• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑھتی مہنگائی، عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور موسمیاتی تغیرات کے باعث دنیا کو ایسے گھروں کی ضرورت ہے جو کم لاگت ہونے کے ساتھ ساتھ دیرپا بھی ہوں۔ ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بانس سے گھروں کی تعمیر اس مسئلے کا بہترین حل فراہم کرتا ہے، کیوں کہ بانس سے بنے مکان کفایتی اور مضبوط ہوتے ہیں۔ چین کے بعد بھارت میں بانس سب سے زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ گھروں کی کمی اور ان کی دیرپا تعمیر کا متبادل حل تلاش کیا جائےتاکہ محدود وسائل کے بے دریغ استعمال کے باعث مستقبل میں آنے والی پریشانیوں سے بچا جا سکے۔

ان میں سے کئی متبادل ایسے ہیں جن کا استعمال ہم پہلے بھی کرتے تھے لیکن بدلتے وقت کے ساتھ اور تیز رفتار ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہم نے ان کا استعمال ترک کر دیا ، انہی میں سے ایک ہے بانس کا گھر۔ پہلے گھروں کو بانس کی لکڑیوں سے بنایا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کی جگہ اینٹ، گارے نے لے لی اور آج شہر ہی نہیں گاؤں دیہاتوں میں بھی لوگ اینٹ،گارے سے تعمیر شدہ گھر ہی استعمال کرتے ہیں لیکن اب دنیا کے کئی ممالک میں گھروں کی تعمیر میں بانس کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔

بانس مضبوط تو ہوتا ہی ہے، اس کے علاوہ یہ بہت تیزی سے اُگتا ہے نیز بانس کے درخت لگانے میں زیادہ مشکل بھی پیش نہیں آتی ۔ بانس 50 سال تک خراب نہیں ہوتا، لہٰذا بانس سے بنائے گئے گھر سالہا سال چلتے ہیں۔ چونکہ یہ آسانی سے دستیاب ہے، لہٰذا مکان کی تعمیراتی لاگت میں تقریباً چالیس فی صد تک کی بچت ہوجاتی ہے اور اس سے گھر بنانے میں وقت بھی کافی کم لگتا ہے۔

دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے لیکن دنیا کی ایک بڑی آبادی کے پاس آج بھی رہنے کو گھر نہیں ہے جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گاؤں میں لوگوں کے پاس تھوڑی بہت زمین تو ہے لیکن مکان بنانے کے لئے پیسہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں عوام کو گھر مہیا کرنا حکومت کے لئے بھی مشکل کام ہے۔ گھروں کی ڈیمانڈ بڑھنے کے سبب بلڈنگ مٹيريل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور ایک گھر حاصل کرنا اب لوگوں کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ’ونڈر گراس‘ نامی ایک بین الاقوامی تعمیراتی کمپنی نے عوام کےروبرو ایک نعم البدل پیش کیا کہ کس طرح لوگ بانس سے اپنے لئے گھر بنوا سکتے ہیں۔ کمپنی پہلے سے تیار شدہ ستون، پینل، دیواریں اوراسکرین تعمیراتی سائٹ پر لاتی ہے، جنہیں وہاں بس ’فکس‘ کرنا ہوتا ہے۔ اس سے تعمیر میں وقت بھی کافی کم لگتا ہے اور گھر بہت جلد بن کر تیار ہو جاتا ہے۔ 

کفایتی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کافی خوبصورت بھی ہوتا ہے اور لوگوں کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیرکرتا ہے۔ اس کمپنی کو کام شروع کیے 6 سال ہو چکے ہیں۔ کمپنی کے بانی کے لیے اُن کے والد ہمیشہ سے ہی تحریک و ترغیب اور حوصلہ افزائی کا باعث رہے ہیں اور اُن کے والد کی تحقیق کی وجہ سے ہی وہ ’ونڈر گراس‘ کمپنی قائم کر پائے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ لوگ آج بھی بانس کے بنے گھروں پر یقین نہیں کرتے، انہیں لگتا ہے کہ بانس کےمکان پکّےنہیں ہوتے لیکن یہ کمپنی لوگوں کی اِس سوچ کو بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ہم انہیں بتاتے ہیں کہ یہ مکان پکّے ہونے کے ساتھ ساتھ کافی کفایتی بھی ہیں اوراُن کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے اہل ہیں ۔ یہ مکان ماحولیات کے نقطہ نظرسے بھی بہت اچھے ہیں اور قدرتی آفات سے بھی یہ مکان تحفظ و دفاع کرتے ہیں۔ 

بانس سے بنے مکان دیہی علاقوں کے لئے انتہائی مناسب ہیں۔ رفتہ رفتہ بانس سے بنے مکان عوام میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور لوگ اِن مکانات کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ بانس ماحولیاتی نظریے سے بھی کافی مفید اور کارآمد ہیں۔ بانس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے اور ماحول کو 35 فیصد زیادہ آکسیجن دیتے ہیں۔ بانس کے اُگنے کے لئے کسی قسم کی کھاد ، پیسٹی سائڈ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔اِس کے علاوہ بانس کا تقریبا ًہر حصّہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے اور ضیاع نہ ہونے کے برابر ہے۔

2015ء میں نیپال میں آنے والے ہولناک زلزلے کے باعث کئی لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں قریب 9000 افراد اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔ اس زلزلے کے بعد نیپال میں تعمیر نو کے کام میں عمارات کی تعمیر میں بانس کا استعمال بڑے پیمانے پر کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں اب نیپال میں گھروں کی تعمیر میں بانس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔

نیپال کے ایک ماہر تعمیرات نریپال ادھیکاری کا کہنا ہے، ’’زلزلے میں سب سے خطرناک بھاری وزن ہوتا ہے، بانس ہلکے وزن کا ہوتا ہے ليکن ساتھ ساتھ لچک دار اور فولاد کی طرح مضبوط ہوتا ہے، یہ ماحول دوست بھی ہے۔‘‘

نیپال میں 54مختلف اقسام کے بانس اُگتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق نیپال میں 63ہزار ایکڑ رقبے پر بانس اُگا ہوا ہے۔ ارتھ کویک انجینئرنگ کے ماہر ڈیوڈ ٹروجیلو نے اس حوالے سے کہا ہے کہ 1999ء میں کولمبیا میں زلزلے سے ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد بانس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈیوڈ ٹروجیلو کے مطابق بانس بہت جلد قابل استعمال ہو جاتا ہے۔ 

کاشت کیے جانے کے بعد چھ ماہ تک ایک بانس 25 سے 30 میٹر تک بلند ہو جاتا ہے اور اسے تین سے چار سال کے عرصے میں دوبارہ کاشت کیا جا سکتا ہے۔ نیپال کے علاہ پیرو، فلپائن، ایکواڈور اور میکسیکو میں بھی زلزلے کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے بانس کا استعال کیا جا رہا ہے۔