1966 میں ہریانہ کو پنجاب سے علیحدہ کرکے ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ 1967 بھارت میں عام انتخابات کا سال تھا اور ریاست ہریانہ کیلئے یہ پہلے الیکشنز تھے۔ ضلع پلوال کے علاقے حسن پور سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن گیا لال نے پارٹی ٹکٹ سے الیکشن لڑنے کی درخواست کی جو رد کر دی گئی۔ چنانچہ انہوں نے کانگریس سے استعفیٰ دے کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔گیا لال کی جیت کی خبر سن کر کانگریس کا ایک وفد ان سے ملا، گلے شکوے دور کئے اور وہ پھر سے کانگریس میں شامل ہوگئے۔اگلے روز یونائیٹڈ فرنٹ کے لوگ گیا لال سے ملنے آئے۔ علاقے کے لوگوں نے لال جی کو قائل کیا کہ جس پارٹی نے آپ کو الیکشن سے پہلے رد کر دیا تھا اس میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں اور آپ کی خاطر ہم بھی کانگریس چھوڑے دیتے ہیں۔ گیا لال جی کو حلقے کے لوگوں کی بات پسند آئی اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ یونائیٹڈ فرنٹ کو جوائن کریں گے۔ اس اعلان کے بعد حسن پور میں مٹھائی بانٹی گئی۔جب یہ اطلاع کانگریس کے لیڈر راؤ بریندر سنگھ کو ملی تو وہ گیا سے ملنے ان کے گھر گئے۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد انہیں اپنے ساتھ لیا اور شام کو ایک پریس کانفرنس میں فاتحانہ مسکراہٹ لئے صحافیوں کو بتایا کہ ’گیا رام اب آیا رام ہے‘ اور ان کی دوبارہ کانگریس میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ حسن پور کے لوگ جنہوں نے گیا لال کی خاطر کانگریس چھوڑی، ان پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ بقول شاعر:’’ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ اپنا مذہب چھوڑ کر...میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا‘‘یہ تاریخی واقعہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ دوستوں نے دباؤ ڈالا، گیا لال نے صرف نو گھنٹے بعد ایک بار پھر وفاداری تبدیل کی اور یونائیٹڈ فرنٹ میں شامل ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند دن بعد وہ پھر کانگریس سے جا ملے۔ گویا:’’پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں...پھر وہی زندگی ہماری ہے‘‘اپنے باقی سیاسی کیریئر میں بھی گیا لال کو ’مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں۔‘ 1972 میں انہوں نے آریہ سبھا میں شمولیت اختیار کی اور دو سال بعد وہ بھارتیہ لوک دل سے جا ملے۔ گیا جی نے اپنا آخری الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت سے 1982 میں لڑا جس میں وہ ہار گئے۔ایک سیاسی جماعت سے دوسری میں جانا برا نہیں، لیکن جس طرح گیا لال نے پارٹیاں بدلنے کی داستان رقم کی، اس طرح کے معاملات پر سوال ضرور اٹھتے ہیں۔ جاپان سے لے کر امریکہ اور ناروے سے لے کر افریقہ تک سیاست دان، جماعتی وابستگیاں تبدیل کرتے رہتے ہیں، جن کی بنیادی وجہ نظریاتی بھی ہو سکتی ہے اور ذاتی مفادات کا حصول بھی۔پارٹی بدلنے کی عمومی طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سابق جماعت میرے نظریات سے متصادم تھی اور یہ کہ موجودہ پارٹی ہی لوگوں کی توقعات پر پورا اتر سکتی ہے وغیرہ۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا مقصد ملکی مفادات کا تحفظ اور عوامی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدان اگر ایک جماعت سے دوسری میں شامل ہو جائیں تو اسے انہونی بات نہیں سمجھا جاتا۔برطانیہ کے سابق وزرائے اعظم ولیم گلیڈسٹون اور ونسٹن چرچل، رکن پارلیمنٹ جارج گیلووے، سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ جیک اسٹرا اور لارڈ نذیر احمد سمیت متعدد سیاستدانوں نے ایک پارٹی سے دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔اسی طرح امریکہ کے بینجمن فرینکلن، صدر تھیوڈور روزویلٹ، صدر رونالڈ ریگن، صدر ڈونلڈ ٹرمپ، ابراہم لنکن کے نائب صدر ہینی بال ہیملن، نائب صدر مائیک پینس، وائٹ ہاؤس کے سابق چیف آف اسٹاف لیون پنیٹا، سیکرٹری آف ا سٹیٹ کنڈولیزا رائس، ہلیری کلنٹن اور کولن پاول بھی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔رونالڈ ریگن سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے ڈیموکریٹک پارٹی کیوں چھوڑی تو انہوں نے دلچسپ جواب دیا کہ میں نے نہیں، پارٹی نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔پاکستان میں بھی آئے روز سیاسی وابستگیاں تبدیل کی جاتی ہیں، لیکن یہاں ایک پارٹی سے دوسری میں جانے والے کو کبھی ’لوٹا‘ کہہ کر اس کی تضحیک کی جاتی ہے، کبھی ’مہرہ‘ قرار دے کر اس کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور کبھی موقع پرست ٹھہرا کر خودغرضی کا کلنک اس کے ماتھے پر ثبت کر دیا جاتا ہے۔ بعض کا ٹی وی ٹاک شوز میں صرف اس بات پر مذاق اڑایا جاتا ہے کہ آپ نے تو تین پارٹیاں بدل لی ہیں، آپ کی بات کا کیا اعتبار؟مخالفین کا رویہ ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا کسی گناہ کبیرہ کا ارتکاب کر لیا گیا ہو۔ ایسی صورت حال میں شاید ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ قائد اعظم، سردار عبدالرب نشتر اور مولانا محمد علی جوہر نے بھی پارٹی تبدیل کی تھی۔ اسی طرح ملائیشیا کے ہیرو مہاتیر محمد نے اپنے کیریئر میں کئی بار سیاسی پلیٹ فارم تبدیل کیا۔دنیا میں کتنی ہی ایسی مثالیں ہیں جب ایک پارٹی سے دوسری میں جا کر لوگوں نے بہتر پرفارم کیا۔ کئی بار یوں بھی ہوا کہ نئی سیاسی وابستگی شہرت کے لئے مہلک ثابت ہوئی اور بعض اوقات ایسے بھی ہوا کہ لوگوں نے پارٹی سے تنگ آ کر سیاست ہی سے کنارہ کشی کر لی۔سیاست ہر شخص کی اپنی پسند ناپسند پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کو اختیار ہے کہ جب چاہے ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری جوائن کر لے۔ تنقید اس بات پر نہیں ہونی چاہئے کہ آپ نے ایک جماعت سے دوسری میں کیوں شمولیت اختیار کی۔ سوال یہ ہونا چاہئے کہ آپ نے پہلی جماعت کے عہد میں کیا ڈلیور کیا اور یہ کہ موجودہ جماعت سے وجہ وابستگی کس طرح نظریاتی ہے اور ذاتی مفادات کا حصول نہیں!کسی کی سیاسی زندگی پر فیصلہ دیتے وقت ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ جماعتی وابستگی تبدیل کرنے والا رہنما گیا لال کے نقش قدم پر چل رہا ہے یا جناح اور جوہر کی پیروی کر رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)