• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف سماعت، چیف جسٹس نے گڈ ٹو سی یو کا حوالہ دے دیا

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال—فائل فوٹو
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا ہے کہ حکومت کو عدلیہ کی قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے، انہوں نے گڈ ٹو سی یو کا حوالہ بھی دیا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔

لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس محمد علی مظہر بھی شامل ہیں۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان سے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب! آپ نے کچھ کہنا تھا؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے 2 قوانین ہیں، ایک سپریم کورٹ ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹ ایکٹ ہے، دوسرا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے، دونوں قوانین میں ریویو اور وکیل کرنے کی شقوں کی آپس میں مماثلت ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیادہ وسیع ہے،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے متعلق شقیں ہیں، دونوں قوانین میں سے کس پر انحصار کرنا ہے اس پر کسی ایک حل پر پہنچنا ضروری ہے۔

عدلیہ کی قانون سازی پر ہم سے مشاورت کرنی چاہیے: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ دونوں قوانین میں ہم آہنگی کے لیے پارلیمنٹ کو دیکھنے کا کہہ سکتے ہیں، آپ کی اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہیں، خوشی ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت ایک جیسے قوانین میں ترمیم کر رہی ہیں، حکومت کو عدلیہ کی قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ اگر قوانین ایک جیسے ہیں تو انہیں حل کیا جا سکتا ہے یا نہیں، اگر قوانین آپس میں مماثلت رکھتے ہیں تو فُل کورٹ سے متعلق درخواستیں سننا وقت کا ضیاع ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت اس معاملے کو پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پارلیمنٹ کو یہ معاملہ نہیں بھیجیں گے، پارلیمنٹ اور حکومت اگر کوئی تجویز دیں تو اس پر غور کریں گے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ حکومت سے ہدایات لے لیں تب تک کسی اور کو سن لیتے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے پارلیمنٹ کی کارروائی طلب کی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اخبارات کے مطابق پارلیمنٹ نے کارروائی عدالت کو فراہم کرنے سے انکار کیا، لیکن ہم نے پارلیمنٹ کی کارروائی ان کی ویب سائٹ سے لے لی ہے، پارلیمنٹ کو شاید معلوم نہیں تھا کہ خوش قسمتی سے تمام کارروائی ویب سائٹ پر موجود ہے، اگلے ہفتے اس کیس کو سنیں گے، تمام وکلاء جو کراچی سے لمبا سفر کر کے آئے ان سے معذرت کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں موسم خوش گوار ہے، امید ہے سب انجوائے کریں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ریویو آف آرڈر کا سیکشن 4 سیکشن 6 سے مماثلت رکھتا ہے، دونوں قوانین میں ریویو کا طریقہ کار بھی مماثلت رکھتا ہے، مجھے یقین ہے کہ اٹارنی جنرل اور مسلم لیگ ن کے وکیل اس طرح کے تنازع کے دوران دلائل دینا نہیں چاہیں گے، پارلیمنٹ کو معاملہ بھیجنے سے لگے گا کہ اس پر فیصلہ کر دیا ہے، متضاد قانون سازی پر قوانین لے کر آئیں، ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ دونوں قوانین پر سوچیں اور ہم بھی مشاورت کریں گے، ورنہ دوسری صورت میں پارلیمنٹ اپنی کارروائی کرے ہم اپنی کرتے ہیں، دیکھیں گے کہ کون زیادہ تیز ہے۔

چیف جسٹس نے گڈ ٹو سی یو کا حوالہ دے دیا

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے گڈ ٹو سی یو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام وکلاء یہیں ہیں لیکن ان کو دیکھ کر اپنا جملہ نہیں دہراؤں گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آج کی سماعت کا حکم نامہ جاری کریں گے۔

قومی خبریں سے مزید