑھے گی، جس سے لاکھوں انسان بے روزگار ہوجائیں گے۔ اب ایسے میں وہی کامیاب ہوگا جو آئی ٹی کی مہارت رکھتا ہو۔

دنیا ٹوجی ، تھری جی اور اب فور جی کے بعد فائیو جی کی طرف بڑھ رہی ہے۔میٹاورس کی تشکیل تیزی سے جاری ہے جواگرچہ انسان کو فطرت سے دورلے کر جائے گااور اس کی وجہ سے انسانی رویوں اور تعلقات میں دراڑیں پڑجائیں گی لیکن اس کے باجود آج بھی اس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔

نوجوانوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایسے تربیتی پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن میں انھیں انتظامی امور کی صلاحیتیں ، پیشہ ورانہ اخلاقیات، کمیونیکیشن اسکلز اور شخصیت سازی کی تربیت دی جائے تاکہ وہ بہترین انداز میں آگے بڑھ سکیں۔