• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کا ذکر بیسویں صدی کے اوائل میں محض سائنس فکشن میں ہوتا تھا۔ اس صدی میں معروف برطانوی مصنف ایچ جی ویلز کا نام بہت مشہور تھا، اس نے تاریخ، معاشرت، سیاست معیشت پر بہت لکھا اور برطانیہ میں سوشلسٹ تحریک کی بھی حمایت کی، مگر ایچ جی ویلز کو زیادہ شہرت اس کی سائنس فکشن تحریروں کی وجہ سے ملی۔ ویلز نے ٹائم مشین، ڈریکولا اور روبوٹس پر بہت کچھ لکھا، بعدازاں روبوٹ اور مصنوعی ذہانت پر ایک بڑے طبقہ نے دلچسپی دکھائی۔

گزری صدی کے چوتھے ،پانچویں عشرے میں روبوٹ پر کام شروع ہوچکا تھا۔ مگر 1980ء کے عشرے میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے کام مزید آگے بڑھتا گیا۔ معروف امریکی سائنسی ادارے ایم آئی ٹی نے کئی قدم آگے جاکر کمپیوٹر کی زبان اشارے اور اصطلاحیں ترتیب دے کر بہت بڑا کام کیا ، آج بھی کمپیوٹر کی وہی زبان اور اصطلاحیں امریکی سائنسی اداروں میں استعمال ہوتی ہیں۔

1950ء میں امریکی سائنس دان نے لکھا تھا کہ کیا مشین سوچ سکتی ہے، اس سائنس دان کا نام ایلن ٹرنینگ تھا۔ بعدازاں یہ بات عام ہوگی کہ مصنوعی ذہانت جو کمپیوٹر پروگرام کے تحت روبوٹ میں ڈال دی جائے گی جو انسانوں جیسا عمل کرے گا انسانوں کی طرح سوچ سکے گا۔ اس ضمن میں امریکہ سمیت بعض یورپی ممالک کے سائنسی اداروں نے کام شروع کیا اس طرح گزرے ساٹھ ستر برسوں میں مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹ دنیا میں عام ہو چکے ہیں۔ وہ بوٹ کار چلا سکتا ہے۔ 

طیارہ، بحری جہاز کنٹرول کرسکتا ہے۔ مشینوں پر کام کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ طبی قانونی اور کاروباری مشورے دے سکتا ہے۔ بینکنگ کے نظام کو بھی چلاسکتا ہے غرض دنیا کے نوے فیصد کام وہ کر سکتا ہے۔ اس طرح متعلقہ ادارے ہر دن درجنوں روبوٹس تیارکرنے میں مصروف ہیں۔ فیکٹریوں، کارخانوں، دفاتر میں غرض شعبہ ہائے زندگی کے تقریباً شعبوں میں روبوٹس کام کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایک ہزار اہلکاروں کی جگہ صرف دس روبوٹس کام کرتے ہیں تو وہ ایک ہزار اہلکار محنت کش ہنرمند بے روزگار ہوگئے، یہ پہلا خطرہ ہے جو مغرب میں منڈلا رہا ہے۔

نفع کے لالچ میں کارخانہ مالکان نے روبوٹس سے کام کرانا شروع کردیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مغرب میں روبوٹس کا کردار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ انسانی دماغ کے مساوی کام کرنے والا روبوٹ اب انسانی دماغ اور اعصاب کو بھی شکست دیتا نظرآتا ہے۔ اس لئے بیش تر ماہرین مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس سے خائف نظرآنے لگے ہیں۔ چونکہ اب بہت سے سائنسی تحقیقی ادارے اورکمپیوٹر پروگرامنگ کرنے والے ادارے اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس تیار کرنے اور ایڈوانس پروگرامنگ پر کام کررہے ہیں۔

