• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیران و پریشان کر دینا سابق صدر کی پرانی سیاسی ادا ہے۔ کوئی نہیں جانتا آصف علی زرداری کب سحری کے موڈ میں ہوں اور کب افطاری کی ڈگر پر۔ جو شخص الزامات کا سامنا بھی ایسے مزاج سے کرے جیسے کوئی لطائف اور پہیلیوں سے لطف اندوز ہو ، ایسے شخص کے اعصابی نظام کو بلا کا نروَس سسٹم نہ کہیں تو کیا کہیں؟ ان سب باتوں کے باوجود انہیں ماہرِ معاشیات تسلیم کرنا کم از کم راقم کیلئے ممکن نہیں!

یہ درست ہے کہ اپنے پوسٹر بوائے اسد عمر اور حماد اظہر کے بجائے حفیظ شیخ ہی پر عمران خان کو بھی تکیہ کرنا پڑا، وہ حفیظ شیخ جو زرداری کے دور میں بعد از شوکت ترین 2010 تا 2013 خزانہ کے امور چلاتا رہا۔ زرداری صاحب نے شوکت ترین کو بھی 2008 میں آزمایا ، ایسا ہی عمران خان نےبھی کیا، یہاں مناسبت یہ ہے کہ دونوں ٹیکنوکریٹس کو 2008 اور 2018 والی حکومتوں نے آزمایا تاہم مسلم لیگ نواز ہر صورت میں اسحاق ڈار سے باہر نہ نکلی، اگرچہ مفتاح اسماعیل کو موقع دیا گیا جو ڈار صاحب سے مختلف اکانومی فکر کے حامل ہیں مگر عارضی ہی آزمائے گئے۔ ماہرین کا خیال ہے مستقل بنیادوں پر معاشی معاملات صرف حفیظ شیخ والے زرداری دور ہی میں چلے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان دور میں یہ نتائج کیوں نہ مل سکے؟ اس کا جواب جو ماہرین یا پیپلز پارٹی کے اکابر سے ملتا ہے وہ یہ کہ حفیظ شیخ جب نتیجہ خیز رہے تب زرداری کی رہنمائی تھی۔ 2008 تا 2013 کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ( برآمدات کم، درآمدات زیادہ) بےشمار چیلنجوں، ماضی کی مشرف خرابیوں، اونچے ڈالر، عالمی منڈی میں مہنگے پٹرول اور مہنگے کوکنگ آئل کے باوجود کم تھا، ایک تسلسل بھی ملا جو 2013 سےتا حال نہیں مل سکا۔ اسکے باوجود زرداری صاحب کو ماہرِ اقتصادیات ماننا ممکن نہیں۔ زرداری دور میں توانائی کا بحران حد درجہ تھا جو انہیں مشرف دور سے ملا مگر رینٹل پاور پلانٹس کے باوجود بجلی کے بلوں پر کنٹرول تھا، 2013 کے بعد عالمی منڈی میں ڈالر، پٹرول اور کوکنگ آئل کی قیمتیں بہت زیادہ گریں پھر سعودیہ نے بےتحاشا مدد بھی کی مگر اس کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہتر ہوا اور نہ بجلی کے بلوں پر کنٹرول تھا۔

مزید برآں آصف زرداری نے سی پیک کی شروعات میں کلیدی کردار ہی ادا نہ کیا، ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے کے حصول کے علاوہ گوادر کی اہمیت اجاگر کرکے اسے چائنہ کی مدد سے بین الاقوامی سطح پر عظیم تر کردیا۔ لیکن اقتصادی ابتری یہ سوچنے ہی نہیں دیتی کہ زرداری ایک کمال معاشی وژن کے حامل ہوں گے؟ واضح رہے کہ 2008 سے اب تک سولہ لوگ خزانہ کے قلم دان سے لطف اندوز ہوچکے، جن میں اسحاق ڈار ، حفیظ شیخ اور شوکت ترین ایک سے زائد بار مستفیض ہوئے لیکن وطن عزیز ان سےمستفید نہ ہوسکا۔

کچھ دن قبل آصف زرداری نے پھر سے میثاقِ معیشت پر زور دینا شروع کیا ہے۔ انہوں نے ایک لحاظ سے تجزیہ کی دعوت دی اور کہا ’’ آپ ماضی میں پانچ سال ہماری حکومت بھی دیکھ چکے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بہترین طریقے سے چلائی گئی نہ یہ کہتا ہوں کہ اُس سے بہتر نہیں ہوسکتی تھی بلکہ میرا کہنا یہ ہے کہ دوسروں کی حکومتوں سے کافی بہتر تھی۔‘‘ زرداری صاحب کے حالیہ مزید بیانوں کی جانب بڑھنے سے قبل ماضی کے جھروکے سے دیکھنا ضروری ہے 2008 میں انہیں کن مسائل کا سامنا تھا:

اس وقت بھی پاکستان دیوالیہ ہونے کے درپے تھا، اور آصف علی زرداری نے پہلے برس میں پاکستان کو دیوالیہ سے بچا کر ایک بڑی کامیابی بہرکیف سمیٹی تھی۔ایک ہاتھ سے قرض لینا تو دوسرے ہاتھ سے قرض واپس کرنےکے توازن کو برقرار رکھنے کے سبب پاکستان انٹرنیشنل فلور پر لین دین کے معاملے میں اپنا تاثر بہتر کرنے میں کامران قرار پایا تھا۔ دہشت گردی کا یہ عالم کہ پہلی تقریر کے بعد چند سو گز دور ایک ہوٹل دھماکہ گویا اعلان تھا کہ دہشت گرد چلنے نہیں دیں گے۔ بہرحال دوست ممالک کا فورم بنایا، اور دوستوں کی سفارشات سے آئی ایم ایف سے مشروط قرض لینے میں کامیاب ہوئے۔ دیکھا جائے تو اس حکومت کا پہلا سال بھی زرداری حکومت کے پہلے سال کی طرح ہے لیکن یہاں ہنوز آئی ایم ایف مانا نہیں! زرداری حکومت کو سیلاب، چینی، آٹا اور بجلی بحران نے نانی تو یاد کرادی لیکن زرداری نے پارلیمنٹ کو طاقتور بنا کر دم لیا اور جمہوری وعدوں کو ایفا تک لے کر گئے۔ مگر یہ کیا کہ ان دنوں جمہوریت پر بھی حرف آرہا ہے، اور ایک سال کے بعد معاشی زاویہ میں ادائیگیوں کا بھی عدم توازن ، وزیراعظم مسلم لیگ نواز کا سہی مگر زرداری شراکت تو ہے، مگر رزلٹ نہیں!

خیر، اس میں زرداری معاشی بصیرت بہرحال دکھائی دیتی ہے کہ ملکی برآمدات دوہرے ہندسے تک بڑھانے کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی مدد کے بغیر دو سو ارب کے برآمدی ہدف کے حصول کیلئے پاکستان کے پاس تمام وسائل موجود ہیں، یہ ہم سب اپنے طور پر کر سکتے ہیں۔

بقول زرداری ’’ پنجاب کے بڑے تاجر اکٹھے ہوں، صنعتوں کا انتخاب کریں اور گروپ بنائیں، آپ انہیں بنائیں اور اپنی جیب سے سرمایہ کاری کریں، ہم ضمانت دیں گے، ہم قرضوں کی ضمانت دیں گے، ہم آپ کو سرمایہ کاری کی ضمانت دیں گے۔‘‘اس بات میں بھی فراست ہے۔اس وقت حکومت معاشی اہداف سے بہت دور ہے۔ شرح ترقی 0.29 ، مہنگائی 29.9 فیصدہے۔ آئی ایم ایف کے ڈراموں کے سبب ڈالربےقابو ہے۔ عدالتوں اور سیاستدانوں کے علاوہ بیوروکریسی، تاجروں اور صنعتکاروں کو زرداری کی باتوں سے اتفاق کرنا ہوگا معاشی اٹھان ہی سے معاشرتی، سیاسی اور جمہوری اٹھان ممکن ہے اب پھر سےکسی میثاقِ جمہوریت کے سنگ سنگ میثاقِ معیشت کی ضرورت ہے جس میں ملک بھر کے اسٹیک ہولڈرز کو سر جوڑنا ہوگا !

تازہ ترین