• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان جب سے اقتدار سے محروم ہوئے ہیں، اُن کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ پاک فوج اور انٹیلی جنس افسران کے خلاف اشتعال انگیز، سنسنی خیز پروپیگنڈے اور جھوٹے الزامات لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حال ہی میں ان کی جانب سے انٹیلی جنس کے حاضر سروس اعلیٰ افسر پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات میں وہ شدت دیکھنے میں آئی کہ وہ اس وقت تمام حدود پار کرگئے جب گزشتہ دنوں انہوں نے آئی ایس آئی کے ایک اعلیٰ افسر کا نام لے کر اُن پر یہ سنگین الزام عائد کیا کہ ’’اس نے مجھے دو بار مارنے کی کوشش کی اور یہ افسر ارشد شریف کے قتل میں بھی ملوث ہے۔‘‘

عمران خان کے بغیر ثبوت سنگین الزامات نے نہ صرف فوجی قیادت بلکہ ہر محب وطن پاکستانی کو حیرانی اور صدمے سے دوچار کردیا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ جب ملکی سلامتی کے ادارے کو اتنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو جس کے دفاع میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جنرل فیصل نصیرپر اس طرح کے الزامات لگانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہ ناقابل برداشت ہے، عمران خان سیاسی فائدے کی خاطر پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی کو بدنام کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے بھی عمران خان کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی اداروں کو بدنام کرنے کی سازش نے اُن کا حقیقی چہرہ بے نقاب کردیا ہے اور اب کوئی محب وطن پاکستانی اُن کی پیروی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ عمران خان کے بیان پر پاک فوج کا بھی سخت ردعمل سامنے آیا اور آئی ایس پی آر نے حاضر سروس فوجی افسر پر بغیر ثبوت الزام کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ادارہ بدنیتی پر مبنی بیانات پر قانونی کارروائی کا حق رکھتا ہے۔

عمران خان کا ایک اعلیٰ حاضر سروس افسر پر الزام لگانے کا اصل مقصد ملک کی پریمیر ایجنسی کو بدنام کرنا اوراسکی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے جس پر دشمن ملک بھارت میں خوشی کا سماں ہے اور بھارتی میڈیا عمران خان کے فوج مخالف بیانات کو مرچ مسالہ لگاکر پیش کررہا ہے جبکہ بھارتی تجزیہ نگار مختلف ٹی وی چینلز پر پاک فوج کے خلاف تجزیئے پیش کررہے ہیں۔ اسی طرح کے ایک تجزیئے میں ’’را‘‘ کا ایجنٹ بھارتی تجزیہ نگار میجر گورے آریا ایک ٹی وی چینل پر کہہ رہا ہے کہ ’’پاکستان کی آرمی فوج نہیں بلکہ ایک گوند (Glue) کی مانند ہے جس نے پاکستان کے عوام کو جوڑ رکھا ہے، اگر عمران خان کے فوج مخالف منفی پروپیگنڈے سے پاک فوج کمزور ہوتی ہے تو پاکستانی قوم بھی تتر بتر ہوجائے گی اور پھر پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا، اُس کے بقول عمران خان بھارت کا مشن پورا کررہا ہے جس پر بھارت کو عمران خان کا احسان مند ہونا چاہئے۔‘‘ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ عمران خان نے سینئر پارٹی رہنمائوں پر یہ واضح کردیا ہے کہ ’’اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو آرمی کی اعلیٰ قیادت کو فارغ کردیں گے۔‘‘ اس سے قبل عمران خان کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ’’اب عوام کو میانمار یا ترکی میں سے ایک ملک کا انتخاب کرنا ہوگا۔‘‘ اس طرح کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان عوام کو فوج کے خلاف ترغیب دے کر ملک دشمن طاقتوں کے عزائم پورا کررہے ہیں۔

عمران خان نے ملکی سلامتی کے ادارے کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اتنا دشمن بھی نہیں پہنچا سکا۔ انہوں نے جس آرمی آفیسر کی کردار کشی اور ان کی ذات پر براہ راست حملے کئے ہیں۔ ان کا شمار پاک فوج کے Decorated، بہادر، شریف النفس اور اچھے افسران میں ہوتا ہے جس پر پاک فوج کو فخر ہے۔ ماضی میں جب کراچی دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا، یہی قابل افسر ملٹری انٹیلی جنس میں خدمات انجام دے رہے تھے اور شہر میں امن کے قیام میں ان کا اہم کردار ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں پوسٹنگ کے دوران بھی انہوں نے علیحدگی پسندوں اور ملک دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا۔ المیہ یہ ہے کہ حاضر سروس فوجی افسر ہونے کے ناطے وہ براہ راست اپنا دفاع کرنے اور عمران خان کو منہ توڑ جواب دینے سے قاصر ہیں اور تحمل و برداشت سے کام لے رہے ہیں جس کا عمران خان فائدہ اٹھارہے ہیں۔،ان کو چاہئے کہ وہ بلاتاخیر عمران خان کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں ہتک عزت (Defamation) کا دعویٰ دائر کریں اور عدالت سےانکی زباں بندی (Restraining Order) کے احکامات حاصل کریں تاکہ عمران خان کی زبان کو لگام دی جاسکے۔

پاکستان میں ہتک عزت کے مقدمات کا فیصلہ آنے میں برسوں لگ جاتے ہیں مگر برطانیہ کی عدالتیں اس طرح کے کیسز کا فیصلہ بہت جلد سنانے میں مشہور ہیں۔ عمران خان کے انٹیلی جنس ادارے کے اعلیٰ افسر پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات پر مبنی بیانات نہ صرف پاکستان بلکہ برطانیہ میں بھی دیکھے گئے اور یہ مواد انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے، وہ ہتک عزت کیس کیلئے برطانوی عدالت سے رجوع کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں اور برطانوی عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں عمران خان پر نہ صرف بھاری جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے بلکہ اُنہیں معافی بھی مانگنا پڑ سکتی ہے جس سے اُن کا حقیقی چہرہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں بے نقاب ہو جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین