• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہاں ہیں وہ اسکول جہاں بچےاسکول کے اسمبلی ہال میں لہک لہک کر پڑھتے تھے، لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری …؟

کہاں ہیں وہ والدین جو صبح سویرے بچوں کی انگلیاں پکڑ کر انہیں اسکول چھوڑنے جاتے تھے؟

کہاں ہیں وہ اساتذہ، جو بچوں کو دل جمعی سے پڑھاتے تھے؟ اور کہاں ہیں میرے پیارے وطن کے اسکول کی وہ خوب صورت عمارتیں، جن پر درج تھا، ’’ربِ زدنی علما‘‘۔

ٹاٹ، دری، چادر پر بیٹھ کر پڑھنے والے بچے تو اب بھی ہے، لیکن انہیں پڑھانے والا کوئی نہیں ہے۔ حسرت سے اسکول جاتے اور اسکولوں کو دیکھنے والے بچے بھی ہیں ۔ جب گلی گلی، محلے محلے اسکول کھلنے لگے تو غریب والدین کو یہ اُمید ہو چلی تھی کہ اب ہمارے بچے بھی اسکول کی شکل دیکھ لیں گے، لکھ پڑھ کر دو پیسے کما ئیں گے تو شاید ہمارے دن بھی بدل جائیں، مگر یہ اسکول بھی غریبوں کے لیئے نہیں تھے کہ، ان کی فیس ہی ہزاروں میں ہے۔ دو وقت کی روکھی سوکھی کھانے والے بھاری بھر کم فیس کیسے دیتے۔ 

عرصہ گزر گیا جب ’’تعلیم‘‘ صرف تعلیم تھی، اب تو یہ بھی تجارت بن گئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ، 77 برسوں میں ہماری قومی زندگی کے جس شعبے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا، وہ ’’تعلیم‘‘ ہے، جس قوم میں خواندگی کی شرح صرف چند فی صد ہو وہاں اس المیے کے ماتم گساروں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ 

نئے نئے تعلیمی اداروں کے قیام سے یہ سمجھ لینا کہ ہم تعلیمی مقاصد کو فروغ دے رہے ہیں، بڑی غلطی ہوگی۔ بے ربط تعلیم کے ذریعے یہ زعم باطل کہ ہمارا ملک تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گام زن ہوجائے گا، خام خیالی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ تعلیمی مقاصد اور نصب العین کے تعین کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ ہم جب تک ابتدائی تعلیمی مدارج پر واضح تعلیمی مقاصد متعین نہیں کرلیتے قومی ترقی اور خوش حالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ 

علم کے حصول کے لیے چاہے وہ چین جانے کی نصیحت ہو یا غزوہ بدر کے قیدیوں کے لیے کسی ایک ناخواندہ بچے کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی شرط۔۔ آج اپنی نظریاتی مملکت میں ناخواندگی کے پس منظر میں ابتدائی لازمی اور مفت تعلیم کا مطالبہ ہم سب کے لیے باعث شرمندگی ہونا چاہیے کہ ہم 77 سال بعد بھی بنیادی تعلیمی مقاصد کو سرمو آگے بڑھانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کا واحد سبب تعلیم کے بنیادی نصب العین او تعلیمی مقاصد سے روگردانی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟

21ویں صدی کو علم اور مقابلے کی صدی کہا جاتا ہے اس صدی میں وہی قومیں کامیاب ہوں گی جن کے افراد تعلیم یافتہ اور ان مہارتوں سے لیس ہوں گے جو 21 ویں صدی میں کام یابی کے لیے درکار ہیں۔ بلاشبہ تعلیم کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن پاکستان میں تعلیم کا شعبہ جن مسائل کا شکار ہے اس سے کون واقف نہیں، نہ تو ملک میں تعلیمی ادارے درست حالت میں ہیں، نہ ہی درس و تدریس کا حال ٹھیک ہے۔ 

اساتذہ کی اپنی تعلیمی قابلیت کا کوئی معیار نہیں، بالخصوص سندھ اور بلوچستان کے اسکولوں میں بچوں کو جس طرح کی تعلیم دی جا رہی ہے وہ وزرا ئے تعلیم، ماہرین تعلیم اور تعلیم سے منسلک افسران کے سوچنے کی بات ہے، کہیں اساتذہ کی کمی ہے تو کہیں گھوسٹ اساتذہ کی بھرمار، سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں کی دورخی نے تعلیم کا جنازہ نکال دیا۔