اب جو سپر کمپیوٹر تیار ہوئے ہیں ان کی کارکردگی دیکھ کر انسانی عقل حیران اور دنگ رہ جاتی ہے۔ اس طرح ایک تو اداروں کے مابین مسابقت چل رہی ہے ہر ادارہ ایک سے بڑھ کر ایک سوفٹ ویئر اور پروگرام تیار کر رہا ہے ایسے میں جو روبوٹس آرہے ہیں۔ وہ ایک سے بڑھ کرایک مصنوعی ذہن رکھنے والا ہے۔ ایسے روبوٹ تنوع تبدیلی ترقی اور نئی سوچ اور تیز رفتاری میں یکتا ہیں۔ برسبیل تذکرہ ساٹھ کے عشرے میں معروف افسانہ نگار ناول نگار کرشن چندر نے روبوٹ کے حوالے سے ایک شاہکار افسانہ لکھا تھا۔ 

اس میں انہوں نے بتایا کہ ایک امیر ترین شخص نے گھریلو کام کاج کے لئے ایک روبوٹ خریدا جو گھر کے سارے کام کرتا ،وہ مالک کا وفادار تھا۔ مالک کی ایک جوان بیٹی تھی ایک دن اس روبوٹ نے اس لڑکی سے اظہار محبت کی کوشش کی جس پر لڑکی خوف زدہ ہوگئی اور اس نے اپنے باپ سے اس کی شکایت کی۔ مالک نے روبوٹ کو بہت برا بھلا کہا اس پر روبوٹ نے ایک ہی با ت بار بار دہرائی کہ مجھے اس سے عشق ہو گیا ہے یہ کہانی ستر اسی برس پہلے لکھی گئی تھی مگر اب بازار میں طرح طرح کے غلام روبوٹس آگئے ہیں اگر کوئی ملک چاہے تو وہ روبوٹس کی فوج بناکر اپنے دشمن پر حملہ کر سکتا ہے۔

دنیا کی امیر ترین شخصیت ایلن مسک نے کھلے خط کے ذریعے اپنے شدید خدشات کا ذکرکرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس کسی بھی مشینی الیکٹرونک غلطی یا خرابی کے باعث کسی روبوٹ کا پروگرام متاثر ہوسکتا ہے۔ دہشت گردی کرنے کے خواہاں گروہ روبوٹس کو استعمال کرسکتے ہیں۔ ایلن مسک کا کہنا ہے کہ ماہرین اورکمپیوٹر سائنس دان جو بھی دعویٰ کریں مگر ذرا سی غلطی بہت بڑے مسئلے کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک اَن دیکھا مگر متوقع خطرہ ہم سب کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ یہاں تک کہ خدشہ ہے کہ پوری انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ 

ایلن مسک کے کھلے خط اور ان کے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے خدشات کی بدولت دنیا میں تہلکہ مچا ہوا ہے۔ بیش تر سائنسی تحقیقی اور کمپیوٹر پروگرامنگ کے اداروں نے فی الفور کام روک دیا ہے اور ادارے بند کر دیئے ہیں۔ بیش تر ماہرین ایلن مسک کے خدشات سے متفق دکھائی دے رہے ہیں ان سب کا کہنا ہے کہ جب تک انسان کو یہ یقین نہ آجائے کہ وہ روبوٹس کو اور مصنوعی ذہانت پرمکمل دسترس حاصل نہیں کرلیتا اور اس کو یہ یقین نہیں ہو جاتا کہ مصنوعی ذہانت ہرطرح کے رسک اورخدشات سے پاک ہے۔ اس وقت تک اس کو ترقی دینے اور کام مزید آگے بڑھانے سے اجتناب برتنا چاہئے اس کرہ ارض پر آباد تمام جانداروں کی سیکورٹی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔

