• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے ناقابل برداشت قرضوں، ٹیکس وصولی کی کم ترین شرح اور بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حکومت 9 جون کو وفاقی بجٹ پیش کررہی ہے جس میں رواں مالی سال 2022-23 میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.4 فیصد اور آئندہ مالی سال 2023-24بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5.1 فیصد تجویز کیا گیا ہے جبکہ موجودہ معاشی حالات دیکھتے ہوئے IMF کے مطابق بجٹ خسارہ اس سے زیادہ متوقع ہے۔

قارئین! IMF پروگرام کی بحالی کیلئے بجٹ کے اہداف پر آئی ایم ایف کی رضامندی ضروری ہے۔ بجٹ خسارے کی اہم وجوہات سرکاری ملازمین کی پنشن اور قرضوں پر سود کی ناقابل برداشت ادائیگیاں ہیں۔ پاکستان میںجی ڈی پی میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح بمشکل 10فیصد ہے جو خطے میں دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم ہے۔ NFC ایوارڈ کے تحت وفاق کے پاس صرف 46 فیصد آمدنی بچتی ہے جبکہ 54فیصد آمدنی صوبوں کو منتقل کردی جاتی ہے جو دفاعی بجٹ، قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کیلئے ناکافی ہے جس کیلئے حکومت کو مزید قرضے لینے پڑرہے ہیں ،جس کی وجہ سے 2022 ءمیں پاکستان کا مالیاتی خسارہ 22سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ گزشتہ 7سے 8سال میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو 2015ءمیں جی ڈی پی کا 24 فیصد تھے اور آج 78فیصد تک پہنچ چکے ہیں جبکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ بمشکل آدھی فیصد متوقع ہے جس سے ریونیو وصولی میں کمی ہوگی جس کو پورا کرنے کیلئے غیر ضروری اخراجات میں کمی، سبسڈیز کے خاتمے اور ٹیکس نیٹ میں اضافے سے ہم 2000 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل کرسکتے ہیں۔ جرمن ادارے جوبلی نے پاکستان کو ناقابل برداشت قرضوں سے ابتر معاشی صورتحال والے ممالک میں شامل کیا ہے جن کے قرضوں کو ہنگامی بنیاد پر ری اسٹرکچر کرنے کی ضرورت ہے، نہیں تو یہ ممالک ڈیفالٹ کرسکتے ہیں۔

پاکستان کے بیرونی قرضوں کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ 7 سے 8 سال میں چین اور چینی کمرشل بینکوں سے لئے قرضوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو پاکستان کے مجموعی 127ارب ڈالر کے قرضوں کا ایک تہائی یعنی 30فیصد ہوچکے ہیں۔ IMF کے مطابق چینی حکومت کا اس وقت مجموعی قرضہ 30ارب ڈالر ہے جس میں چینی حکومت کا 23 ارب ڈالر اور چینی کمرشل بینکوں کا 7 ارب ڈالر شامل ہے۔ یہ قرضے پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC)، انرجی اور انفرااسٹرکچر منصوبوں میں قرضے کی شکل میں لئے گئے، اس کے علاوہ پاکستان نے زرمبادلہ کےذخائر بڑھانے کیلئے بھی چینی کمرشل بینکوں سے قرضے حاصل کئے جس کی تازہ مثال چائنا ڈویلپمنٹ بینک سے لیا جانے والا 700ملین ڈالر کا قرضہ ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق چین سے لئے جانے والے قرضے 3 قسم کے ہیں۔ ایک وہ چینی قرضہ جو سی پیک منصوبوں کیلئے لیا گیا، دوسرا چینی کمرشل بینکوں سے لیا گیا اور تیسرا چین کے اسٹیٹ بینک پاکستان میں رکھے گئے ڈپازٹس۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں قرضوں کی ادائیگیوں میں زیادہ دبائو چینی قرضوں کا ہے اور پاکستان کو بار بار چین سے رول اوور کی درخواست کرنا پڑتی ہے۔ IMF کی شرط ہے کہ IMF کے قرضے سے سی پیک قرضوں کی ادائیگیاں نہ کی جائیں۔

بیرونی قرضوں کے علاوہ پاکستان کے مقامی بینکوں کے قرضوں میں بھی ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے جو رواں مالی سال جولائی سے مارچ تک بڑھ کر 3580ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جو مجموعی قرضوں کا 87فیصد ہیں جو گزشتہ سال 2122 ارب روپے یعنی 69 فیصد تھے۔ قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ حکومت کا بینکوں سے نہایت مہنگی شرح سود 22 فیصد پر قرضے (ٹریژری بلز) لینا ہے ۔ IMF نے بینکوں کی شرح ِسود افراط زر کم کرنے کیلئے بڑھائی تھی لیکن بدقسمتی سے افراط زر کم ہونے کے بجائے بڑھ کر (CPI) 37 فیصد اور کھانے پینے کی اشیاء (SPI) 48 فیصد تک پہنچ گئی ہیں اور مہنگائی سے غریب آدمی کی چیخیں نکل گئی ہیں جبکہ IMF نے شرح سود میں مزید اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ شرح سود میں اضافے، صنعتوں کی مالی لاگت بڑھنے، گیس سبسڈی کے خاتمے اور مہنگے خام مال کی امپورٹ سے صنعتی شعبے میں ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتیں تیزی سے بند ہورہی ہیں جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی کی صنعتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر کے چاروں بڑے صنعتی زونز سائٹ، کورنگی، نارتھ کراچی اور فیڈرل بی ایریا میں 25 فیصد سے زائد صنعتیں بند ہوچکی ہیں اور 75فیصد سے زیادہ صنعتوں نے اپنی پیداواری صلاحیتیں آدھی سے بھی کم کردی ہیں جس سے ملکی ایکسپورٹس میں مسلسل کمی ہورہی ہے ۔ پاکستان آٹوپارٹس ایسوسی ایشن کے مطابق لاکھوں افراد بیروزگار ہوچکے ہیں جس میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ جولائی سے مارچ تک 9مہینوں میں پاکستان کی آمدنی 3400ارب روپے جبکہ قرضوں اور سود کی ادائیگیاں اس سے زیادہ 3500 ارب روپے تک پہنچ گئیں۔ IMF کے مطابق جون 2030تک ہمیں 3.7ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس کیلئے ہمیں چین سے 2 ارب ڈالر رول اوور اور دوست ممالک سے اضافی ڈپازٹس کی درخواست پھر کرنا پڑے گی لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین