• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ہماری مسجد کی انتظامیہ نے مسجد سے تقریباً50میٹر کے فاصلے پر موجود عمارت میں مسجد سے لاؤڈ اسپیکر لگا کر اُس عمارت میں نمازوں کا اہتمام کیا ہے، تاکہ وہاں موجود مرد و خواتین امام کی اقتداء میں نمازیں ادا کرسکیں، کیا مسجد سے مُتصل کسی عمارت میں مسجد میں موجود امام کی اقتداء کی نیت سے پنج وقتہ نماز، جمعہ وعیدین یا دیگر نفلی عبادات کی باجماعت نماز اداکی جاسکتی ہے؟ نیز مسجد کے اندرونی حصے میں پردہ لگاکر دائیں جانب مردوں اور بائیں جانب خواتین کی صفیں بنادی جائیں ،تو یہ جائز ہے یا مسجد کی دیوار کے ساتھ کیاری ہے اور اس کے ساتھ لان میں خواتین کی نماز کی جگہ بنائی جائے ؟ (قاری محمد ایاز، کراچی)

جواب: آپ کے سوال میں بنیادی طور پر درج ذیل اُمور کی وضاحت طلب کی گئی ہے :

(1)مسجد سے 50 میٹر دور کسی عمارت میں موجود مرد اور خواتین کی جماعت میں شمولیت ممکن ہے یا نہیں ؟

(2)مسجد کے اندر ہی صفوں کے درمیان پردہ لگاکر دائیں جانب مردوں اور بائیں طرف عورتوں کی صف بنادی جائے۔

(3)مسجد کے ساتھ لان میں خواتین کے لیے نماز کی جگہ بنائی جائے۔

سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہمارے دور میں خواتین کو مساجد میں باجماعت نمازوں میں شمولیت کی اجازت ضرورت کے تحت دی ہے، یہ رخصت اس امر کے ساتھ مشروط ہے کہ خواتین کی نماز کی جگہ مکمل باپردہ ہو اور آمد ورفت کا راستہ مردوں سے علیحدہ ہو ، ستر وحجاب کی مکمل پابندی ہو۔

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ مسجد سے باہر نمازیوں کی باجماعت نماز میں امام ِ مسجدکی اقتداء کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ مسجد سے باہر جو صفیں بنائی جائیں، وہ مسجد کی صفوں سے ملی ہوئی ہوں ،تاکہ حکماً جماعت کے لیے اتحادِمکان کی شرط پوری ہوسکے، کیونکہ مکان کا متحد ہونا صحتِ اقتداء کے لیے شرط ہے ، درمیان میں راستہ ، سڑک ، نہر وغیرہ نہ ہواورمقتدی کو امام کے انتقالات کا پتا چلتا ہو ۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ:’’(صفوں کے درمیان میں) ایسا راستہ جس میں بیل گاڑی گزرسکتی ہو ،عجلہ بیل گاڑی کو کہتے ہیں یا ایسی نہر حائل ہو جس میں کشتی چلتی ہو، اگرچہ چھوٹی کشتی ہو‘‘ ۔

مزید لکھتے ہیں: ’’(صفوں کے درمیان) اتنا خلاء کہ دوصفوں یا ا س سے زیادہ صفوں کی گنجائش ہو (ان صورتوں میں اقتدا ءصحیح نہیں ہے)، مگر جب صفیں مُتصل ہوں تو مطلقاً اقتداءصحیح ہے ،جیسا کہ راستے میں تین آدمی کھڑے ہوجائیں اور اسی طرح امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دو آدمی کھڑے ہوجائیں ، ایک آدمی کا کھڑا ہونا بالاتفاق درست نہیں ہے، کیونکہ اس کی نماز مکروہ ہے اور اس کا وجود پیچھے والوں کے حق میں نہ ہونے کی طرح ہے ۔(امام اور مقتدی کے درمیان) حائل چیز اقتداء سے مانع نہیں ہے ،اگر امام کی حالت مقتدیوں پر مشتبہ نہ ہو ، خواہ امام ان کو نظر آرہاہو یا اس کی آواز سنائی دے رہی ہو ، خواہ جالی والا دروازہ ہو ،صحیح ترین قول کے مطابق ،جس سے امام کو دیکھ رہا ہے، لیکن امام تک پہنچ نہیں سکتا ۔اور صحیح ترین قول کے مطابق حقیقتاً مکان مختلف نہ ہو ،جیسے مسجد اور گھر (دو الگ مکانات ہیں)، بحوالہ: ’’قُنِیہ‘‘۔ اور نہ حکماً مکان مختلف ہو، جیسے صفیں باہم ملی ہوئی ہوں اور اگر کسی نے مسجد سے مُتصل اپنے گھر کی چھت سے امام کی اقتداء کی تومکان کے مختلف ہونے کی وجہ سے اقتدا ءجائز نہیں ہے، ’’اَلدُّرَر،اَلْبَحَر‘‘ وغیرہ ما ‘‘۔

اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ مقتدی اور امام کا مکان مختلف نہ ہو اور اس کا حاصل یہ ہے کہ عدمِ اشتباہ اورعدمِ اختلافِ مکان شرط قرار دیا گیا ہے اوراس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اشتباہ اور اختلاف ِ مکان دونوں صورتیں پائی جائیں یا ان میں سے صرف ایک صورت پائی جائے ،یہ صحتِ اقتداء سے مانع ہوگی ، (حاشیہ ابن عابدین شامی، جلد3، ص:610-17، دمشق )‘‘ ۔ لہٰذا آپ نے جو صورت بیان کی ہے کہ مسجد سے 50میٹر کے فاصلے پر ایک عمارت میں لاؤڈ اسپیکر لگاکر مرد اور عورتیں مسجد کے امام کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں، یہ درست نہیں ہے اوریہ اقتداء صحیح نہیں ہے۔

آپ کے سوال میں بیان کردہ دوسری صورت: ’’ مسجد کے اندرونی حصے میں پردہ لگاکر دائیں جانب مردوں اور بائیں جانب خواتین کی صفیں بنادی جائیں‘‘، درست نہیں ہے،اگرچہ شریعت کا مطلوب یہ ہے کہ عورتوں کی صفیں مردوں کے پیچھے ہوں یا اگر برابر ہیں تو دونوں کے درمیان فصل ہو ، خواہ بیچ میں کوئی موٹا پردہ یا لکڑی /المونیم /فائبر وغیرہ کی رکاوٹ حائل ہو، جس کی بلندی کم ازکم ایک ہاتھ کے برابر ہو، تویہ صورت درست ہے ۔

ابتدائی دور میں عورتوں کو مسجد میں آنے ،نمازِ باجماعت ادا کرنے کی اجازت تھی، اسی لیے حدیثِ پاک میں جماعت کی صفوں میں مرد اور عورت کی صف کے درمیان افضلیت بیان فرمائی گئی ہے۔ مردوں کی پہلی صف کے افضل اور زیادہ اجر و ثواب ہونے کا سبب امام کے قریب ہونے اور عورتوں سے دور ہونے کی وجہ سے ہے ۔جبکہ عورتوں کی افضل اور زیادہ اجر و ثواب والی صف آخری صف ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کی صفوں سے دوری کی وجہ سے عورت زیادہ پردے میں رہتی ہے اور عورتوں کی کم اجر و فضیلت والی صف ان کی پہلی صف ہے، کہ وہ صف فتنے کے زیادہ قریب ہوتی ہے یا فتنے کا اندیشہ رہتا ہے۔

حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (نمازِ باجماعت میں اجر کے اعتبار سے) مردوں کی بہترین صف پہلی صف ہے اور بری صف آخری صف ہے(یعنی پہلی صف کی بہ نسبت اس کا اجر اور فضیلت کم ہے )۔ عورتوں کی بہترین صف آخری صف ہے اور بری صف پہلی صف ہے (یعنی وہ صف جو مردوں کی صف کے متصل ہے، کیونکہ اس میں نفس کے بہکاوے یا توجہ بٹنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے) ، (صحیح مسلم:440، سُنَن ترمذی:224)‘‘۔ یہاں بہترین اور بدترین سے مراد اجر وثواب میں زیادتی اورکمی ہے اور مرد وزن کے اختلاط کے فتنے سے حتیٰ الامکان بچنا ہے۔ (جاری ہے)