سوال یہ ہے کہ ایلن مسک کون ہے ،جن کی بات کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے۔ ایلن مسک دنیا کاامیر ترین فرد اور،معروف ملٹی نیشنل کمپنی تسلا اور خلائی ایکس کا مالک ہے ۔تسلا کمپنی محض ایک ادارہ یا فیکٹری نہیں ہے بلکہ یہ کمپنی تین براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے، جن میں ایک لاکھ سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں، ان میں سائنس دان، انجینئرز، ڈاکٹرز، پروفیسر،کاریگر اور ماہرین شامل ہیں۔ تسلا کمپنی الیکٹرک کاریں، سولر انرجی سولر بیٹری اور حساس الیکٹرانک کا سامان کمپیوٹر وغیرہ تیار کرتی ہے ایلن مسک کی دوسری معروف کمپنی خلائی ایکس کمپنی کے نام سے مشہور ہے یہ کمپنی صرف خلائی تحقیق پر کام کرتی ہے۔ حال ہی میں ایلن مسک سمیت ایک سو مسافر خلائی کمپنی ایکس کے خلائی جہاز میں دنیا کا چکر لگا کر آئے ہیں اس کے علاوہ مذکورہ کمپنی سیارہ مریخ اور چاند پرخلائی اسٹیشن تعمیر کرنے پر بھی کام کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ ایلن کی خلائی کمپنی ایکس سے بہت پہلے ہی سے ناسا جو امریکی خلائی تحقیق کا سب سے بڑا اور فعال ادارہ ہے سیارہ مریخ پر کام کر رہا ہے۔ ناسا نے بتایا ہے کہ وہاں خلائی اسٹیشن کی تعمیر کا م بھی شروع کردیا ہے۔ اب ایلن مسک کی خلائی تحقیق کی کمپنی ایکس بھی خلائی سفر کے پروگرام سمیت بتایا جاتا ہے کہ چاند اور مریخ پرتحقیق کررہی ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک کمپنی سیارہ مریخ پر امیر ترین لوگوں کو پلاٹ بھی فروخت کر رہی ہے۔ اس مسئلہ پر خاصا اختلاف رائے ہے،مگر جن امیر ترین شخصیات کے پاس کثیر سرمایہ ہے وہ اس طرح کے چونچلے بہت پسند کرتے ہیں تاکہ ان کی شہرت ہو۔

ایلن مسک یا ان جیسے سوچ رکھنے والے امریکیوں کا کہنا ہے کہ گزرے تین برسوں میں بعض کمپیوٹر پروگرامنگ کرنے والے یا سوفٹ ویئر تیار کرنے والے اداروں نے ’’تیز دماغ‘‘ نامی سوفٹ ویئر تیار کر لیا ہے جس کو مزید ترقی دی جا رہی اور پروگرامنگ کی جارہی ہے۔ تیز دماغ نامی سوفٹ ویئر اب تک کی مصنوعی ذہانت کی ایجادات کا شاہکار سوفٹ ویئر ہے جو ہر مسئلے میں کام آتا ہے، اس میں انسانی شعور اور احساس کو یکجا کرنے کی بھی سعی کی گئی ہے۔ یہ سوفٹ ویئر سائبر کرائم کی روک تھام بھی کر سکتا ہے۔ زمین یا خلاء میں ہر پروگرام کو سیکورٹی فراہم کرتا ہے۔ 

اس پروگرام کو تیار کرنے کا سلسلہ 1980ء کے عشرے سے جاری تھا کمپنی نے اپنے کمپیوٹر پروگرام کو روبوٹ میں ڈال کر اس وقت کے شطرنج کے عالمی چیمپئن گیری کا سپروف کو شکست دے کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈبو دیا تھا۔ یہ پروگرام تیزدماغ اب ہر طرح سے مکمل ہے کام کر رہا ہے۔ اس پروگرام کو گوگل نے کمپنی سے 400 ملین ڈالر میں خرید لیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حامل مزید پروگرام آئی بی ایم اور واٹسن کمپنی تیار کر رہی ہے جس میں زیادہ توجہ اس پر دی جارہی ہے کہ جس طرح انسانی دماغ مشکل اوقات میں مشکل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے، کس طرح اپنے اعصاب پر قابو رکھتا اور ٹھنڈے دماغ سے صورت حال کا تجزیہ کرنے کی کوششیں کرتا ہے۔

