دورِ جدید میں ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل اور گیمز کی بھرمار کی وجہ سے بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا نہایت کٹھن ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ بچوں میں مختلف نفسیاتی مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ اس کے تدارک کیلئے ماہرین نفسیات بچوں کے لئے مطالعے کو لازمی قرار دے رہے ہیں کیونکہ اچھی کتابوں کا مطالعہ شعور بیدار کرنے کےساتھ ساتھ بچوں کو بے معنی مشاغل سے دور رکھتاہے۔
اس ضمن میں سب سے اہم کردار والدین ہی ادا کرسکتے ہیں۔ جونہی بچے سیکھنے اور پڑھنے کی عمر کو پہنچیں تو والدین کو چاہیے کہ انہیں اچھی اور مفید کتابیں لا کر دیں۔ یہ کتابیں کہانیوں کی ہوسکتی ہیں کیونکہ بچوں کو کہانیاں سننا اور پڑھنا بہت پسند ہوتاہے۔
اب وہ وقت بھی نہیں رہا کہ گھر کی نانیاں اور دادیاں بچوں کو رات سوتے وقت سبق آموز کہانیاں سنائیں۔ ماؤں کا بھی کم و بیشتر وہی حال ہے کیونکہ ان کا بھی رات کا وقت موبائل یا ٹی وی کے سامنے گزرتا ہے۔ والدین جو کچھ کرتے ہیں بچے اسی پر عمل کرتے ہیں، اسی لیے انھیں اپنی مثال قائم کرتےہوئے فارغ اوقات میں ٹی وی کےسامنے بیٹھنے یا فون پر مصروف ہونے کے بجائے کسی رسالے یا کتاب کے مطالعے میں وقت صرف کرنا چاہیے۔ ان کی دیکھا دیکھی بچے بھی لاشعوری طور پر اس روش کواپنائیں گے اور انہیں ادراک ہوگاکہ فارغ اوقات میں سب سے بہترین چیز مطالعہ ہی ہے۔
ایک مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسکول جانے سے قبل بچوں کو اگر باقاعدگی سے مطالعہ کروایا جائے یا انہیں کہانیاں پڑھ کر سنائی جائیں تو اس کا ان پر مثبت اثر پڑتا ہے اور ان کی بول چال بھی درست ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں معلومات حاصل کرنے اور اسے صحیح جگہ استعمال کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
اس مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ والدین یا گھر کے بڑے افراد بچوں کو باقاعدگی سے مطالعہ کرواتے ہیں یا اس حوالے سے ان کی مدد کرتے ہیں تو بچوں کو معلومات کو سمجھنے اور زبان کی مہارتیں بڑھانے میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ (نوٹ: یہ مطالعہ آٹھ ماہ پر مشتمل تھا، اس میں جن بچوں کی مطالعے کی عادت کو پرکھا گیا، ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ان بچوں کے مقابلے میں زیاد ہ تھیں جنہیں بالکل بھی مطالعہ نہیں کروایا گیا تھا یا انہیں کتابوں والا ماحول نہیں ملا تھا۔)
نیوکاسل یونیورسٹی کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے دنیا بھر میں 40سال کے دوران شائع ہونے والی16مختلف اشاعتوں کا جائزہ لیا۔ یہ جائزہ ان والدین پر مشتمل تھا جو اپنے بچوں کو کتابوں یا ای بُکس کے ذریعے کہانیاں پڑھ کر سناتے تھے۔ ان کے بچوں کی اوسط عمر39ماہ تھی اور یہ والدین امریکا، ساؤتھ افریقا، کینیڈا اور چین سے تعلق رکھتے تھے۔
اس جائزے کے نتائج سامنے آئے کہ بچوں کو مستقل بنیادوں پر مطالعہ کروانے کے سبب ان کے ذریعہ اظہار کی صلاحیتیں ابھر کر سامنےآئیں اور وہ اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنانے لگے۔ سب سے بڑا اثر بچوں کی زبان (لینگویج) کی مہارتوں پر پڑا اور وہ معلومات کو آسانی سے ہضم کرنے کے قابل ہونے لگے۔
اس تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور نیوکاسل یونیورسٹی کے اسپیچ اینڈ لینگویج سائنٹسٹ جیمز لاء کا کہنا ہے، ’’ ہم جبکہ پہلے ہی جانتے تھے کہ پڑھنے کی عادت بڑے بچوں میں ان کی ڈیویلپمنٹ اور بعد میں آنے والی تدریسی کارکردگی کیلئے بہت فائدہ مند ہوتی ہے، لیکن آٹھ ماہ پر مشتمل اس تحقیق نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ پانچ سال سے بھی کم عمر بچوں میں آٹھ مہینے کے اندر لینگویج کی مہارتوں کا فرق بہت واضح ہے‘‘۔
ڈاکٹر جیمز لا ء مزید کہتے ہیں،’’ماہرین اور ماہر تعلیم رفاہ عامہ کے اداروں پر زور دیتے آئے ہیں کہ وہ والدین میں مطالعہ کے رحجان کو فروغ دیں۔ اس سلسلے میں کئی اقدامات بھی کئے گئے لیکن ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کتابیں پڑھنے سے ان پر زبردست اثر ہوتا ہے۔ اس لئے ڈاکٹروں اور دیگر پبلک ہیلتھ پروفیشنلز کو بھی چاہئے کہ وہ والدین کو بچوں کے ساتھ کتابیں پڑھنے پر راغب کریں۔ اس عمل سے انھیں اپنے بچوں کی نشوونما میں واضح فرق محسوس ہوگا‘‘۔
مطالعہ اور شخصیت سازی
٭ دن میں 15منٹ کا مطالعہ بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں سالانہ دس لاکھ سے زائد الفاظ کا اضافہ کرسکتا ہے۔
٭ آمنے سامنے بیٹھ کر مطالعہ کرنے والے بچوں کا IQ لیول دوسرے بچوں کی نسبت 6پوائنٹ زیادہ ہوتا ہے۔
٭ بنیادی تعلیم حاصل نہ کرنے والے بچوں میں اسکول سے بھاگنے کی شرح مطالعہ کرنے والے بچوں کی نسبت تین سے چار گنا زیادہ ہوتی ہے۔
٭ امریکی محکمہ تعلیم کے ایک سروے کے مطابق، مطالعہ کرنے والے بچوں میں اعتماد، یادداشت اور قائدانہ صلاحیتیں زیادہ ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں بھی بچوں کے مزاج اور رحجانات کے مطابق کتابوں کی کمی نہیں ہے۔ رنگ برنگی، باتصویر اور رنگ بھرنے والی کہانیوں کی کتابیں بچوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں، اسی لئے ان کے منہ میں فیڈر دینے کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ میں کتاب بھی تھمادیں تو یہ ان کیلئے بہت بہتر ہوگا۔ بچہ تھوڑا بڑا ہوجائے تو اسے اپنے ساتھ لائبریری لے جائیں۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے۔
ہر طرف کتابیں دیکھ کر بچہ نہ صرف خوش ہوتا ہے بلکہ اپنے مزاج اور رحجان کے مطابق کتابوں کا انتخاب کر کے اپنی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کرسکتا ہے۔ موبائل اسکرین سے دور بچوں کی آنکھیں بھی راحت میں رہیں گی اور ذہنی سکون کے باعث نفسیاتی عوارض سے بھی بچا جاسکے گا۔