• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمرا ن خان کی گرفتاری غیر متوقع نہیں تھی۔ سیاستدانوں کو اس نوع کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وطن عزیز میں تو سیاستدانوں کی حراستوں اور جیل جانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ بھی واضح تھا کہ عمران خان کی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی ان کی گرفتاری سمیت کسی بھی نوع کی گزندپر ردعمل کے اظہار کیلئے اس وقت سے متحرک ہے جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل اتحادی پارٹیوں نے قومی اسمبلی میں تحریک اعتماد میں کامیابی حاصل کر کے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے محروم کیا اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہبازشریف کی قیادت میں نئی حکومت تشکیل دی۔ لہٰذا منگل کے روز جب یہ خبر آئی کہ رینجرز نے عمران خان کو القادر یونیورسٹی کیس میں اربوں روپے کرپشن کے الزام میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کر کے نیب راولپنڈی منتقل کر دیا توقانونی تقاضے پورے کرنے کے اعلان کی بجائے پی ٹی آئی کی جانب سے ملک بھر میں ردعمل اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اسلام آباد کراچی، فیصل آباد، کوئٹہ سمیت متعدد شہر اور مقامات میدان جنگ بن گئے۔ درجنوں موٹر سائیکلیں، گاڑیاں، پولیس وینز نذر آتش، موٹر وے جی ٹی روڈ بند ہو گیا۔ جبکہ لاہور میں کئی مقامات پر پتھرائو سے ڈی آئی جی، ڈی ایس پی، ایس ایچ او سمیت کئی اہلکار زخمی ہو گئے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا۔ کئی علاقوں میں دکانیں بند ہو گئیں۔ پنجاب اور بلوچستان میں رینجرز طلب کرنا پڑی۔ خیبر پختونحوا میں 30روز کیلئے دفعہ 144نافذ کر دی گئی۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ جمہوری اقدار سیاسی جماعتوں کواجازت دیتی ہیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں آئینی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے ردعمل یا موقف کا اظہار کریں یہ حق اتنا ہی فائق ہے جتنا تحریک انصاف کی مخالف پارٹیوں کا عمران خان کی خامیاں گنواتے ہوئے ان کی گرفتاری کو جائز قرار دینے کا حق۔ مگر کیا جمہوری اقدار کسی کو بھی ایسی تشدد آمیز صورت اختیار کرنے کی اجازت دیتی ہیں جس کے باعث کوئٹہ اور گوجرانوالہ میں دو افراد جان بحق، کئی افراد و اہلکار زخمی ہو جائیں۔ جمہوری نظام کو آج کے دور کیلئے مناسب اگر قرار دیا جاتا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جمہوری نظام عام آدمی کے حقوق کو تحفظ دے سکتا ہے۔ یہ حقوق اس حد تک موثر ہیں کہ ہر بالغ فرد ایک خاص مدت کے بعد یا قانونی طور پر طے شدہ طریق کار کے مطابق ووٹ کے ذریعے حکومت تبدیل کرنے کے عمل کا حصہ بن سکتا ہے۔جمہوری نظام کو اس بنا پر بھی پذیرائی حاصل ہے کہ حکومت بلا تعصب اپنے ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں جمہوری اقدار اور آئین کی پاسداری کا عالم یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف وارنٹ کے اجرا سے لیکر گرفتاری کا طریق کار تک سوالات کی زد میں آیا، جبکہ احتجاج کی جان لیوا صورت حال اور بعض اداروں کے بارے میں گمراہ کن اشتعال انگیزی پاکستانیوں کی اکثریت کے لئے دکھ کا سبب بنی۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کے بموجب عمران خان کا پیغام اگر یہ ہے کہ کوئی جلائو گھیرائو یا توڑ پھوڑ نہیں ہو گی تو اس پر عمل ہوتا نظر آنا چاہیے۔ یہ بات بہرطور ملحوظ رکھنے کی ہے کہ جمہوریت جہاں آزادیاں دیتی ہے وہاں آئین و قانون سمیت بعض اصولوں اور اخلاقی تقاضوں کی پاسداری کا پابند بھی بناتی ہے۔ برطانیہ جو پارلیمانی جمہوریت کا گہوارہ کہلاتا ہے وہاں بڑے بڑے جلوس جس نظم و ضبط کے ساتھ گزرتے ہیں، اس طرح کا نظم و نسق ہمارے مظاہروں اور دیگر اجتماعات میں اگر نظر نہیں آتا تو سیاسی جماعتوں کی رکنیت کے لئے ایسی تربیت لازمی محسوس ہوتی ہے جو جمہوریت اور اعلیٰ تہذیبی روایات و اقدار کا خاصہ ہے۔

تازہ ترین