کس طرح سیکھتا ہے اورکس طرح اس پر عمل کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسا پروگرام بھی ترتیب دیاجا رہاہے، جس میں مصنوعی ذہانت کے ذریعہ اشارے ، تھیوری، منطق اور جی پی ایس پروگرام کے ملاپ کے ذریعہ امریکہ کی میلن یونیورسٹی مشینی زبان تیار کررہی ہے۔ قبل ازیں معروف سائنسی ادارے ایم آئی ٹی نے پروگرامنگ کی زبان تیار کی تھی جس میں تمام اشیاء ، مصنوعات اور دیگر چیزوں کی طویل فہرست تھی جس کو حروف تہجی کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا۔ 

اس حوالے سے امریکی پرسٹن یونیورسٹی کے تحقیقی ادارے نے مذکورہ پروگرام میں جو رکاوٹیں یا کمی رہ گئی تھی ان کو دورکردیا اس طرح مذکورہ پروگرامنگ میں فیصلے کرنے صلاحیت بھی شامل کردی جیسا کہ بالائی سطور میں عرض کیا گیا ایلن مسک نے دوبئی میں حالیہ عالمی حکومت کے ایک اجلاس میں یہ کھلا خط پیش کیا تھا جس میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

مغربی ممالک کے بیش تر سائنس دان اور سوفٹ ویئر ماہرین ایلن مسک کے خیالات اور خدشات سے پوری طرح متفق ہیں اور اس سے انکار نہیں کرتے، مگر بعض حلقے ایلن کے خدشات اور اس کے اظہار کو محض ایلن مسک کا پبلسٹی اسسٹنٹ قراردیتے ہیں۔ یہ اختلاف رائے دنیا میں ازل سے چلا آرہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سقراط جیسے فلسفی کو زہرکا پیالہ نہ پینا پڑتا۔ ایلن مسک نے جو کہا ہے وہ بالکل درست ہے۔

حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح بھارتی میزائل پاکستان کے علاقے میں آکر گرا۔ اس حوالے سے بھارتی وزارت دفاع کا مؤقف تھا کہ کمپیوٹر کی غلطی سے ایسا ہوا۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ بھارت نے جان بوجھ کر میزائل چلایا ہے۔ اس حوالے سے جو بھی درست ہو مگر کمپیوٹر کی غلطی سےکر سکتا ہے۔ یہی مؤقف ایلن مسک کا ہے جو کسی طور غلط نہیں مانا جارہا ہے۔ اکثریت نے ایلن کے دلائل کو تسلیم کرلیا ہے۔

آئی بی ایم اوردیگر دوکمپنیاں مزید ایک جامع سوفٹ ویئر تیار کررہی ہیں جو رموز تجارت کو بخوبی سمجھتا ہو۔ کاروباری مسائل کو ازخود حل کرنے اور بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو چونکہ تجارت کا میدان بہت وسیع ہے اس لئے کمپیوٹر پروگرامنگ بھی مختلف طریقے سے کی جارہی ہے۔ اس میں تمام اہم اشیاء شامل ہیں۔ منڈی کی بدلتی صورتحال ، اشیاء کے بھائو اُتار چڑھائو طلب، رسد اور مارکیٹ میں مسابقت کے لئے جدت اور تنوع کی ضرورت بھی شامل ہے۔

اس حوالے سے آئی بی ایم، ایپل، ایمزون، واٹسن، الیکس اورگرین ویلی کمپنیاں ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور بہتر سے بہتر پروگرام بازار میں لانے سوفٹ ویئر تیار کرنے میں محو ہیں۔ انہیں دیگر حساس معاملات کا ادراک ہے مگر منافع اور لالچ کی پٹی آنکھوں اور ان کے ذہنوں پرچھا چکی ہے۔ ایلن مسک نے مصنوعی ذہانت کے فوائد سے کبھی انکار نہیں کیا مگر ان خدشات یا خطرات کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کررہا ہے کہ مشین ہر صورت مشین ہے اس میں کوئی خرابی ہو سکتی ہے۔ اس میں غلط اطلاع یا محض افواہ فیڈ کی جاسکتی ہے۔ 

