بحری تجارتی بیڑے میں استعمال ہونے والے کنٹینر زکو برطانیہ میں اب گھروں کی تعمیر میں استعمال کیا جائے گا۔ گھروں کی تعمیر کے لیے کنٹینراستعمال کرنے کی اجازت برطانیہ کے ایک آرکیٹیکٹ ادارے نے حاصل کی ہے۔ اس کا مقصد دوبارہ استعمال ہونے والا مواد استعمال میں لاتے ہوئے سستے گھر فراہم کرنا ہے۔ اس پروجیکٹ کو ’کارگوٹیکچر‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس پروجیکٹ کے تحت تیار کیا جانے والا ہر گھر جسے ’مائکروہوم‘ کا نام دیا گیا ہے، اس کا سامنے کا حصہ ایک باورچی خانہ اور بیٹھک کمرے، پچھلا حصہ آرام گاہ اور غسل خانہ پر مشتمل ہوگا، جبکہ اس کے کسی بھی ایک چھیڑے پر ڈیک دیا جائے گا۔
کنٹینروں کی چھت کو پتھر بیل(سیڈم) نامی پودے سے ڈھانپا جائے گا۔ یہ ایک رس بھرا اور کثیر رنگی (زرد، گلابی اور سفید) پودا ہوتا ہے، جس کی جڑیں سطح میں زیادہ نہیں جاتیں اور اسے پانی دینے کی بھی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔
اس طرح یہ پودا ’گرین روف‘ کے لیے موزوں تصور کیا جاتا ہے۔کنٹینر چونکہ سردی اور گرمی، دونوں کو فوری طور پر جذب کرلیتے ہیں، اس لیے ہر کنٹینر کی چھت، دیواراورفرش کی انسولیشن کی جائے گی، جبکہ دُہرے شیشے نصب کیے جائیں گے۔
یہ منصوبہ ’سوشل رینٹ‘ کے تحت کیا جارہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ گھر وں کے کرایے مقامی آبادی کی آمدنی اور تعمیراتی لاگت کے تناسب سے مقرر کیے جائیں گے۔ برطانیہ میں ایسے گھروں کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے، جہاں گزشتہ ایک دہائی کے دوران ان کی تعمیر میں 80فیصد تک کمی آچکی ہے، جب 10لاکھ خاندان ایسے گھر کرایے پر حاصل کرنے کے لیے انتظار کی چکی میں پِس رہے ہیں۔
برطانیہ میں ایسے کم لاگت گھروں کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیوں کہ2018کی ایک رپورٹ کے مطابق، برطانیہ جیسے ترقیاتی ملک میں بھی ہر 200میں سے ایک برطانوی شہری (تقریباً 320,000) بے گھر ہے۔
برطانیہ میں نجی طور پر کرایے کے لیے دستیاب گھروں کے مقابلے میں سوشل ہاؤسنگ کافی سستی ہے۔ جہاں اوسط درجے کے ایک بیڈ روم کا گھر 600پاؤنڈ ماہانہ (تقریباً 730امریکی ڈالر)میں ملتا ہے، وہاں اسی معیار اور حجم کا ایک بیڈ روم سوشل رینٹل 300پاؤنڈ (تقریباً 365امریکی ڈالر) میں مل جاتا ہے۔
اسٹیل بکسوں میں بہتر زندگی
ایک روایتی گھر تعمیر کرنے کے لیے مزدوروں، کاریگروں اور اس میں استعمال ہونے والے سامان پر آنے والی لاگت کے مقابلے میں سوشل ہاؤسنگ کے لیے سستا ہونے کے باعث کنٹینر ایک پرکشش تعمیراتی سامان ہے۔ ہرچندکہ تعمیراتی نوعیت اور رقبہ کے لحاظ سے قیمت میں فرق ہوسکتا ہے، ایک اچھا کنٹینر گھر تقریباً ایک لاکھ ڈالر میں تعمیر ہوجاتا ہے۔
اس کے برعکس، ایک گھر تعمیر کرنے کی اوسط لاگت تقریباً تین لاکھ ڈالر ہے۔ صرف یہی نہیں، یہ ماڈیولر، پائیدار، اور آسانی سے ایک سے دوسری جگہ لائے لے جاسکتے ہیں۔ مزید برآں، کنٹینر گھر میں اسٹیل کا ضیاع بہت کم ہوتا ہے اور تقریباً ساڑھے تین ہزار کلو گرام اسٹیل ضایع ہونے سے بچایا جاتا ہے۔
تاہم کنٹینر ہاؤس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ ایک زبردست کنڈکٹر ہونے کے باعث، موسم کی مناسبت سے اسٹیل باآسانی اوون یا آئس باکس بن جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ، کنٹینر کے پینٹ، مہر بند حصوں سے نکلنے والا کیمیائی مادہ اور اس میں ماضی میں لائے لے جانے والے سامان کے ذرات نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔
ان سب کے باوجود، برطانیہ میں کنٹینر گھر بہت مقبول ہیں۔ برطانیہ کی ایک اور غیرمنافع بخش کمپنی شیفیلڈ میں 600کنٹینر گھر بنارہی ہے، جس پر فی گھر لاگت صرف 42ہزار 500ڈالر آنے کا تخمینہ ہے۔ برطانیہ کی ایک اور خیراتی کمپنی نے برسٹل کی مقامی بے گھر آبادی کے لیے کنٹینر گھر تعمیر کیے ہیں۔
برطانیہ میں کنٹینر تعمیرات صرف غریب اور بے گھر افراد کو چھت فراہم کرنے کے لیے ہی نہیں کی جارہیں، بلکہ لندن میں دنیا کی سب سے بلند شپنگ کنٹینر بلڈنگ بھی تعمیر کرنے کا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔ یہ نو منزلہ عمارت ہوگی، جوکہ عالمی اور خود لندن کے معیار کے مطابق، کوئی زیادہ بلند عمارت نہیں ہے لیکن جب اسے کنٹینر سے تعمیر ہونے والی عمارت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایک بڑی کامیابی نظر آتی ہے۔
دنیا میں کیا ہورہا ہے؟
ہرچند کہ برطانیہ میں شپنگ کنٹینرز سے تعمیر ہونے والے گھروں کا رجحان فروغ پارہا ہے، دنیا کے دیگر ملک بھی اس رجحان کو دیکھ اور اپنا رہے ہیں۔ ایمسٹرڈم میں کئی کنٹینر گھر موجود ہیں، جن میں طلبا کے لیے گھر، اپارٹمنٹ کمپلیکس اور مارکیٹس شامل ہیں۔ یوپر میں کارگوٹیکچر رجحان سے متاثرہوکر ایک امریکی ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر نے امریکی ریاست جارجیا کے دارالخلافہ اٹلانٹا میں کئی کنٹینر گھر تعمیر کیے ہیں۔
پاکستان میں حالانکہ ابھی تک کنٹینر گھروں کا رجحان باقاعدہ طور پر متعارف نہیں ہوسکا، تاہم پاکستان میں بھی ہمیں کچھ مقامات پر اِکادُکا ایسی عمارتیں نظر آتی ہیں، جو کنٹینرز سے بنائی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق، پاکستان میں اس وقت کم از کم ایک کروڑ گھروں کی قلت ہے۔ ایسے میں تعمیراتی کمپنیاں اور غریب و بے گھر آبادی کو چھت فراہم کرنے کے لیے کام کرنے والے حکومتی ادارے کنٹینر گھر وں کی تعمیر پر غور کرسکتے ہیں۔