• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گذشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کی ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے بجا طور پر اس بات کی تجدید کی تھی کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات معمول کے نہیں بلکہ ہر طرح کے اختلافات سے پاک ، دو اچھے ہمسایوں اور اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر استوار ہیں۔ یہ مشترکہ سوچ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک ایران ہے اور حالیہ دنوں میں سعودی ایران تعلقات کی بحالی اور خوش آئند پیشرفت پاکستان کے بشمول خطے کی ترقی و خوشحالی میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ اس منظر نامے سے ہٹ کر ایک نہایت اہم ایشو پاک ایران دوطرفہ تجارت ہے جس کے تحت دونوں ممالک اشیا و خدمات میں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کے حامی ہیں۔ جمعرات کے روز 900 کلومیٹر طویل پاک ایران سرحد کے پشین مند کراسنگ پوائنٹ پر مشترکہ طور پر قائم کردہ پہلی مارکیٹ اور گوادر کیلئے ایران سے فراہم کردہ بجلی کی 100 میگاواٹ ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح وزیراعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی نے مشترکہ طور پر کرتے ہوئے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ہمیں تجارت ،سرمایہ کاری،آئی ٹی، زراعت اور دیگر معاشی میدانوں میں آگے بڑھنا چاہئے۔ اپنی ٹیموں کے ہمراہ دونوں رہنماؤں نے آزاد تجارتی معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا۔ یہاں اس بات کا اظہار کیا جانا ضروری ہے کہ پاکستان کم و بیش تین دہائیوں سے توانائی کے جس بحران کا شکار ہے اور آج نوبت شعبہ بجلی کے انتہائی سطح کے گردشی قرضوں اور پھر سے بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ اور تیل و گیس کی کمیابی تک جا پہنچی ہے جبکہ موجودہ حالات میں معیشت سمندر پار سے یہ ضروریات انتہائی مہنگے داموں پوری کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ، ایران نے ایک بار پھر ان کی فراہمی اور اس کے بدلے میں پاکستان کی زرعی و صنعتی پیداوار کی درآمد بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ جہاں سستی بجلی کا حصول اہم ترین قدم ہے وہیں کراسنگ پوائنٹس پر مشترکہ مارکیٹوں کا قیام اربوں روپے کی اسمگلنگ کی روک تھام میں مدد دے گا۔ ایران، پاکستان کے لئے سستے تیل و گیس اور بجلی کی فراہمی میں انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے اور پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت نے وہاں سےگیس پائپ لائن لانے کا معاہدہ بھی کیا تھا، اسی طرح وہ پاکستان سےباسمتی چاول، آم اور کینو کا ایک بڑا خریدار ہے جبکہ دیگر برآمدات میں کپڑا اور سیمنٹ قابل ذکر ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی وفود کا بلا تعطل تبادلہ ہوتا آیا ہے اور حکومتی قیادتیں بارہا ایک دوسرے سے ملاقات اور معاہدے کرتی آئی ہیں تاہم خطے کی صورتحال کے تناظر میں بعض سیاسی مصلحتیں آڑے آئیں جس کا اثر باہمی تجارت پر پڑا ، یہی وجہ ہے کہ آج تجارتی حجم اپنی استعداد سے بہت کم ہے ۔ 2016 میں طے پانے والے معاہدے کے تحت اسے 2021 تک 30 کروڑ ڈالر سے بڑھاکر پانچ ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق ہوا تھا یہ پروگرام آج بھی تشنہ تکمیل ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پاک ایران سرحد پر ہونے والی متذکرہ اعلیٰ سطحی ملاقات میں ایرانی صدر کو جلد پاکستان آنے کی دعوت دی ہے تاکہ التوا میں پڑے معاہدوں پر پیشرفت ہوسکے جس کا ایرانی قیادت نے خیر مقدم کیا ہے ۔ انھوں نے توانائی کے شعبے میں پاکستان کو اپنے مکمل تعاون کی پیشکش کی ۔ یہاں اس بات کا اظہار کیا جانا ضروری ہے کہ دیرینہ دوست اور تجارتی پارٹنر عوامی جمہوریہ چین سمیت دیگر پڑوسی ممالک باہمی تجارت کے تحت ایک دوسرے کی ضروریات زندگی پوری کرنے کی مکمل استعداد رکھتے ہیں جس کی رو سے نہ صرف بارٹر سسٹم کو فروغ مل سکتا ہے بلکہ اس سے ڈالر کی قدر میں کمی کا رجحان فروغ پائے گا۔

تازہ ترین