جبکہ معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکن کہتا ہے کہ کسی کی بھی شرارت یا منفی عمل سے یہی مشین پوری انسانی نسل کو تباہ کرسکتی ہے۔ بیش تر ماہرین اور ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ کون انکار کرسکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت بیروزگاری میں اضافہ نہیں کررہی ہے۔ ہتھیاروں کے کنٹرولنگ نظام میں ذرا سی غلطی یا کوتاہی سے دنیا انہی ہتھیاروں سے تباہ کرسکتی ہے۔ ایک طرح سے بعض ماہرین مصنوعی ذہانت کو دو دھاری تلوار سے بھی تشبیہ دیتے ہیں۔ بیش تر ماہرین دانشوروں کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت گزری سرد جنگ کی باقیات میں سے ایک توانا حربہ ہے جو فرد کی نجی سیاسی ،معاشی، سماجی غرض تمام سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے، گویا فرد کی سوچ یا سرگرمی پر ایک طرح کی واچ ہے۔ 

ان میں سے بیش تر کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت مصنوعی ہے، اس سے بعض سائنس دان اور کمپیوٹر انجینئرز لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں کیونکہ انسانی ذہن جامد نہیں اس میں طرح طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں انسانی احساسات بھی جامد نہیں کبھی وہ کہیں رحم دل نرم مزاج لگتا ہے کہیں وہ سخت گیر اکھڑ مزاج لگتا ہے، مگرمصنوعی ذہانت محض ایک اور بہنے والی لہر ہے کیونکہ اس میں جو کچھ فیڈ کیاگیا وہی ہے۔

ایلن مسک اور ان کے پارٹنرز کا بھی یہ خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کے تحقیقی اور مینوفیکچرنگ کے کام کو چھ ماہ کے لئے روک دیا جائے اور پورے پروگرام پر تمام متعلقہ سائنس دان اور ماہرین سرجوڑ کر بیٹھ جائیں جو سوالات اور خدشات سامنے آرہے ہیں ان پر سنجیدگی سے غورو خوض کیا جائے۔ یاد رہے کہ کوئی بھی مشین خواہ جتنی فعال کارگر اور مکمل ہو وہ انسانی ذہن کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ ایلن مسک کہتاہے کہ انسانی ذہن ایک لمحہ میں انسان کو نرم مزاج رحم دل اور شریف النفس ثابت کرتا ہے، کبھی انسانی ذہن سخت گیر رویہ اپنا لیتا ہے اور غصہ جھلاہٹ کاشکار دکھائی دیتا ہے انسانی ذہن میں خیال جامد نہیں ہوتا بلکہ انسانی ذہن بھٹکتا رہتاہے خیالات کاسیلاب اُمڈتا رہتا ہے۔

انسانی دماغ کو قدرت کا عظیم شاہکار اور دنیا کی سب سے بڑی پیچیدہ مشین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ اگر ہم انسانی دماغ کے حوالے سے ایک مشین بنائیں تو وہ نیو یارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ جتنی بڑی مشین ہوگی، اس لئے انسان کو کوئی اشرف المخلوقات تو کوئی حیوان ناطق تو کوئی سماجی جانور کا لقب عطا کرتا ہے۔ تاہم انسان کو یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس کاذہن مختلف خیالات، احساسات، جذبات، تعصبات اور رجحانات کا مجموعہ ہے۔ بیش تر ماہرین کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت حقیقی معنوں میں انسانی دماغ کی برابری ہرگز نہیں کر سکتی۔ 

تاہم اب سائنس دان اور ماہر کمپیوٹر انجینئرز ریاض کی جدید ترقی یافتہ دنیا کی مدد سے مزید ترقی یافتہ کمپیوٹر تیارکرنے کی جدوجہد کررہے ہیں جو آج کی مصنوعی ذہانت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ فعال اور کارآمد ہوگی۔ اس حوالے سے ایک پاکستانی نژاد ڈاکٹر جنید مبین معروف ریاضی دان جواب لندن میں مقیم ہیں اوران کی تحقیقی کاوشوں اور ریاضی جیسے خشک مضمون کو نئی جہد دینے اور نئے فارمولے پیش کرنے پر انہیں مختلف اعزاز انعامات سے نوازا گیا ہے وہ آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی کے سند یافتہ ریاضی دان ہیں ان کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ انسانی دماغ ہر طرح مشین پر حاوی ہے۔ مشین سے خائف ہوتا اپنی کمزوری ہے۔