2024 میں بھی تعلیم کے نام پر کھلواڑ ہوتی رہی۔ چند دہائیوں کی تاریخ دیکھ لیں، ہر دور حکومت میں تعلیم کے نام پر مختلف منصوبے بنے، کسی نے روشنی اسکول بنائے، کسی نے پڑھا لکھا پنجاب کا نعرہ لگایا، کسی نے سندھ کو تعلیم یافتہ بنانے کے نام پر خوب کمایا لیکن کسی نے بھی تعلیم اور معیار تعلیم کے لیے کچھ نہیں کیا۔ 

خدا کرے ’’2025‘‘میں والدین کو ’’تعلیمی انقلاب‘‘ دیکھنا نصیب ہو۔ ابھی تو بات کر رہے ہیں 2024 کی، جس میں حکومت کی جانب سے بہت خوش کُن اعلانات ہوئے ، زبانی کلامی مکالموں کے ذریعے قوم کو لُبھانے کا طریقہ تو ہر دور حکومت میں سرانجام دیا جاتا رہا ہے۔ 8 ستمبر 2024 کو عالمی یوم خواندگی کے موقع پر صدر مملکت اور وزیراعظم نے اپنے اپنے پیغامات میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ، قوموں کا مقدر بدلنے میں تعلیم اور خواندگی کا اہم کردار ہے۔ 

صدر آصف علی زرداری نے کہا آئین کے آرٹیکل 25اے کے مطابق تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے، آج ہم ہر شہری کو تعلیم فراہم کرنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔ پاکستان نے ناخواندگی کے مسئلے کے پیش نظر قومی تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے،اس کا مقصد اسکول نہ جانے والے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنا اور سات کروڑ بالغ افراد کو تعلیم دینا ہے۔

صدر مملکت نے ہر خواندہ شہری سے اپیل کی ہے کہ وہ کم از کم ایک ناخواندہ شخص کو تعلیم دے۔ خواندگی میں اضافے کے لیے بے نظیر تعلیمی وظائف کی صورت میں مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے اور تمام اضلاع میں لڑکوں کے لیے 4,000 اور لڑکیوں کے لیے 4500 روپے تک سہ ماہی وظیفے دیئے جا رہے ہیں۔

اس وقت 97 لاکھ بچے بے نظیر تعلیمی وظائف پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں، نیز کم آمدنی والے خاندانوں کے طلبا کو 102,000 انڈر گریجویٹ اسکالرشپس دی گئی ہیں۔ صدر مملکت کا کہنا ہے کہ ،ہمیں تعلیم کے عالم گیر حق کے فروغ کے لیے خود کو دوبارہ وقف کرنا ہوگا۔

حیرت کی بات ہے کہ دنیا اس وقت خواندگی کے بنیادی تصور (لکھنے پڑھنے کی مہارت) سے آگے ڈیجیٹل خواندگی کی طرف بڑھ چکی ہے، ایسی دنیا میں تصور کریں کہ 2024 میں ہمارے ملک میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہرہیں، جو خواندگی کے بنیادی تصور کے دائرے میں بھی نہیں آتے یعنی جنہیں حروف لکھنا اور پڑھنا نہیں آتا۔ 

سوچیں یہ بچے جوان ہوکر بطور شہری کہاں کھڑے ہوں گے۔ ناقص تعلیمی پالیسیوں اور نصاب تعلیم کی وجہ سے تعلیمی اہلیت کے حوالے سے ہمارا معاشرہ بانجھ اور متشدد ہو گیا ہے۔ فرسودہ نصاب تعلیم پڑھ کر جو نسل ریاستی نظام کا حصہ بنتی ہے اس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام تعلیم 2024 میں بھی ملک کی ترقی میں اپنا اہم کام موثر طریقے سے انجام دینے میں ناکام رہا ہے، جس کی وجہ سےپاکستان تشدد پسندی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ 

یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ناخواندگی کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کے کم زور مالی حالات ہیں۔ بچے اسکول جانے کے بجائے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے محنت مزدوری کرتے نظر آئے۔ 

کسی بھی ملک میں ناخواندگی کا غربت، جرائم اور صحت جیسے مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ یہ ملک کی مجموعی معاشی اور سیاسی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور معاشرہ جدید ترقی سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے، جب کہ مضبوط تعلیمی نظام مستحکم سماجی اور سیاسی فریم ورک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 

