• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ دوسرا کالم بھی لندن میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ لندن میں رہنے والے دوستوںسے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ روزانہ کسی نہ کسی دوست کے ہاں کھانے پر کچہری ہوتی ہے ، جس میں گفتگو کا موضوع عالمی سیاست کے تناظر میں پاکستان کی سیاست ہوتی ہے ۔ ہمارا حلقہ یاراں ان لوگوں پر مشتمل ہے ، جو 1960ء، 1970ء اور 1980ء کے عشروں میں پاکستان کی سیاست میں سرگرم تھےوہ یا تو جلا وطن کر دیئے گئے یا خود انہوں نے حالات کے جبر میں انگلستان ہجرت کی ۔ وہ لوگ پاکستان کی سیاست کا جو ادراک رکھتے ہیں ، وہ ہماری نئی نسلوں میں بوجوہ مفقود ہے ۔ ان میں کئی دوستوں نے برطانوی سیاست میں اپنا مقام بنا لیا ہے ۔ اس دور کا سیاسی کیڈر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا بھی سرمایہ تھا اور اب برطانوی سیاسی جماعتیں بھی انہیں اپنا سرمایہ تصور کرتی ہیں کیونکہ ان کی سیاسی تربیت ہے اور وہ بنیادی سیاسی شعور کے حامل ہیں۔

ان دوستوں میں ہمارے ایک دوست بیرسٹر صبغت اللہ قادری تھے ۔ جن کا نومبر 2021 ء میں انتقال ہو گیا ۔ میں ان کے انتقال کے بعد پہلی مرتبہ لندن آیا ہوں ، یہاں ان کے بچوں سے میں نے تعزیت کی ۔ وہ ہمارے پرانے ساتھی تھے ۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف طلباء تحریک کے وہ پہلے طالب علم رہنما تھے ، جنہیں کراچی بدر کیا گیا تھا ۔ اسی دور میں مجھے بھی کراچی بدر کیا گیا تھا ۔ صبغت اللہ قادری اس کے بعد لندن آگئے تھے ۔ انہوں نے وہاں بھی ترقی پسندانہ سیاست کی اورلیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ وہ پہلے پاکستانی مسلمان ہیں ، جنہیں کوئینز کونسل یعنی ملکہ کا وکیل مقرر کیا گیا ۔ لیبر پارٹی میں بھی ان کا بڑا مقام تھا ۔ وہ لندن میں پاکستان کے سیاست دانوں ، سیاسی کارکنوں اور دوستوں کے سب سے بڑے میزبان تھے ۔ میں نے لندن کو ان کی نگاہ سے دیکھا ۔ لندن جیسا انہوں نے دکھایا ، ویسا میں نے کبھی دیکھا ۔ بیرسٹر صبغت اللہ قادری زندگی سے بھرپور شخص تھے اور ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر عمر کے لوگوں میں فٹ ہو جاتے تھے ۔ ہم جیسے لوگوں کو بیرسٹر قادری سے پہلے والا لندن کچھ اور لگتا تھا اور ان کے بعد والا لندن کچھ اور لگتا ہے ۔

گزشتہ ہفتے لندن میں ایک نشست اکرام قائم خانی کے گھر پر بھی ہوئی ۔ انہوں نے بہت سے دوستوں کو کھانے پر بلایا تھا ۔ ان میں ہمارے دوست اور لیبر پارٹی کے سرگرم رہنما مشتاق لاشاری بھی شامل تھے ۔ مشتاق لاشاری تھرڈ ورلڈ سالیڈیرٹی نامی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں ۔ ان کا لیبر پارٹی میں بہت اچھا مستقبل ہے ۔ اس محفل میں سوئیڈن کے پروفیسر ’’ سوچا ‘‘ (Sucha ) بھی شریک تھے ، جو لندن میں سیاسی پناہ لئے ہوئے ہیں ۔ ہمارے دوست انہیں ’’ سئیں سچا ‘‘ کے نام سے مخاطب کر رہے تھے ۔ وہ ایک بہت بڑے مفکر تھے ۔ محفل میں او ر بھی لوگ تھے ۔ وہاں ہونے والی گفتگو میں،میں نے یہ بات محسوس کی کہ ہمارے عہد کے لوگوں میں سیاسی وضع داری ہے ۔ کوئی چاہے دائیں بازو کا ہے یا بائیں بازو کا ، سوشلسٹ ہے یا مذہبی رحجان رکھتا ہے ، گفتگو میں نہ صرف اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا ہے بلکہ دلائل سے اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ جو شخص اپنے نظریہ پر زندگی گزار دیتا ہے اور انتہا پسندی سے گریز کرتے ہوئے اپنے نظریے کے لئے کام کرتا ہے ، وہ میرے نزدیک بڑا آدمی ہوتا ہے ، چاہے میں اس کے نظریے سے اختلاف کروں یا اتفاق ۔