پرسٹن یونیورسٹی کے ماہرین کہتے ہیں انسانی دماغ کے تین حصے ہوتے ہیں بچہ کی پیدائش تک تیس فیصد دماغ نشوونما پا چکا ہوتا ہے پھر بارہ سال کی عمر تک ستر سے اسی فیصد دماغ پر وان چڑھ چکا ہوتاہے پھر دو تین برسوں میں انسانی دماغ کے تینوں حصے پوری طرح کام کرنے لگتے ہیں۔ انسانی دماغ لاکھوں نیورون پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے امریکی معروف ادارہ جو سائنسی تحقیق میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے ایم آئی ٹی مصنوعی ذہانت پر مزید کام کر رہا ہے اور انسانی دماغ کی پرپیچ راہوں کا بھی کھوج لگا رہا ہے۔

ادارہ ایم آئی ٹی بھی ایلن مسک کے خدشات پر غور کرنے پرمجبور ہو گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے بھی چھ ماہ کے لئے اپنی مصنوعی ذہانت پر تحقیق کو روک دیا ہے، مگر سائنس دان جنید مبین ریاضی کے ذریعے مصنوعی ذہانت کو ترقی دینے کی جدوجہد کر رہے ہیں ان کی دلیل ہے کہ ریاضی پر مصنوعی ذہانت عبور حاصل نہیں کر سکتی، یہ محض مفروضہ ہے۔ ریاضی مدر آف سائنس کہلاتی ہے۔ جنید مبین کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ ،تسلیم شدہ ریاض داں ہیں جن کے پوری دنیا میں کہا جاتاہے کہ پانچ لاکچھ سے زائد شاگرد ہیں۔ 

جنید مبین ریاضی پر استوار مصنوعی ذہانت کا کمپیوٹر تیارکرنے کی جدوجہد کررہے ہیں، مگر بیش تر ماہرین کہتے ہیں کہ ایلن مسک اور ان کے شریک کاروں کے خدشات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ دنیا میں قدرتی آفات کے علاوہ جو حادثات ہوتے ہیں وہ انسانی یا مشینی غلطیوں خرابیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ ایسے میں مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹر بھی کہیں کسی وقت کسی وجہ سے غلطی کر سکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ بڑا حادثہ رونما ہوجائے، یہ نہیں کہا جا سکتاہے کہ حادثہ کتنا بڑا ہوگا۔ اس کی وجہ سے کتنا نقصان ہوگا۔

نئی مصنوعی ذہانت کو SYNTHETIC طاقتور ترین ذہانت کا نام دیا جارہاہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی اس ذہانت کے لئے مصنوعی خلیئے تیارکررہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق شطرنج کے عالمی کھلاڑی گیری کیپرو کو کمپیوٹر کے ذریعے شکست کے بعد کمپیوٹرکی مصنوعی ذہانت پر مقابلہ میں مقابل کو شکست سے دوچار کیا ہے تاحال کسی مقابلے میں مصنوعی ذہانت نے مات نہیں کھائی ہے۔ اب جس نئے سپر کمپیوٹر سپر مصنوعی ذہانت کی بات کی جا رہی ہے یہ سب بہت جلد مارکیٹ میں آجائیں گے اور دنیا کے امیرترین ادارے اور شخصیات سے مصنوعات خرید کر استعمال کریں گے، ایسے میں ایلن مسک کے ظاہر کردہ خدشات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے، کیونکہ انسان میں حرص و ہوس لالچ و طمع کا عنصر بھی غالب رہتاہے۔ دنیا میں چنگیز، ہلاکو تیمور ہٹلر اسٹالن مسولین پول پاٹ موشے دایان جیسے آمر بھی پیدا ہوئے ۔انسانی غلطی کے سبب ہیرو شیما اور ناگا ساکی بھی تباہ تاراج ہوئے۔ انسان غلطی کر سکتا ہے تو مشین بھی کر سکتی ہے۔