• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلباء قوم کا باشعور طبقہ ،سیاست میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا، پشتونخوامیپ

کوئٹہ (پ ر ) پشتونخوا وطن کے شہیدوں اور ملی مبارزین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے قومی ارمانوں کی تکمیل کےلیے مسلسل جدوجہد لازمی ہے قوم کے باشعور طبقے کے طور پر طلباء نے سیاست کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار پشتونخوامیپ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات عیسیٰ روشان نے پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام ظریف شہيد کی 55 ویں برسی کے موقع پر منعقدہ تعزیتی سیمینار سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔سیمینار سے پارٹی کے صوبائی سیکرٹری خوشحال کاسی، صوبائی سیکرٹری اطلاعات زمان خان کاکڑ، زونل آرگنائزر لطیف خان کاکڑ، ڈاکٹر مزمل، ملک شعیب، شفیع ہنہ وال، بایزید آغا، رفیع اللہ پشتون، بایزید روشان نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض حمداللہ شہزاد نے ادا کئے۔ اس موقع پر پارٹی کے صوبائی ڈپٹی سیکریٹریز رحمت صابر، علی ترین اور احسان آغابھی موجود تھے۔ مقررین نے کہا کہ ظریف شہيد ایسے وقت اور حالات میں پشتون سیاسی تحریک کا حصہ بنے جب ایک طرف ملک میں ایوبی مارشل لاء مسلط تھی، ہر قسم کی بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، تحریر اور تقریر پر پابندی تھی، پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی اور بنگالی قوموں کےقومی حقوق سے مسلسل انکار کیا جارہا تھا اور ظلم اور جبر کے ذریعے حق کی آوازوں کو دبایا جا رہا تھاجبکہ دوسری طرف نیشنل عوامی پارٹی جمہوریت، حقیقی فیڈریشن کے قیام ،قوموں کی ملی تشخص زبان و ثقافت اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کیلئے سرگرم جدوجہد کر رہی تھی۔ اسی اثنا پشتون طلباء نے پشتون اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے تنظیم کی بنیاد رکھی جس کے پہلے صدراخونزادہ عبد الرزاق (ضلع لورالائی) اور جنرل سیکرٹری ڈاکٹر نورمحمد شادوزئی ( ضلع دکی) بنے اور نوجوان ظریف شہیدبانی اراکین میں شامل تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی اور دیگر جمہوری قوتوں کی جدوجہد کے نتیجے میں جب ایوبی مارشل لاء کا خاتمہ ہوا اور خان شہید عبد الصمد خان اچکزئی کو طویل قید و بند سے آزاد کیا گیا تو عوام کے ساتھ ساتھ پشتون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنما وں اور کارکنوں نےائیر پورٹ پر انکا فقید المثال استقبال کیا ۔ پشتون طلباء کی یہ سیاسی سرگرمی فوجی حکمرانوں کو سخت ناگوار گزری اور انہوں نے مسلح سیکورٹی فورسز کے ذریعےتعلیمی اداروں میں خوف کا ماحول برقرار رکھنے اور سیاسی عمل کو کچلنے کیلئے 29 مئی 1968کو رات کے اندھیرے میں سائنس کالج ہاسٹل پر حملہ کیا اور اندھادند فائرنگ میں ظریف کو شہید اور درجنوں طلباء زخمی کر دیئے گئے۔ یہ ظریف شہید اور زخمیوں کے خون اور ملک میں جمہوری قوتوں کی جدوجہد کا نتیجہ تھا جب ملک میں ایوبی مارشل لاءکے خلاف عوام نے سخت ردعمل دکھایا اور فوجی حکمرانوں کو مارشل لاء کے خاتمے اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرنے پر مجبور ہوئے اور یوں اس جدوجہد کے نتیجے میں 1970 کے انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکا اور بعد میں فوجی حکمرانوں نے انتخابی نتائج ماننے اور اقتدار بنگالیوں کو حوالہ کرنے سے انکار کرکے ملک کو دولخت کیا۔انہوں نے کہا کہ شہیدوں کے سالار خان شہید عبد الصمد خان اچکزئی ، ملی شہید عثمان خان کاکڑ، عبد الرحیم کلیوال شہید، ارمان لونی شہید، عارف وزیر شہید اور پشتونخوا وطن کے تمام معلوم و نامعلوم شہیدوں، ملی سیاسی مبارزین کے قومی ارمانوں کی تکمیل کیلئے پشتونخوااسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤں اور کارکنوں پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ سنجیدگی،عزم، جزبے اور ولولے کے ساتھ تعلیمی اداروں میں طلباء کو سیاست کی جانب راغب کرکے منظم انداز میں جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ اس کے ساتھ پشتونخوا وطن سے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے، تعلیمی اداروں میں ترقی اور تعلیمی بہتری کیلئے مثبت اور سرگرم کردار ادا کریں اور طلباء کو مستقبل کے چیلنجوں سے مقابلہ کرنے اور ہر قسم کے ذاتی مفادات ، لالچ ، خوف و ڈرسے بالاتر ہوکر معاشرے کی خدمت کرنے کیلئے تیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخوامیپ کا مستقبل پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے قابل،باشعور، مخلص، سنجیدہ اور تربیت یافتہ اراکین سے وابستہ ہے اور مستقبل میں یہی لوگ پارٹی کے قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں گے اس لیے ضروری ہے کہ وہ قوم کی رہنمائی کے اس کردار کیلئے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے تیار کریں۔
کوئٹہ سے مزید