ریڈیو پاکستان پشاور کی آتش زدہ تباہ حال عمارت اپنے دیکھنے والوں سے سوال کر رہی ہے کہ میرا قصور کیا تھا ؟میں تو قوم کی آواز ریڈیو پاکستان ہوں۔میں تو’’ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا ‘‘ سے اپنے دن کا آغاز کرتی ہوں، معلومات بہم پہنچاتی ہوں ، خبروں سے آگاہ کرتی ہوں ، موسیقی سے آپ کا دل لبھاتی ہوں، آپکا پیغام حکومت کو اور حکومت کا آپ تک پہنچاتی ہوں، میں تو سب کو فائدہ ہی دینے والی ہوں آخر میرا قصور کیا تھا کہ مجھے جلا کر بھسم کر دیا گیا ؟سانحہ ریڈیو پاکستان پشاور کو آج کتنے دن بیت چکے مگر اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکا ۔ نو مئی کے پرتشدد واقعات میں ملک بھر میں جناح ہاؤس لاہور، سرکاری عمارتوں اور شہدا کی یادگاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی تسلسل میں ریڈیو پاکستان پشاور کی سرکاری عمارت کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ ریڈیو پاکستان پشاور ملک کا قدیم ترین ریڈیو اسٹیشن ہے۔ تقسیم کے موقع پر جو تین ریڈیو اسٹیشن پاکستان کے حصے میں آئے یہ ریڈیو پاکستان پشاور 1936 ریڈیو پاکستان لاہور 1937 اور ڈھاکہ ریڈیو پاکستان 1947 تھے۔ شرپسندوں نے جب ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت کو نذر آتش کیا تواس کا قدیمی ریکارڈ اور دستاویزات بھی جل کر خاکستر ہو گئیں۔ خدا کا شکر کہ ڈیوٹی پر موجود ملازمین کسی طرح سے جان بچانے میں کامیاب رہے۔ یہ وہی ملازمین تھے جنھیں وزیر اعظم پاکستان کے اعلان اور ہدایت کے باوجود عیدالفطر پر تنخواہ ادا نہیں کی گئی تھی،تاہم اپریل کی تنخواہ سے محروم یہ اہلکار ڈیوٹی پر موجود تھے۔ شرپسندوں کی جانب سے قوم کی آواز ریڈیو پاکستان کو دبانے کی مذموم کوشش کے باوجود ریڈیو ملازمین نے اگلے ہی روزقوم کی آواز کو بحال کرکے شرپسندوں کو یہ پیغام دیا کہ جب تک ریڈیو پاکستان کے ملازمین کے دم میں دم ہے کوئی بھی دشمن قوم کی اس آواز کو خاموش نہ کر سکے گا ۔قارئین کرام ریڈیو ملازمین کا یہ جذبہ قابل صد ستائش ہے تاہم ان کے لبوں پر ایک شکایت بھی مسکرا رہی ہے جسے نہ کوئی دیکھ رہا ہے اور نہ محسوس کر رہا ہے جبکہ جلی ہوئی عمارت کو دیکھنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ ریڈیو پاکستان پچھلے ایک دو سال سے شدید مالی مشکلات سے دوچار ہےکئی کئی ماہ تک تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں۔ دیگر الاؤنس بھی قطعی طور پر بند ہیں ۔ حکومتی ذمہ داران اور وزارتِ اطلاعات کے عہدے داران کا فرمان ہے کہ ریڈیو اپنے ذرائع سے تنخواہوں اور پنشن کا بندوبست کرے۔ جبکہ ریڈیو ملازمین کا کہنا ہے کہ ریڈیو ہرگز کمرشل ادارہ نہیں ہے لہٰذا یہ اپنے طور پر فنڈز کا انتظام کیسے کرے؟قارئین کو یاد ہوگا کہ ریڈیو اور پی ٹی وی کا الگ الگ سالانہ لائسنس بنوایا جاتا تھا جو بعدازاں کچھ سال قبل بند کر دیا گیا۔ پی ٹی وی کی لائسنس فیس بجلی کے ماہانہ بلوں میں لاگو کر دی گئی جبکہ ریڈیو کو ہر دو طرح سے محروم رکھا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے نئے ریڈیو اسٹیشن بھی کھولے گئے اور نئے ملازمین بھی بھرتی کیے گئے۔ اس وقت ملک بھر میں 32 ریڈیو اسٹیشن کام کر رہے ہیں جو روزانہ گیارہ سو چالیس گھنٹے 33 مختلف زبانوں میں نشریات دے رہے ہیں۔ ایف ایم چینلز کا بھی سب سے بڑا نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے۔ حال ہی میں انگریزی چینل ، اسپورٹس چینل اور ٹیک چینل بھی شروع کیے گئے ہیں۔نئی سروسز مثلاً بی بی سی پوڈ کاسٹ ، بی بی سی ٹک ٹاک شروع کی گئی ہیں اسی طرح سنتالیس چینل لائیو اسٹریمنگ پر بھی دستیاب ہیں۔ ملک بھر میں بائیس سو ملازمین آواز پاکستان کو بلند رکھنے میں مصروف کار ہیں جبکہ پینتالیس سو ریٹائرڈ ملازمین ہیں جو پنشن کے حق دار ہیں۔ ان میں ایسے ملازمین بھی شامل ہیں جنہوں نے پاک فوج کے شانہ بشانہ نشریاتی محاذ پر جنگیں لڑیں خاص طور پر 1965کی جنگ میں ریڈیو پاکستان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔
آج دنیا بھر میں ریڈیو سرکاری ترجمان کی صورت میں اپنی شناخت کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہے اور ہر ملک اپنے اس قومی اثاثے کی حفاظت کو فریضہ سمجھ کر ادا کر رہا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں اسے محض ایک عضو معطل بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ٹرانسمیٹر ز اور معاون مشینری پر کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا اور نہ ہی ریڈیو ملازمین کو ان کا بنیادی حق یعنی تنخواہ اور پنشن ادا کی جارہی ہے۔ ریڈیو پاکستان پشاور کی مخدوش عمارت کو دیکھنے والے تو ہزاروں ہیں مگر ملازمین کی خاموش صداؤں کو سننے والا کوئی نہیں۔ہر کوئی عمارت کا رونا رو رہا ہے مگر زندہ مکینوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
پوچھ کر حال سبھی لوگ چلے جاتے ہیں
میں ہوں بیمار تو پھر کوئی دوا دیں مجھ کو