لیکن ہمارا نصاب تعلیم پاکستان کوعالمی سطح کا کوئی سائنس دان، طبی ماہر اور معیشت دان نہ دے سکا۔ چند پاکستانیوں نے عالمی سطح پر نام کمایا لیکن انہوں نے بھی یورپ کے علم سے استعفادہ کیا۔ تعلیمی شعبے کے لیے ایک مضبوط مالیاتی نظام کی اشد ضرورت ہوتی ہے، جو مرد ہ تعلیمی نظام اور نصاب کو نئی زندگی دے سکے، لیکن سال گزشتہ اس جانب بالکل توجہ نہ دی گئی۔ 

نصاب تعلیم کا انحصار، ریاست کی قومی تعلیمی پالیسی پر ہوتا ہے، جس میں مستقبل کے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے، چوں کہ نصاب تعلیم قومی اہداف سے مشروط ہوتا ہے، اس لیے اس میں بھی وقتاً فوقتاً تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نہ پہلے نہ سال 2024 میں اس حوالے سے کوئی پالیسی بنی نہ اقدامات ہوئے۔ آٹھویں ترمیم کے نفاذ کے بعد نیا قومی مالیاتی ایوارڈ ’’این ایف سی‘‘ نافذ ہوا تو تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیا، تمام صوبوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ 

صوبوں نے اپنے بجٹ کا خاصا حصہ تعلیم کے لیے مختص کرنے کا اعلان کیا، صرف سندھ حکومت نے بجٹ ’’2024-25ء‘‘ میں تعلیم کے لیے454ملین روپے مختص کیے، اگرچہ صوبے کی تعلیمی ضروریات کے لیے یہ رقم کم ہے، مگر کچھ تو کیا جاسکتا ہے، مگر کرے کون۔ 

سوال تو یہ ہے، جہاں سندھ کے ’’6ہزار134‘‘ اساتذہ کبھی اسکول گئے ہی نہیں، مگر ان کے اکائونٹس میں باقاعدگی سے تنخواہیں جاتی ہیں، انہیں بچوں کو پڑھانے کی ضرورت کیا ہے، یہ ہم نہیں بلکہ محکمہ تعلیم سندھ کے ڈائریکٹر جنرل مانیٹرنگ اینڈ انسپکشن زین العابدین انصاری کا کہنا ہے، ایسے میں کیسے تعلیمی معیار بہتر ہوسکتا ہے۔ 

پاکستان میں موجودہ مالیاتی سال کے لیے تعلیم کا بجٹ1,776.2 بلین رکھا گیا ہے، جو ملک کی جی ڈی پی کا 1.77فیصد ہے، جبکہ بھارت نے12ملین ڈالر مختص کیے ہیں، یہ رقم کل بجٹ کا2.5 فیصد صد ہے، بنگلہ دیش میں حالیہ بحران کی بناء پر تعلیم کے بجٹ میں کمی کی گئی ہے، پھر بھی کل جی ڈی پی کا1.69فیصد کے قریب ہے۔ 

یونیسیکو اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ماہرین نے ہمارے حکمرانوں کو بتایا کہ صد فیصد شرح خواندگی کا مقصد حاصل کیے بغیر غربت ختم ہوسکتی ہے نہ پائیدار ترقی ممکن ہے، لیکن کوئی اثر نہ ہوا، آج خواندگی کی شرح اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

خواندگی اور مہارتوں کی ترقی ناگزیر ہے، وزیراعظم میاں شہباز شریف 

ہم ایک زیادہ باخبر اور پائیدار قوم کے لیے کوشاں ہیں۔ اس مقصد کے لیے ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کے تحت طلبا کے اندراج کی مہم اور اسکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا دینا بھی شروع کر دیا ہے۔ اسکول چھوڑنے کی شرح کم اور بچوں کو تعلیم مکمل کرنے کی ترغیب دینے کے لیے وظائف اور دیگر مراعات بھی دی جارہی ہیں۔ 

تیزی سے اُبھرتی ہوئی دنیا میں ٹیکنالوجی کے مطابق خواندگی اور مہارتوں کی ترقی ناگزیر ہے، لہذا حکومت ایک جامع منصوبہ پر عمل پیرا ہے، جس سے ٹیکنالوجی ہمارے تعلیمی نظام میں ضم ہو جائے گی، اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے نوجوان ڈیجیٹل معیشت میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ضروری مہارتوں سے لیس ہوں۔ 

