• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی گرفتاری ایک ایسا قابل گھنائونا فعل ہے جس کی قانون او ر انسانی رویوں میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ کسی شخص کی گرفتاری کا معاملہ نہیں ، اور وہ شخص جو سابق وزیر اعظم ہو،یہ عمران خان کو دن دہاڑے عدالت کے احاطے سے اغوا کرنے کی واردات ہے۔ اس دوران نیم فوجی دستوں نے بے رحمی سے اُن کے سر اور جسم پر مکوں سے ضربیں لگائیں ۔ یہ سلوک اُن کے حامیوں کیلئے انتہائی تشویش ناک ہے ۔ یہ منظر ریاست اور اس کے اداروں کے توہین آمیز رویے کی جھلک دکھاتا ہے۔خان کی گرفتاری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اس مجرمانہ ٹولے کا ذہن کس پاگل پن کا شکار ہے ۔ اُنھیں آٹھ روز کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ اس پر ملک بھر میں ان کے جذباتی حامیوں کی طرف سے بے ساختہ ردعمل آیا ۔ وہ سڑکوں پر نکل آئے ۔ ان کے خیال میں جو بھی اس مذموم صورت حال کا ذمہ دار تھا، اس کے مفادات کو نشانہ بنایا۔ یہ صورت حال اس وقت مزید گمبھیر ہوگئی جب حکام نے احتجاجی مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلانے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں پندرہ افراد جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہوگئے۔

خان کی حکومت کے خاتمے ،اور انھیں سیاسی میدان سے باہر کرنے ، جسمانی طور پر ختم کرنے اور من گھڑت الزامات کی بناپرنااہل قرار دینے کی سہ جہتی پالیسی کے نتیجے میں ملک اس نہج تک پہنچا ۔ ان کی جماعت پر بھی پابندی لگانے کی باتیں ہورہی ہیں ۔ ان کے ہر آن بلند ہوتے ہوئے سیاسی قد کاٹھ کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہنے پر ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیاجس میں بال بال بچے ۔ گولیاں ٹانگ میں لگیں ۔ کئی ماہ تک زیر علاج رہنے پر ابھی تک اس حملے سے مکمل طور صحت یاب نہیں ہوئے ۔

عمران خان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ دیکھتے ہوئے مذکورہ حکمت عملی کے تیسرے حربے کے طور پر اُن کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت الزامات پر ملک بھر میں ایک سو پچاس سے زائد مقدمات درج کئے گئے ۔وہ باقاعدگی سے عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں ۔ لیکن منصوبہ سازوں اور ان کے سہولت کاروں کو ان کا آزاد رہنا گوارا نہیں ۔ اسلئے اُنھیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے اس وقت اغوا کرلیا جب وہاں ضمانت کی درخواست دائر کرنے آئے تھے۔ اسکے بعد پولیس کی تحویل میں کسی نامعلوم مقام پر لے جایا گیا ، جو کہ بذات خود آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ ہم نے دلدل میں پائوں رکھ دیا ہے ۔ آئیے ذرا اس اقدام کی حرکیات کا جائزہ لیں ۔ پنجاب اور خیبرپختونخوااسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کا انعقاد 90 روز میں ہونا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیوں کہ حکومت آئینی راستہ اختیار کرنےکیلئے تیار نہیں بلکہ اپناا سکرپٹ خود لکھنا چاہتی ہے ۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل سے بھی انکار کرتے ہوئے ایک غیر آئینی اور غیر متعلق پارلیمنٹ کو عدلیہ کے سامنے لا کھڑا کیا ۔ وہ اپنے طرزعمل سے یہ بتارہے ہیں کہ عدلیہ کو حاصل اختیارات کے باوجود اسکے آئینی حکم نامے کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ سپریم کورٹ نے دو مختلف مواقع پر حکومت کو حکم دیا کہ اسکی طرف سے بتائی گئی تاریخوں پر انتخابات کرائے جائیں۔ پہلی تاریخ تو گزر چکی ، اور حکم پر عمل درآمد نہ ہوا۔دوسرا حکم 14مئی کو انتخابات کرانے کاہے۔اب اس پر بھی عمل درآمد ہوتاناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اسلئےسپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے اسکےاحکامات کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

حکومت اور تحریک انصاف کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کی ضرورت پر ہم آہنگی موجود تھی لیکن حکومت نے باقی اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کے انعقاد کی تاریخوں کو آگے بڑھانے کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرنے میں کوئی لچک نہ دکھائی۔ یہ اکتوبر میں انتخابات کرانے پر قائم ہے جس پر تحریک انصاف راضی نہیں ۔ اس طرح معاملہ تعطل کا شکار ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کو چیلنج کرنے اور اسکے احکامات کی خلاف ورزی کے ساتھ ریاست کے دو اہم ستونوں: پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کو بھڑکانے کی دانستہ کوششیں جاری ہیں۔ پارلیمنٹ نے آئینی احکام کے خلاف موقف اختیار کیا ہے ، جبکہ عدلیہ قانون کی کتاب میں موجود چیزوں کو نافذ کرنے کیلئے پرعزم ہے ۔یہ تصادم ایک بھیانک شکل اختیار کر سکتا ہے جو اختیارات کے سہ جہتی تصور کیلئے تباہ کن ہوگا۔ اہم سوال یہ ہے کہ اگر اس تصادم میں شدت آنے سے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو آرٹیکل 190 کے تناظر میں کیا ہوگا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان بھر کے تمام انتظامی اور عدالتی حکام سپریم کورٹ کی معاونت کریں گے۔‘‘ کیا عدالت اپنے حکم پر عمل درآمد کرانےکیلئے آئینی طور پر اپنے اختیار کا استعمال کر سکے گی؟تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ ایسا نہ کرسکی تو پارلیمنٹ اور عدلیہ ایک دوسرے کیخلاف صف آراہو جائینگے۔ خان کی گرفتاری کے بعد جاری تحریک کے تناظر میں یہ تنازع اور بھی خطرناک جہت اختیار کر سکتا ہے۔ کیا آئینی معاملہ بالآخر سڑکوں پر تشدد کے ساتھ ایک انتہائی صورت میں طے پائے گا؟

اگر یہ تصادم ہوتا ہے تو ملک لاقانونیت کا شکار ہو جائیگا۔ حکومت کی طرف سے ریاستی ستونوں کے درمیان اختیارات کی آئینی طور پر فراہم کردہ تقسیم کی خلاف ورزی کے باعث، پاکستان ایک ایسی ریاست بن جائیگا جس پر کسی قانون کی عملداری نہیں ہوگی۔ اس کے بعد ہر ایک ستون ملک کو اپنی مرضی سے مختلف سمتوں میں چلانے کی کوشش کرئیگا۔ چاہے خان حکومت کو جس بھی غیر آئینی طریقے سے ہٹایا گیا تھا، اس بحران کو اس حد تک بڑھانے کی کیا ضرورت ہے اور حکومت اس قدر بے لچک کیوں ہے؟ اس نے خود ملک کی بقا کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات کیوں پیدا کردیے ہیں؟

تازہ ترین