عمران خان نے بڑی غلطی کر دی۔ فوج سے لڑائی اُن کو مہنگی پڑ گئی۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اُنہوں نے فوج اور فوجی قیادت کے خلاف جو بیانیہ بنایا اُس کے نتائج (چاہے 9 مئی کے واقعات کے پیچھے کوئی سازش تھی یا نہیں) یہی ہونا تھے۔ میں کہتا رہا کہ فوج کے ساتھ لڑائی، اُن پر غداری کے الزامات، اُنہیں میر جعفر اور میر صادق کے طعنے دینا ، اپنے اوپر قاتلانہ حملےاور قتل کرنے کی سازشوں کا الزام بھی فوج کے اہم افسران پر لگانا! یہ سب کچھ نہیں چلے گا لیکن خان صاحب ، جس طرح سیاستدان ایک دوسرے پر جھوٹے سچے الزامات لگاتے ہیں ،اُسی انداز میں فوج کو نشانہ بناتے رہے جس کی وجہ سے اُن کے سوشل میڈیا نے فوج پر اس ایک سال کے دوران ایسے ایسے الزامات لگائے، اتنی گھناونی ہرزہ سرائی کی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یوں تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز میں اپنی ہی فوج کے خلاف ایک ایسا زہر بھر دیا جس کا نتیجہ 9 مئی کی صورت میں نکلا جو پاکستان کی تاریخ کا ایک تاریک ترین دن تھا۔حکومتی اور عسکری ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں کے پیچھے ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا متعلقہ ادارے یہ سنگین الزام عدالت میں ثابت کر پائیں گے کہ نہیں ؟تاہم جو ہوا اُس کے الزام سے تحریک انصاف اور عمران خان بری نہیں ہو سکتے۔ یہ کہنا کہ یہ ایجنسیوں کے سازش تھی اور حملے کرنے والوں کا تحریک انصاف سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، اسے تسلیم کرنا مشکل ہے کیوں کہ جو کچھ پہلے ہی سامنے آ چکا ہے، وہ تحریک انصاف اور اُس کی اعلیٰ قیادت کے پریشان ہونے کیلئے کافی ہو گا۔ عمران خان اگرچہ ابھی دوسروں پر الزام ڈالنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں لیکن اُن کے بہت سے رہنما بڑی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ اُنہیں احساس ہے کہ بہت بڑی خرابی ہوگئی۔ جو ہوا وہ ایسا داغ ہے جو اُن کی سیاست کیلئے سمِ قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات نے تحریک انصاف کو اقتدار کی سیاست سے کوسوں دورکر دیاہے۔تحریک انصاف کے کئی رہنما فوج کے ساتھ تحریک انصاف کی لڑائی کے خلاف ہیں اور اسی لئے اب پارٹی کے اندر سے 9 مئی کے واقعات کی مذمت ہونا شروع ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کی بھی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ فواد چوہدری نے گزشتہ رات رہائی کے بعد فوجی عمارتوں اور دیگر تنصیبات وغیرہ پر حملوں کے بارے میں کہا کہ وہ انتہائی قابل شرم تھے، اُنہوں نے کہا کہ فوج ہے تو پاکستان ہے اور پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ فواد چوہدری نے جو کہا وہ عمران خان کے بیانیہ سے مختلف ہے اور محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ فواد چوہدری اب عمران خان کیلئے شاید قابل قبول نہ ہوں۔ سابق ایم این اے اور تحریک انصاف کے رہنما عامر کیانی نے مجھے بتایا کہ اُنہوں نے سیاست اور تحریک انصاف کو خیرباد کہہ دیاہے۔ کراچی سے تحریک انصاف کے اہم رہنما علی زیدی بھی شاید اب پارٹی میں نہ رہیں، اگرچہ اُنہوں نے پارٹی چھوڑنے کی سختی سے تردید کی ہےلیکن اُنہوں نے جو کچھ 9 مئی کو ہوا اُس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ اُنہوں نے ٹی وی کے ذریعے دیکھا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ اُنہوں نے دو بار کہا کہ فوج ہم سے ہیں اور ہم فوج سے ہیں، گویا زیدی صاحب نے بھی عمران خان کے بیانیہ کی مخالفت کر دی۔ کراچی سے تحریک انصاف کے ایک ایم این اے محمود مولوی نے بھی پارٹی چھوڑ دی ہے۔ آنے والے دنوں میں اب یہی کچھ بہت دیکھنے کو ملے گا۔ تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا اس بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اپنی سیاست اور اپنی پارٹی کے ساتھ بہت زیادتی کی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ گزشتہ ایک سال سے اُنہیں اپنی پارٹی کے رہنما بار بار سمجھاتے رہے کہ فوج کو نشانہ مت بنائیں، فوج سے لڑائی مول نہ لیں لیکن وہ نہ رکے اور چند دن قبل جب اُن کے بارے میں یہ کہا جانے لگا کہ وہ پاکستان کی مضبوط ترین شخصیت بن چکے ہیں تو اُنہوں نے موجودہ آرمی چیف کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ وہ اپنے بارے میں ایک ایسی غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ بھول گئے کہ فوج کے ساتھ لڑ کر اور فوج پر پُرتشدد حملوں کے بعد تحریک انصاف کی سیاست کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)