ویسے بھی پاکستان سے باہر خاص طور پر یورپی ممالک امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا سماجی رویہ بہت پختہ ہے ۔ ہمارے ہاں بھی ایک زمانہ ایسا تھا ، جب دائیں اور بائیں بازوں کے لوگوں میں انتہا پسندی نہیں تھی ۔ 1960ء اور 1970 ء کے عشروں تک دونوں مکتبہ فکر کے لوگوں کا جو لٹریچر شائع ہوتا تھا ، اس میں بہت حساس موضوعات پر مباحث ہوتے تھے ۔ دلیل کا جواب دلیل سے دیا جاتا تھا ۔ کسی بھی تحریر سے مخالفین کو تشدد یا طاقت کے زور پر خاموش کرانے یا ختم کرنے کی بات نہیں کی جاتی تھی اور نہ ہی اس جانب کسی اشارہ کنایہ سے لوگوں کو بھڑکایا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں دائیں اور بائیں بازو کا انتہائی اعلیٰ معیار کا لٹریچر تخلیق ہوا ۔ لندن کی محفلوں میں اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کا وہ زمانہ یاد آتا ہے ، جب علمی اور فکری مباحث جاری تھے اور برداشت اپنی انتہا پر تھی ۔ لندن میں بیٹھے ہوئے یہ دوست اپنی ان اعلیٰ روایات کے محافظ ہیں ۔ میرے خیال میں یہاں کے روادار معاشرے کی وجہ سے یہ اعلی روایات قائم ہیں ، جو پاکستان میں باقی نہیں ر ہیں اور شاید پاکستان میں رہنے والے ہماری نسل کے لوگ بھی ان روایات کو نہیں بچا سکےاور وہ عدم برداشت کے رویوں میں بہہ گئے ۔ ہماری نوجوان نسل تو انتہائی قابل رحم ہے ، جو مباحثے اور مکالمہ کی اہمیت سے واقف ہی نہیں ہے ۔

بہت سے دوستوں نے یہاں لندن میں مجھ سے اصرار کیا ہے کہ میں چونکہ زمانہ طالب علمی سے اب تک کسی نہ کسی طرح سیاست میں سرگرم رہا ہوں ، مجھے اب ایک اور کتاب لکھنی چاہئے ۔ یہاں میرے سارے دوستوں نے میری پہلی کتاب ’’ بھٹو سے بھٹو تک ‘‘ پڑھ رکھی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسی طرح کی ایک اور کتاب لکھوں اور پاکستانی سیاست کے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے مختلف واقعات کا احاطہ کروں اور پہلی والی کتاب کے سلسلے کو آگے بڑھائوں ۔

میں نے دوستوں سے وعدہ تو کیا ہے ۔ اگر چہ عمر بہت زیادہ ہو گئی ہے لیکن کوشش کروں گا کہ وطن واپسی پر ایک نئی کتاب پر کام شروع کر دوں ۔ لندن میں جتنے بھی پڑھے لکھے اور سیاسی وژن رکھنے والے دوستوں سے ملاقات ہوئی ، وہ پاکستان کے حالات کے بارے میں بہت پریشان ہیں ۔ ان کی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات اس صورت حال سے نکلنے کےلئے ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ توڑنے کے لئے تیار نہیں ۔ کیونکہ اس ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ سے ان کے گہرےاور مخصوص مفادات وابستہ ہیں لیکن ان کے خیال میں بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں یہ ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار رکھنا بہت زیادہ خطرناک ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین