ایک دوست نے ڈاکٹر طاہر القادری کے تیسرے دھرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے دو دھرنوں سے کیا حاصل ہوا ہے کہ تیسرے دھرنے سے کچھ بہتری کی توقع رکھی جائے ۔کسی نے اسکے جواب میں کہا کہ شہاب الدین غوری نے ہندوستان پر کتنے حملے کئے تھے اور شکست کھائی تھی مگر مایوس نہیں ہوا تھا۔ڈاکٹر طاہرالقادری کی پھر آمد ان کے حوصلے واستقامت کی خبر دیتی ہے ۔فتح اسی کو ملتی ہے جو فتح کیلئے آخری سانس تک لڑتا رہتا ہے ۔
ڈاکٹر طاہر القادری جب اپنا دوسرادھرنا ختم کرکے واپس یورپ چلے گئے تھے تو یہ الزام بڑی شدومد سےپھیلا دیا گیا تھا کہ انہوں نے حکومت سے ڈیل کرلی ہے ۔اپنے شہیدوں کی لاشیں بیچ دی ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔خیر مجھے تواُس وقت بھی اس بات کا یقین تھا کہ کوئی ڈیل ویل نہیں کی گئی ۔مخالفین موقع کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔بے شک اس دھرنے کے خاتمے سے ڈاکٹر طاہر القادری کوسیاسی اور مذہبی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچا ۔دھرنے میں شریک کئی لوگوں کو بلک بلک کے روتے ہوئے دیکھا گیا۔میرا ذاتی خیال تھا کہ شایداب ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز پر عام لوگ اس طرح جمع نہیں ہونگے جیسے پہلے ہوتے تھے اور اس دھرنے کے اچانک خاتمے پر بہت سے کارکنوں کے دل ٹوٹ گئے تھے بلکہ کئی کارکن منہاج القران کو چھوڑ بھی گئے تھے۔
مگر سترہ جون کا احتجاجی دھرنا (جسے ختم نہیں ملتوی کیا گیا)دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ لوگ اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مال روڈ پر پہنچے ہوئے ہیں یعنی کسی طرح کے جھوٹے پروپیگنڈا سے متاثر نہیں ہوئے ۔ان کے دل میں ڈاکٹر طاہر القادری کا احترام اسی طرح موجود ہے۔ کارکن اسی طرح ان کے اشاروں پر جان قربان کرنے کےلئے تیار ہیں ۔بے شک یہ ان کی ایک حیرت انگیز کامیابی ہے مگر ایک اور کامیابی جو اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب قرار دی جاسکتی ہے ۔وہ ان کاباقی سیاسی پارٹیوں کو اپنا ہم آہنگ بنالیناہے ۔گزشتہ دھرنے کے موقع پر تمام اپوزیشن حکومت کے ساتھ کھڑی تھی مگر اس دھرنے میں تقریباًتمام اپوزیشن پارٹیوں کے اہم نمائندےڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھے۔
اس افطار سے سحری تک پھیلے ہوئے دھرنے میں ڈاکٹر طاہر القادری کا جو اہم ترین مطالبہ سامنے آیاوہ سانحہ ماڈل ٹائون کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جانے کا ہے ۔اس کےلئے انہوں نے اپنی تقریر میں باقاعدہ جنرل راحیل شریف سے درخواست کی کہ سانحہ کی ایف آئی آر بھی انہی کے حکم پر درج ہوئی تھی اب قصاص بھی صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ انصاف گاہ کاتعلق افواجِ پاکستان سے ہو ۔یقیناً جنرل راحیل شریف بھی چاہتے ہونگے کہ پاکستان میں ہر مظلوم کی داد رسی ہو ۔ ماڈل ٹائون کے سانحہ میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کو بھی انصاف ملے ۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں صرف وہی مقدمات چل سکتے ہیں جو وفاق یا صوبے فوجی عدالتوں کو بھیجیں ۔ خود سے فوجی عدالت کسی مقدمے کو نہیں اپنا سکتی ۔پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے اس مطالبے پر یہی کہا ہے کہ اگر وہ مقدمہ فوجی عدالت میں بھجوانا چاہتے ہیں تو قانونی راستہ اختیار کریں ۔یعنی جن کے خلاف مقدمہ ہےانہیں سے کہیں کہ یہ مقدمہ فوجی عدالت میں بھیجا جائے وہ لوگ جنہوں نے آج تک عدالتی کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں آنے دی ان سے کوئی کیسے توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ یہ کیس فوجی عدالت کو ریفر کریں گے ۔اب دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں جنرل راحیل شریف کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری عید تک ان کے جواب کا انتظار کریں گے اور پھریہ ملتوی شدہ دھرنادوبارہ سے آبادہوجائے گا۔ وہیں سے جہاں اسے ملتوی کیا گیا ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک انصاف نہیں مل جاتا۔دھرنے میں تقریباً تمام تقریر کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری کے ایک طرف جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور دوسری طرف شیخ رشید کھڑے رہے ۔چوہدری برادران نے اپنی نمائندگی کےلئے کامل علی آغا کو بھجوایا تھا ۔ان کےخود نہ آنے کابھی یقینا کوئی سبب ہوگا ۔پیپلز پارٹی کے منظور وٹو اورسردار لطیف کھوسہ کی تقاریر کی تیزی اورتلخی دیکھ کرتو میں سوچنے لگا تھا کہ کہیں ان کا شمار بھی سانحہ ماڈل ٹائون کےشہیدوں کے لواحقین میں تو نہیں ہوتا ۔مجھے وہ دن یاد آگئے جب ڈاکٹر طاہرالقادری کے پہلے دھرنے کے خاتمے کےلئے پیپلز پارٹی نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس پر پیپلز پارٹی کے وزیراعظم سمیت تمام کابینہ نے دستخط کئےتھے اور دھرنا ختم ہوتے ہی اپنے معاہدے سے منحرف ہوگئے تھے بلکہ ٹی وی شوز میں خود اس معاہدےکا مذاق اڑاتے تھے ۔وقت بدلتا رہتا ہے پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ اعلان بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ’’اس مرتبہ عمران خان اور بلاول بھٹو ایک ہی کنٹینر پر ہونگے ‘‘
مختلف ٹی وی چینلز پرڈاکٹر طاہر القادری کے متعلق حکومتی دانشور پھروہی کہہ رہے ہیں کہ وہ اسکرپٹ کے مطابق اپنا کردار کریں گے۔ پھر ایک سازش کے تحت آئے ہیں۔ پچھلی مرتبہ بھی اُن پر یہی الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک اسکرپٹ کے مطابق آئے ہیں ۔مگر یہ الزام سچ ثابت نہیں ہواتھا۔ جن پراسکرپٹ لکھنے کا الزام تھاانہوں نے سیاسی معاملات میں کسی طرح کی دخل اندازی نہیں کی تھی ۔اس وقت بھی الزام وہی پراناہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مرتبہ اس سازش میں ق لیگ اور تحریک انصاف کے ساتھ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی بھی شامل ہے۔کچھ اور سچ ہو نہ ہو یہ بات ضرور حقیقت پر مبنی ہے کہ روز بروز حکومت کے ارد گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے ۔اپوزیشن نے اس مرتبہ حکومت کوگھیرنے کےلئے ایک طرف قصاص کی خندق کھود دی ہے تو دوسری طرف پانامہ لیکس کی دیوار کھڑی کردی ہے ۔
بظاہر ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کا مقصد صرف اپنے شہیدوں کا قصاص مانگنا ہے ۔وہ عید کے بعد اسی قصاص کےلئے اپنا ملتوی شدہ دھرنا شروع کریں گے اورباقی اپوزیشن عید کے بعد ’’پاناما لیکس‘‘ کے ایشو پر اپنی احتجاجی تحریک شروع کرے گی ۔حکومت کےلئے پانامہ لیکس سے کہیں مشکل مرحلہ ماڈل ٹائون کے شہیدوں کا قصاص ہے ۔حکومت چاہتی ہے کہ شہیدوں کے لواحقین کسی طرح دیت وصول کرلیں مگر دو سال سے حکومت اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔یہ بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک اور بڑی کامیابی ہے وگرنہ دولت اور طاقت کے سامنے کہاں کوئی غریب مظلوم ٹھہر سکا ہے۔