پاکستان شرح خواندگی 46 فیصد ہے جس میں سے 26 فیصد لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں۔ ملک میں تقریباً 60 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو کہ ہزاروں روپے فیسیں نہ ہونے پر بچوں کو ’’بہتر‘‘ تعلیم دلانے سے قاصر ہیں۔ تعلیمی شعبے کے لئے جو قلیل سی رقم مختص کی جاتی ہے اس کا بھی انتہائی قلیل سا حصہ حقیقت میں خرچ ہوتا ہے۔
پاکستان میں 1 لاکھ 63 ہزار پرائمری ا سکول موجود ہیں جن میں بیشتر کلاس رومز، فرنیچر، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق ڈھائی کروڑ بچےا سکول سے باہر ہیں اور 5 کروڑ 20 لاکھ لوگ پڑھ لکھ نہیں سکتے۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم کا موازنہ کیا جائے تو پرائیویٹ اسکولز اچھی تعلیم اچھے خاصے پیسوں سے ہی دیتے ہیں۔ معیار تعلیم کی طرف دیکھا جائے تو موجودہ نصاب کی کتب میں پرانی تحقیقات ہی ملیں گی۔ عموماً طالبعلم نئی تحقیقات سے ایک عرصہ درازتک ناواقف ہی رہتے ہیں جبکہ نصاب کا تقابل ترقی یافتہ ممالک کے نصاب سے کیا جائے تو معاملہ الٹ ہی ہوگا۔
ان تمام باتوں سے ہٹ کر اگر آج علم دوست شاگرد یا اُستاد مل جائیں، جو ڈھونڈے سے نہیں ملتے، تو اُس دن آپ کہہ سکتے ہیں کہ علم کے قدر دان یہاں بھی موجود ہیں۔ تعلیمی مقاصد تو نئی ایجادات، تحقیق اور موجود ہ مسائل کا حل پیش کرنے کا نام ہے، جس کی تعریف آج کل ڈگریاں، تعلیمی اخراجات کی رسیدیں، حاصل کرکے نوکری تلاش کرنا ہی رہ گیا ہے۔ ایسے تعلیمی نظام سے ہم غاروں کے دور میں تو جا سکتے ہیں، مگر عالمی سطح پر کوئی خاطر خواہ ایجادات نہیں کر سکتے۔
یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد صرف 2فیصد ہونےکی سب سے بڑی وجہ فیسوں کا زیادہ ہونا ہے۔ اگر ایک طالبعلم کسی شعبہ میں داخلہ لینے کا خواہش مند ہے تو ہزاروں روپے سمسٹر فیس ہونے کی وجہ سے وہ داخلہ لینے سے قاصر ہوتا ہے۔
پڑھائی کو مزید جاری رکھنے کے لئے بیشتر طلبہ نوکری کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالبعلم کا دماغ بٹ جاتا ہے جو کہ ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ کی حالت زار یہ ہے کہ ڈگریاں مکمل کرنے کےباوجود بیروزگاری ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہوتی ہے۔
اسی طرح ملک کے بیشتر پڑھے لکھے افراد روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بیرون ممالک کا رخ کرتے ہیں اور کم تنخواہوں پر بھی کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم نہیں دی جاتی محض تعلیم پر خرچ کی جانے والی رقم کا حساب رسیدوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
نوکری نہ ملنے کی وجہ سے پڑھے لکھے بے روزگار گھر والوں اور باہر والوں کے طعنوں کی زد میں آ جاتے ہیں، جس سے اُنہیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ نقص کہیں آپ کے اندر ہے یا انہیں قسمت کے اناڑی سمجھنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
تعلیم کا شعبہ سماج میں انسانوں کے عمومی معیار زندگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک بچہ تب ہی پڑھ سکتا ہے جب اس کے پیٹ میں روٹی ہو، بیمار ہونے کی صورت میں اس کو درست اور بر وقت علاج میسر ہو، پہننے کو کپڑے ہوں، رہنے کو مناسب رہائش ہو۔
زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر تکمیلِ ذات کے مواقع اس نظام نے بالادست طبقے کے لئے مختص کر دئیے ہیں۔ محنت کشوں کے بچے پڑھیں گے کیا ان سے تو ان کا بچپن ہی چھین لیا گیا ہے۔ فیض نے انہی کروڑوں بچوں کا ذکر اپنے ’’انتساب‘‘ میں یوں کیا تھا:
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لئے، ہاتھ پھیلائے
پہنچے مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
جو معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ ، بے انت راتوں کے سائے
یہ اندھیرے نسلِ انسان کا مقدر نہیں ہیں۔ نئی نسل کو اپنی تقدیر خود لکھنے کی فیصلہ کن جنگ لڑنا اور جیتنا ہو گی۔ تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر انقلاب کی ضرورت ہے۔