نجی شعبے اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں حکومت کی ان کوششوں میں برابر کی شراکت دار ہیں۔ موثر شراکت داری قائم کرکے تعلیم کو روزگار اور خود کو روزگاری کے مواقع سے جوڑا جا سکتا ہے جس سے زیادہ مضبوط اور جامع افرادی قوت پیدا ہو سکتی ہے۔

ڈھائی کروڑ بچوں نے اسکول کی شکل نہیں دیکھی

2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔ گزشتہ سال ساتویں مردم اور گھر شماری سے پتا چلا کہ 23.37 فی صد بچے اسکول نہیں گئے، ان بچوں کی عمریں 5 سے 16 سال کے درمیان ہیں۔ 

ترقیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یونین کونسل کی سطح سے ہر بچے کو اسکول میں داخل کرانے کے لیے ان کے والدین کو وظیفہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی، بچوں کو ناشتہ، یونی فارم، کتابیں و کاپیاں فراہم کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار ہونا چاہیے، تاکہ والدین کو یہ احساس ہو کہ بچوں کو کام پر نہیں، اسکول بھیجیں گے تو ان کا مالی نقصان نہیں ہوگا۔ 

بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش وغیرہ میں حکومتوں نے غریب والدین کو اسی طرح کی مراعات دی تھیں، جس کی وجہ سے ان کے ہاں خواندگی کا تناسب بڑھ گیا۔

دنیا ا س وقت خواندگی کے بنیادی تصور (لکھنے پڑھنے کی مہارت) سے آگے ڈیجیٹل خواندگی کی طرف بڑھ چکی ہے، جہاں معلومات اور ابلاغی ٹیکنالوجی کی مدد سے تخلیقی عمل پر زور دیا جا رہاہے۔ ایسی دنیا میں سوچیں کہ ہمارے ملک میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جو خواندگی کے بنیادی تصور کے دائرے میں بھی نہیں آتے۔ 

ہونا تو یہ چاہئے کہ اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لانے کے لیے بالعموم اور بالخصوص سوشل میڈیا پر موثر مہم چلائی جاتی،فوری اور طویل المدتی اقدامات کیے جاتے، دور دراز دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی، چائلڈ لیبر سے منسلک بچوں کو اسکولوں میں داخل کرایا جاتا اور غریب طلبا کو وظائف دیئے جاتے تاکہ ان کے والدین بچوں کو اسکول بھیجتے لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا، بس جب رپورٹ آئی کہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے تو سرکاری بیانات داغ دیئے گئے کہ سب بچوں کو تعلیم سے بہرہ مند کیا جائے گا لیکن تاحال ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آیا۔

معیار تعلیم بلند کرنے کے لیے پاکستان ملٹی اسٹیک ہولڈر مشاورتی نظام اپنائے، اے ڈی بی 

پلاننگ کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے سوا ملک کے 134 اضلاع میں تعلیم کا نظام انتہائی درجے کے نقائص کا شکار ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ پاکستان میں لوگ یا تو بہت کم تعلیم حاصل کرتے ہیں یا تعلیم کے بغیر ہی جاب مارکیٹ میں داخل ہورہے ہیں۔ 

ایشیائی ترقیاتی بینک نے تو پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کردیا ہے کہ وہ معاشرے کو تعلیمی اعتبار سے بلند کرنے کے لیے وہی پالیسی اختیار کرے جو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنائی ہے۔ اس پالیسی کو ’’انڈر اسٹینڈنگ آف لائف لانگ ٹرننگ فار آل ان سوسائٹی‘‘ (یو ایل ایل اے ایس) کا نام دیا گیا۔ 

ایشیائی ترقیاتی بینک سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو تعلیمی شعبے کی بہتری یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ معیاری تعلیم و تربیت انتہائی غیر یقینی، تعلیمی نظام خرابیوں سے دوچارہے۔ اس لیے پاکستان دنیا بھر میں اپنائی جانے والی معیاری پالیسیوں کو اپنانے کی کوشش کرے اور حکومت ملٹی اسٹیک ہولڈر مشاورتی نظام اپنائے۔

 19 رکنی ایجوکیشن ٹاسک فورس کا قیام

وزیراعظم شہباز شریف نےجون 2024میں’’19‘‘ رکنی ایجوکیشن ٹاسک فورس تشکیل دی، جس کے چیئرمین وزیراعظم ہیں۔ اس فورس میں عالمی ڈونرز بھی شامل ہیں۔ 

