• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ بظاہر گاڑی چلارہے ہوتے ہیں، کسی فٹ پاتھ یا پارک میں چل رہے ہوتےہیں، گھر، دفتر، بازار میں کہیں کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں تو ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے ہوتے ہیں۔آج سے پچیس تیس سال پہلے کوئی ایسے کر رہا ہوتا تو پاگل شمار ہوتا مگر آج یہ سب روٹین کا حصہ ہے۔یہ سب اُن کے کان کے پاس لگی اک چھوٹی سی ڈیوائس اور گاڑی کے ڈیش بورڈ،میز کی دراز، یا جیب میں رکھے موبائل فون کا مرہون منت ہے۔جس کے ذریعے وہ ہزاروں میل دور کسی اور براعظم میں اپنے کسی دوست سے براہ راست محوِ گفتگو ہوتے ہیں، ذرا سوچئے فون کی ایجاد سے پہلے کا کوئی انسان لوٹ آئے تو اس کو کرامت قرار دے، یہ تمام سگنلز کا کمال اور کرامت ہی تو ہے۔ انسانی ذہن کی کارفرمائی ہے، سائنسی فکر فطرت کی قوتوں کو ہمنوا بنا کر خلا میں ہزاروں ٹن وزنی جہاز اڑاتی ہے اور ہوا کی لہروں کو تاریں بنا کر رابطے استوار کرتی ہے۔ موبائل نیٹ ورک کی طرح ہی روحانی نیٹ ورک کام کرتا ہے۔وہاں کسی قسم کی ظاہری تاریں نہیں ہوتیں، اندرونی سسٹم نمبر ملاتا اور رابطے ممکن کرواتا ہے۔ روحانی فضیلت یا اہلیت عبادت یا ریاضت سے حاصل نہیں ہوتی۔ ریاضتوں سے صرف سسٹم کے ساتھ تعلق مضبوط کیا جاتا ہے۔ اگر آسان لفظوں میں کہوں تو قدرت کی طرف سے کچھ لوگوں کو یہ مخصوص پیکیج عنایت کر کے بھیجا جاتا ہے، انہیں صرف اس کو آن، آف کرنا اور فنکشنز سمجھنا ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے انسان کے اندر لطافت بڑھتی جاتی ہے اور نفس کی سلطنتیں مطیع ہوتی جاتی ہے اس کا دائرہ کار بڑھا دیا جاتا ہے لیکن یہاں بھی اپ ڈیٹ کرنے کا اختیار انسان کے پاس رکھا گیا ہے۔اگرچہ یہ روحانی لہریں اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ ہر حال میں انسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتی ہیں لیکن پھر بھی دنیاوی بکھیڑوں اور مادی سرگرمیوں میں الجھا انسان اگر اسے مسلسل نظرانداز کرتا رہے اور اس کے سگنلز پر ردعمل نہ دے تو پھر یہ اس پر بجلی بن کر گرتی ہیں اور اس کے وجود سے تمام کثافت اور رکاوٹیں جلا کر خاکستر کر دیتی ہیں، یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے مگر سزا میں جزا بھی ہے۔ قدرت کی مہربانی کو عمل میں لانے کیلئے نیٹ ورک سے جڑے رہنا ضروری ہوتا ہے۔ وجود کی عمارت پر نصب انٹینا کا رُخ درست رکھنا بھی مقصود ہے تاکہ کسی اور ایجنسی یا طاقت کے سگنلز کی دخل اندازی نہ ہو۔

جس طرح آج سائنسی ایجادات کی بدولت ہم دنیا کے کسی بھی ملک میں رابطہ کرسکتے ہیں ، صوفی اور ولی بھی اسی طرح ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے مرشد سے بات کرتے تھے۔ درویش کے درجے پر فائز جب اپنے آپ سے باتیں کرتے کرتے دور دراز علاقوں میں رونما ہونے والے حالات کی خبر دیتے تھے تو کم عقل انھیں دیوانہ کہتے تھے، بس یہ سمجھ لیجئے صوفی کے پاس جو موبائل ہے وہ نظر نہیں آتا، اسے ہینڈفری کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، وہ گھنٹوں باتیں کر سکتا ہے، ویڈیو کال کے ذریعے مرشد کا دیدار کر سکتا ہے اور اُسے اپنی بے تابی سے بھی آگاہ کر سکتا ہے۔ اس کی رہنمائی حاصل کر سکتا ہے، لیکن یہ دو طرفہ عمل ہے ۔جس طرح کسی فرد سے بات کرنے کیلئے اس کا فون نمبر ڈائل کرنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح ولی بھی ایک باطنی سسٹم سے جڑے ہوتے ہیں۔انھیں بھی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔بعض اوقات مرید کی کوئی غلطی اسے سسٹم سے باہر پھینک دیتی ہے، اس کے رابطے مفقود ہو جاتے ہیں۔ مرشد کی نظر کرم میں دوبارہ جگہ پانے کیلئے اسے گھنگرو باندھ کر رقص کرنا پڑتا ہے اور کبھی سخت چلے کاٹنے پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی آزمائشی طور پر روحانی ہستیوں کو نیٹ ورک سے کچھ عرصے کیلئے بے دخل کر دیا جاتا ہے کہ جدائی کا روگ جھیلنا بھی تربیت کا حصہ ہے۔ کیونکہ اسے اپنی یکسوئی اور بھرپور توجہ سے اپنے نظام کو چارج کرنا پڑتا ہے۔

اکثر پوچھا جاتا ہے کہ روحانی رابطے کیسے کام کرتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ جس طرح انٹرنیٹ کے سگنلز کا راستہ ہموار ہو تو اسکرین پر ساری ٹریفک بھاگتی دکھائی دیتی ہے اسی طرح روحانی رابطے کام کرتے ہیں۔ بصارت، سماعت اور وجدان کے تین سگنلز وجود کے انٹینا پر ظاہر ہو رہے ہوں تو وہ کچھ دِکھا، سنا دیتے ہیں جن سے ارد گرد بیٹھے لوگ بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ سامنے بیٹھے فرد کے ماتھے پر اس کی فطرت کا جوہر ہیڈلائن کی طرح چمکنے لگتا ہے، فرد کس راستے کامسافر ہے ؟ اس کی سوچ منفی ہے یا مثبت اور وہ خیر کے پھیلاو میں کس حد تک سرگرم ہے۔ سب معلوم ہو جاتا ہے، زیادہ تفصیلات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی اور نہ اس کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے کہ ہر کسی کی پردہ داری قدرت کو بھی مقصود ہے۔

تازہ ترین