فورس کے قیام کا مقصد تعلیمی نظام اور شرح خواندگی کے اہداف کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا تدراک ، غریب خاندانوں کے بچوں کی تعلیم، سرکاری اسکولوں کے لیے پالیسی سازی، تعلیم کے فروغ اور معیار کے حوالے سے فیصلے، ہنگامی بنیادوں پر تعلیمی پروجیکٹس کی سفارشات بھی مرتب کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ 

نیز وفاقی وزیر تعلیم ، وزیراطلاعات، انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام کے علاوہ وفاقی سیکرٹری ایجوکیشن ٹاسک فورس کے کنونیر ، صوبائی وزرائے تعلیم اور سیکرٹریز فورس کا حصہ،جب کہ ورلڈ بینک کے کنٹری ہیڈ شریک کنونیر ہوں گے، دیگر ممبران میں ایشیائی ترقیاتی بینک، کامن ویلتھ یونیسیف، ڈبلیو ایف بی، جائیکا کے نمائندے، پاکستان کے تعلیمی ماہرین وغیرہ شامل ہیں۔ 

یہ ہیں معزز اساتذہ

2024ء کی ایک خبر کے مطابق سندھ کے اسکولوں میں تعینات ’’58‘‘ اساتذہ بیرون ملک مقیم ہیں، لیکن انہیں تنخواہ باقاعدگی سے ملتی ہے۔ یہ انکشاف بھی اس وقت ہوا جب محکمہ تعلیم سندھ میں6ہزار، 142، گھوسٹ اساتذہ کا علم ہوا۔ ڈائریکٹر جنرل مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن نے ایف آئی اے سے تصدیق شدہ اساتذہ کی رپورٹ سیکریٹری تعلیم کو بھیج دی ہے، شاید2025ء میں ان اساتذہ کے خلاف کوئی کارروائی ہو یا پھر ان کو تنخواہ ملتی رہے گی۔

مانیٹرنگ ایوا ایویشن ڈیپارٹمنٹ نے ایک اور رپورٹ سیکریٹری تعلیم کو بھیجی ہے، جس کے مطابق42ہزار اسکولوں میں2ہزار560اسکول مستقل بند اور 5 ہزار کی حالت انتہائی خستہ ہے، جبکہ48فیصد طالب علم گزرے سال اسکولوں سے غیر حاضر رہے۔ 

رپورٹ کے مطابق بدین میں 140، دادو میں 67، ٹھٹھہ میں194، میرپورخاص میں172، سانگھڑ میں433، جیکب آباد میں171، شکارپور میں72، خیرپور میں138، کشمور میں 171اسکول مکمل طور پر بند ہیں، جبکہ 40فیصد اسکولوں میں چہار دیواری نہیں، 60فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی کا مسئلہ، 28فیصد میں واش روم کی سہولت نہیں اور 65 فیصد اسکولوں میں بجلی نہیں ہے۔ ایسے میں بچے کیا پڑھیں گے، اساتذہ کیا پڑھائیں گے؟

صوبہ سندھ میں پاکستان کی پہلی ’’ٹرانس جینڈر ایجوکیشن پالیسی‘‘ کا ڈرافٹ تو منظور ہو گیا لیکن۔۔۔

وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ نے ایک اجلاس میں پاکستان کی پہلی ’’ٹرانس جینڈر ایجوکیشن پالیسی‘‘ کا مسودہ منظور کرالیا۔ سندھ کے اسکولوں اور کالجوں کے داخلہ فارم میں مرد اور خواتین کے خانے کے ساتھ ٹرانس جینڈر بچوں کے لیے بھی خانہ شامل کرنے اور اساتذہ کی بھرتیوں میں کوٹہ مختص کرنے کو بھی پالیسی کا حصہ بنایا گیا۔ 

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعلیم کے حوالے سے کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ ان کو اکثر معاشرتی سطح پر تعصب اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کی تعلیم تک رسائی میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ تعلیم کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ انہیں روزگار کے بہتر مواقع نہیں ملتے، تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے ڈر کی وجہ سے یہ تعلیم حاصل کرنے میں بھی ہچکچاتے ہیں۔ 

وزیر تعلیم سندھ کے مطابق پالیسی کو ٹرانس جینڈر افراد کی حفاظت، شناخت اور تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو ٹرانس جینڈر بچوں کی شناخت، نفسیاتی ضروریات ، تعلیمی چیلنجز سے آگاہ کرنے کے لیے تربیت اور ہنر سکھائے جائیں گے۔